میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ماحولیاتی معاہدے سے امریکا باہر ،اہداف کا حصول مشکل

ماحولیاتی معاہدے سے امریکا باہر ،اہداف کا حصول مشکل

ویب ڈیسک
اتوار, ۴ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

پیرس معاہدے سے نکلنے پر دنیا بھر میں امریکا کی مذمت،عالمی سطح پر کاربن کا جو بھی اخراج ہوتا ہے اس میں امریکا کا 15 فیصد حصہ ہے
ایلون مسک نے احتجاجاوائٹ ہاؤس کی مشاورتی کونسل سے استعفیٰ دے دیا ، پیرس سے الگ ہونا نہ امریکا کے لیے اچھا ہے نہ دنیا کے لیے،ایلون
تہمینہ حیات نقوی
امریکا نے ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے سے باہر ہونے کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اس کا اثر باقی دنیا پر کیا پڑے گا؟امریکا کے نکل جانے سے معاہدہ اور عالمی برادری دونوں متاثر ہوں گے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیرس معاہدے سے باہر نکلنے سے عالمی برادری نے اس معاہدے کے تحت جو اہداف مقرر کیے تھے ان کا حصول اب اور زیادہ مشکل ہو جائے گا۔
پیرس معاہدے کے تحت عالمی سطح پر حدت میں دو ڈگری سیلسیئس سے زیادہ اضافہ نہ ہونے کی بات کہی گئی تھی۔عالمی سطح پر کاربن کا جو بھی اخراج ہوتا ہے اس میں امریکا کا 15 فیصد حصہ ہے وہیں وہ ترقی پذیر ممالک کے لیے ماحولیات سے متعلق ٹیکنالوجی تک رسائی اور مالی امداد کے لیے بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ایک سوال اخلاقی قیادت کا بھی ہے، جسے امریکا ترک کر دے گا اور اس کے دیگر سفارتی سطح پر بھی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔امریکا میں ماحولیات کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم سے وابستہ کارکن مائیکل بروئن کا کہنا ہے ’اس معاہدے سے الگ ہو نا ایک تاریخی غلطی ہے۔‘ان کا کہنا تھا: ’ہمارے پوتے اور نواسے مایوسی سے پیچھے کی طرف یہ سوچ کر دیکھیں گے کہ ایک عالمی رہنما کیسے اس قدر اخلاقی قدروں اور حقیقت سے دور ہو سکتا ہے۔‘
دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیرس معاہدے سے نکلنے کے اعلان کے بعد امریکا میں ایک دفعہ پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کاسلسلہ شروع ہوگیاہے،اور مظاہرین ”ہمیں جینے دو ۔۔۔انسانوں کو جینے دو “،”ڈونلڈ تم نے امریکا کو شرمندہ کردیا“کے نعرے لگاتے ہوئے اور بینر اٹھائے ہوئے مظاہرہ کیااور ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف نعرے لگائے۔
امریکا اور چین کی انتھک کوششوں کے سبب ہی پیرس معاہدہ طے پایا تھا۔ اب جب کہ امریکا نے اس سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے چین نے یورپ کے ساتھ مل کر اس معاہدے پر عمل کرنے کی بات کہی ہے اور اس کی اہمیت پر زور دیا ہے۔یورپی یونین میں ماحولیات سے متعلق کمشنر میگیوئل اریاز نے کہا ’کسی کو بھی اس میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے لیکن یورپی یونین اور چین نے اس سمت میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘امریکی خطے سے کینیڈا اور میکسیکو جیسے ممالک بھی ماحولیات کی بہتری کے لیے اپنا اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔
امریکا کے کارپوریٹ شعبے کے بیشتر لوگ پیرس معاہدے کے حامی ہیں۔ گوگل، ایپل اور فوسل ایندھن کے شعبے میں کام کرنے والی سینکڑوں دیگر کمپنیوں نے صدر ٹرمپ سے پیرس معاہدے پر عمل پیرا ہونے کے لیے زور دیا تھا۔بعض کمپنیوں نے اس کے لیے صدر ٹرمپ کو خطوط لکھے تھے اور اس کی اہمیت اجاگر کی تھی۔
امریکا نے توانائی کے لیے کوئلے کے بجائے دوسرے متبادل ذرائع پر توجہ مرکوز کی ہے اور اس کے اثرات اب دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں بھی نظر آنے لگے ہیں۔برطانیہ نے 2025 ءتک بجلی کے لیے کوئلے سے نجات حاصل کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں شمشی توانائی کے مقابلے میں کوئلے کی صنعت میں روزگار کے مواقع کم ہو کر نصف رہ گئے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک کئی دہائیوں سے توانائی کے بڑے ذریعے کے طور پر کوئلے پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ اس سے ان ممالک میں فضائی آلودگی بری طرح متاثر ہوگی لیکن عوام میں اس سے ناراضگی پیدا ہونے کے امکان بھی کم ہیں۔ امریکی ماہرین نے دعویٰ کیاہے کہ امریکا کے پیرس معاہدے سے نکلنے کے باوجود بھی امریکا میں کاربن کے اخراج میں گراوٹ کی توقع ہے۔ امریکا میں توانائی کا اب زیادہ دار و مدار کوئلے کے بجائے گیس پر ہے اس لیے کاربن میں کمی ہونا لازمی ہے۔
صدر ٹرمپ نے گزشتہ سال سے صدارتی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ اس معاہدے سے امریکا کو نکال لیں گے۔امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پیرس ماحولیاتی معاہدہ 2015سے نکلنے کے اعلان کی دنیا بھر میں مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔اقوامِ متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیریز کے ترجمان نے کہا کہ’یہ بڑی مایوس کن بات ہے،’ جب کہ یورپی یونین نے اسے ’دنیا کا افسوس ناک دن‘ قرار دیا ہے۔تاہم رپبلکن پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے کہا کہ امریکی کوئلے کی صنعت نے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ معاہدہ امریکا کو سزا دیتا ہے اور اس سے لاکھوں امریکی بےروزگار ہو جائیں گے۔سابق امریکی صدر براک اوباما، جنہوں نے پیرس معاہدے کی منظوری دی تھی، نے ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ ’مستقبل کو مسترد کر رہی ہے۔‘ ڈزنی کی چیف ایگزیکٹیو ایلون مسک نے وائٹ ہاو¿س کی مشاورتی کونسل سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ایلون مسک نے کہا: ’ماحولیاتی تبدیلی واقعی رونما ہو رہی ہے۔ پیرس سے الگ ہونا نہ امریکا کے لیے اچھا ہے نہ دنیا کے لیے۔‘
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکا سنہ 2015ءمیں پیرس میں ماحولیات سے متعلق طے پانے والا عالمی معاہدہ ختم کر رہا ہے۔وائٹ ہاؤس میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اس معاہدے سے نکل رہا ہے کیوں کہ اس میں شامل شرائط کی وجہ سے اس پر اقتصادی بوجھ پڑ رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصے میں واشنگٹن کی جانب سے کیے جانے والے یہ ایک ایسے معاہدے کی مثال ہے جس میں دوسرے ممالک کا فائدہ ہے اور وہ امریکا کے لیے ’منصفانہ‘ شرائط کے ساتھ دوبارہ معاہدے کا حصہ بننے کے لیے مذاکرات کا آغاز کریں گے۔
اس فیصلے پر کس نے کیا کہا؟
یورپی رہنماﺅں نے ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے سے متعلق بین الاقوامی معاہدے سے امریکا کی دستبرداری کے اعلان پر برہمی اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔یورپ میں امریکا کے تین بڑے اتحادی ملکوں جرمنی، فرانس اور اٹلی کے سربراہان نے ایک مشترکہ بیان میں امریکی فیصلے پر ”افسوس“ کا اظہار کیا ہے۔کینیڈا کی ماحولیات کی وزیر کیتھرین میکینا کا کہنا ہے کہ کینیڈا کو ٹرمپ کے اس فیصلے سے ’بہت مایوسی‘ ہوئی ہے۔فرانس، جرمنی اور اٹلی کے سربراہان نے ایک مشترکہ بیان میں اس معاہدے سے متعلق امریکا سے دوبارہ کسی قسم کے مذاکرات کرنے کو مسترد کر دیا ہے۔یورپی یونین کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق امور کے کمشنر میگوئیل ایریاس کنیتے نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ امریکی فیصلے نے ”ہمیں کمزور کرنے کے بجائے ہمارا عزم مزید مستحکم کیا ہے۔“کمشنرکنیتے نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ معاہدے سے امریکا کی دستبرداری کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خلا نئی اور پرعزم قیادت پر کرے گی۔ ان کے بقول یورپ اور دنیا بھر میں موجود اس کے اتحادی ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف بین الاقوامی کوششوں کی قیادت کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
پیرس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز وہائٹ ہاﺅس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا تھا۔صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ معاہدہ امریکی مفادات کے خلاف ہے جس میں امریکی معیشت کو بے جا طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔صدر ٹرمپ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ معاہدے پر از سرِ نو مذاکرات شروع کریں تاکہ ان کے بقول ایک ایسا سمجھوتہ کیا جاسکے جو امریکی ٹیکس دہندگان کے لیے بہتر ہو۔یورپی پارلیمنٹ کے صدر انتونیو تجانی نے امریکا کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے نہ صرف خود امریکا بلکہ پوری دنیا متاثر ہوگی۔یورپی پارلیمان میں لبرل ارکان کے گروپ کے قائد گائے ورہوفسٹڈ نے گلوبل وارمنگ کے باعث امریکا کی ریاست ہوائی میں سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح سے متعلق ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔
امریکا گرین ہاﺅس گیسوں کا اخراج کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جس نے پیرس معاہدے کے تحت 2025ءتک ان گیسوں کے اخراج میں 2005ءکی سطح کے مطابق 26 سے 28 فی صد تک کمی لانے پر اتفاق کیا تھا۔گرین ہاﺅس گیسوں کا اخراج کرنے والے سب سے بڑے ملک چین کی حکومت نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ امریکی فیصلے کے نتیجے میں دنیا کے بڑے ملکوں کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوگا۔چین کے وزیرِاعظم لی کیچوانگ نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کی کوششیں اور پیرس معاہدے میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد جاری رکھے گا۔ ماحولیات کی تبدیلی سے موسمی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔پیرس معاہدے کے تحت امریکا اور دیگر 187 ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی درجہ حرات میں اضافے کو2 ڈگری سے نیچے رکھیں۔صدر ٹرمپ نے گزشتہ سال صدارتی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ اس معاہدے سے امریکا کو نکال لیں گے تاکہ کوئلے اور تیل کی صنعت کو فائدہ پہنچے۔مخالفین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے نکلنا امریکی صدر کا ایک عالمی چیلنج کا سامنا کرنے سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔پیرس معاہدے کے تحت امریکا اور دیگر 187 ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی درجہ حرات میں اضافے کو دو ڈگری سے نیچے رکھیں اور مزید کوششیں کر کے اس کو 1.5 ڈگری تک محدود کیا جائے۔ادھر چین اور یورپی یونین کے رہنما پیرس ماحولیاتی معاہدے سے متعلق ایک مشترکہ بیان میں اس مؤقف کے ساتھ اتفاق کرنے والے ہیں کہ یہ ’پہلے سے کہیں زیادہ ضروری اور اہم ہے۔‘


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں