بلوچستان: وڈھ میں دو گروپوں میں تصادم کا دائرہ پھیلنے لگا!!
شیئر کریں
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر وڈھ میں دو مسلح گروہوں کے درمیان تصادم کے باعث علاقے میں کشیدگی برقرار ہے۔اور اب اس تصادم سے پیدا ہونے والی کشیدگی کا دائرہ بلوچستان کے دیگر اضلاع میں بھی پھیلتا جا رہا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حالیہ تصادم کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کے مظاہرین نے خضدار روڈ، کوئٹہ کا ایسٹرن پاس، حب، جاؤ بیلہ اور مستونگ روڈ سمیت متعدد علاقوں کو بند کرنے کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ مذکورہ علاقوں کی بندش کے بعد کوئٹہ جانے والی ٹریفک کو جھاؤ کراس اور نمی بیلہ پر روک دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ وڈھ میں مینگل قبیلے کے دو مسلح گروپ ایک ماہ سے مورچہ بند ہیں جب کہ علاقے میں ایمرجنسی نافذ ہے۔بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب وڈھ کے علاقوں باڈڑی اور زرچین میں فائرنگ اور دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور رات گئے تھم گیا۔پولیس کے مطابق جمعرات کی صبح ایک بار پھر سے علاقے میں گشیدگی بڑھ گئی اور فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ فائرنگ اور گولہ باری سے وڈھ انٹر کالج کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔آخری اطلاعات تک وڈھ میں جاری گشیدگی کو کم کرنے کے لیے پولیس، فرنٹیئر کور (ایف سی) اور لیویز فورسز کو تعینات کیا گیا تھا۔ڈپٹی کمشنر خضدار جمیل احمد کے مطابق فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد زخمی ہو گئے ہیں جنہیں خضدار سول اسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔اُن کے بقول قومی شاہراہ کے اطراف قائم دو نجی چیک پوسٹس ہٹا دی گئی ہیں۔
اصل تنازع کیا ہے؟
وڈھ بلوچستان کے ضلع خضدار کی ایک تحصیل ہے جو کوئٹہ شہر سے تقریباً 368 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وڈھ میں مینگل قبیلے کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے قائد سردار اختر جان مینگل کی آبائی رہائش گاہ ہے۔ اسی وڈھ میں زمین کا تنازع ہے۔ کاغذات میں یہ زمین اختر مینگل کے والد عطاء اللہ مینگل اور ان کے خاندان کے نام پر ہے۔ تاہم میر شفیق مینگل اور ان کے قبائل نے وہاں مبینہ طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔واضح رہے کہ میر شفیق مینگل کے والد میر نصیر مینگل سردار عطاء اللہ مینگل کے اتحادی تھے۔نصیر مینگل 1988 سے انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔دعویٰ کیا جاتا ہے کہ میر شفیق مینگل کے پاس مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد ہے اور یہ ریاستی اداروں کو بھی چیلنج کرتے رہے ہیں۔سن 2014 میں خضدار میں لیویز چیک پوسٹ پر حملے میں آٹھ اہل کاروں کی ہلاکت کا مقدمہ بھی شفیق مینگل کے خلاف درج کیا گیا تھا۔واقعے کے کچھ عرصے بعد شفیق مینگل کو اُن کے آبائی علاقے تک محدود رکھا گیا۔اسی برس توتک سے اجتماعی قبریں ملنے کے معاملے پر بھی اُنگلیاں شفیق مینگل کی طرف اُٹھائی گئی تھیں۔ شفیق مینگل 2018 میں اپنے حلقے سے الیکشن بھی لڑ چکے ہیں اور اُنہیں اختر مینگل مخالف ووٹ ملتا ہے۔یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ وڈھ میں تصادم کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ الیکشن کی آمد آمد ہے اور اس تنازع کو ہوا دی جا رہی ہے۔سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی بھی دونوں گروہوں کے درمیان فائر بندی کے لیے کوشاں ہیں۔
سردار اختر مینگل کا مؤقف
جمعرات سے وڈھ میں جاری گشیدگی کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ وڈھ میں جاری صورتِ حال آج کی نہیں بلکہ یہ مسئلہ عرصہ دراز سے چلا آ رہا ہے۔سردار اختر کے مطابق گزشتہ 20 برسوں سے یہ کشیدگی صرف وڈھ میں نہیں بلکہ پورے بلوچستان میں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا سینٹر پوائنٹ وڈھ ہے۔اختر مینگل کہتے ہیں کہ 2004 سے بلوچستان میں ہونے والے واقعات اور توتک سے اجتماعی قبروں کے نشانات کس طرف جاتے ہیں، یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔اختر مینگل کا الزام ہے کہ ان کے مخالفین نے وڈھ کے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ علاقے میں روزانہ لوگوں کو اغوا کیا جا رہا ہے اور بھتہ خوری عام ہے۔سردار اختر مینگل کے مطابق ایک ماہ سے وڈھ میں دونوں طرف سے لوگ مورچہ بند تھے بدھ کی شام سے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک نوجوان اور ایک بچہ زخمی ہے۔
میر شفیق الرحمان کا موقف
دوسری جانب جھالان عوامی پینل کے سربراہ میر شفیق الرحمان مینگل نے گزشتہ دنوں خضدار میں مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مخالف سردار اختر مینگل نے وڈھ شہر میں ان کی آبائی جائیداوں، دکانوں اور ہوٹلوں پر قبصہ کر رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ 18 برس قبل بھی مصالحتی کمیٹی ہمارے پاس آئی اور کامیاب مذاکرات کے بعد جنگ بندی کی گئی مگر آج 18 سال گزرنے کے باوجود وہ زبان دے کر بھاگ گئے۔میر شفیق الرحمان مینگل نے الزام عائد کیا ہے کہ 2008 سے سردار اختر مینگل نے مختلف کالعدم تنظیموں کے ذریعے ہمارے لوگوں کو نشانہ بنایا۔اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کے 180 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں جب کہ سینکڑوں نجی جیلوں میں ہیں۔
٭٭٭٭