میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ سنگین جاگیردارنہ رجحانات کے عکاس ہیں

گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ سنگین جاگیردارنہ رجحانات کے عکاس ہیں

جرات ڈیسک
پیر, ۲۱ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

گزشتہ چند مہینوں کے دوران، ملک بھر سے گھروں میں کام کرنے والی کم سن بچیوں کے ساتھ جسمانی زیادتی، تشدد اور یہاں تک کہ موت کے حوالے سے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ پہلے واقعے میں دس سالہ بچی رضوانہ کو سول جج کی اہلیہ نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ معصوم بچی کو شدید چوٹیں آئیں اور وہ تاحال زیر علاج ہے۔ایک اور واقعہ اس وقت پیش آیا جب سندھ کے قصبہ رانی پور میں ایک مقامی بااثر شخص کے گھر ایک کمسن بچی فاطمہ پراسرار طور پر جاں بحق ہوگئی۔ تشدد کا نشانہ بننے کے بعد لڑکی شدید غمزدہ تھی اور اچانک دم توڑ گئی۔ پولیس نے ابتدائی طور پر واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے سستی کا مظاہرہ کیا لیکن آخر کار مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔ کچھ دن قبل اسلام آباد میں ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی ایک اور لڑکی کو اس کی خاتون مالکن نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ ان واقعات سے ظاہرہوتا ہے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کا بڑھتا ہوا رجحان بڑے پیمانے پر جاری ہے اور گھریلو کام کاج کیلئے ظالمانہ کارروائیوں کے پے درپے واقعات سامنے آنے کے باوجود ایک ہی دن میں درجنوں قوانین پاس کرنے والے شہباز حکومت نے اس بہیمت کو روکنے کیلئے اور اس کے ذمہ داروں کو سخت ترین سزائیں دے کر ایسے لوگوں کو نشان عبرت بنانے کے بجائے مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی، ان کے اس مزدور دشمن رویہ اور جاگیردارنہ سوچ کی مذمت کی جانی چاہیے۔ اگرچہ بچوں کو گھروں میں کام کے طور پر ملازمت پر رکھنا افسوسناک ہے، لیکن ان ملازم رکھنے والوں کی طرف سے کمسن بچوں کو مسلسل جسمانی اذیت اور جذباتی دباؤ کو نظرانداز کرنا اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اگرچہ اصل اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ چائلڈ لیبر پاکستان بھر میں رائج ہے اور اس میں لڑکوں کے مقابلے میں کم عمر لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے، اس طرح کے بہت سے خاندان ہیں جن کے گھروں میں بچے ملازمت کے امور انجام دے رہے ہیں، یہ ایسا عمل ہے جس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔بچوں کو اکثر ان کے والدین کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور انہیں اس کی معمولی آمدنی ہوتی ہے۔ یہ بچے خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں جن کے کام کا کوئی وقت نہیں ہوتا، بیشتر ملازم رکھنے والے لوگ خود تو اچھے سے اچھا کھاتے ہیں اور پرتکلف بستروں پر شب بسری کرتے لیکن غریب بچے انتہائی خراب حالات میں رہتے ہیں، انھیں وقت پر پیٹ بھر کھانا دینے سے بھی گریز کیاجاتاہے اور فرش پرسلایاجاتاہے بیشتر بچوں کو ہفتہ میں کوئی، چھٹیاں نہیں دی جاتی ہیں، یہاں تک کہ ان کے اہل خانہ ان سے ملنے آتے ہیں تو بیشتر اوقات انھیں اس سے ملنے کی اجازت سے انکار کردیا جاتا ہے۔ بچے زبانی، جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں، اکثر ان کے مالکوں عام طور پر بااثر یا جاگیردار افراد کی جانب سے مار پیٹ اور دھمکیاں دی جاتی ہیں۔گھروں پر بچوں کو کام کرانے والے ماں باپ عام طورپر اتنے غریب ہوتے ہیں کہ وہ ان کی زیادتیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا سوچ بھی نہیں سکتے جبکہ حکومت کی جانب سے ان مظلوموں کی داد رسی کا کوئی انتظام نہیں ہے،جس کی بنیاد پر عدالت میں انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والا جج بھی کھلے عام دھمکی دیتا ہے کہ جو چاہو کرلو تمہیں انصاف نہیں مل سکتا، اس صورت حال کا بنیادی سبب موجودہ قوانین پر موثر عمل درآمد نہ کرناہے۔ اگرچہ پاکستان اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے کنونشن (UNCRC) کا دستخط کنندہ ہے، لیکن اس معاہدے کی توثیق نہیں کی گئی۔ لیبر اور تعلیم کا فریم ورک ہم آہنگ نہیں ہے اور گھریلو چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کی پالیسیوں میں بہت بڑا خلا موجود ہے۔ سیاسی عزم کا فقدان اور اس لعنت کو ختم کرنے کی کوششوں کی بااثر شخصیات کی کھڑی کی گئی رکاٹوں کی وجہ سے سالہاسال سے یہ صورت جاری ہے اور عام آدمی اس طرح کے واقعات پر غمزدہ ہونے کے علاہ کچھ نہیں کرسکتا۔پاکستان کو گھریلو چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے ایک واضح روڈ میپ کی ضرورت ہے۔ یہ عمل بچوں پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتب کرتا ہے اور اسے روکنا ضروری ہے۔غربت، نسلوں سے چلا آتا ہوا سلسلہ اور پسماندہ خاندانوں میں بیداری کی کمی اس طرح کے طریقوں کو فروغ دیتی ہے۔ جب تک ہم اس قدیم طرز عمل سے نفرت کرنے والا معاشرہ تشکیل نہیں دیتے، رضوانہ اور فاطمہ جیسی بے شمار معصوم جانیں عذاب میں مبتلا رہیں گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں