آئی جی کی تقرری پر پی پی شخصیات میں ٹکراؤ، وزیر اعلیٰ بے بس
شیئر کریں
پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ کی دو طاقتور شخصیات آئی جی کی تقرری پر آمنے سامنے۔ وزیراعلی سندھ مراد شاہ بے بس ہو گئے۔ آئی جی سندھ کی تعیناتی سے پہلے 4 ڈی آئی جیز اور 8 ایس پیز کی تقرری ہو گئی۔تفصیلات کے مطابق وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے اعتراف کیا ہے کہ سندھ میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہے۔ صورتحال بہتر کرنے کے لیے فوری انتظامی فیصلوں کی ضرورت ہے آئی جی سندھ کے تقرر میں تاخیر اتحادی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ آئی جی سندھ پولیس کے لیے نام 4 مارچ کو ارسال کیے تھے 20 مارچ ہوچکی وفاقی حکومت نے آئی جی سندھ پولیس کا تقرر نہیں کیا غیر ضروری تاخیر سے قیام امن لیے کوششوں کو نقصان ہو رہا ہے۔ دوسری جانب آئی جی سندھ پولیس کی تقرری سے پہلے ہی عرفان بلوچ ڈی آئی جی ویسٹ۔ احمد نواز چیمہ ڈی آئی ٹریفک۔ اقبال ڈارا ڈی آئی جی ڈرائیونگ لائسنس برانچ اور جاوید جسکانی ڈی آئی جی میر پورخاص تعینات کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عارب مہر ایس پی انویسٹی گیشن ویسٹ ون، ڈاکٹر سمیع اللہ سومرو اے آئی جی آپریشن سی پی او، شہلا قریشی اے آئی جی جینڈر کرائم سی پی او ، سہائی عزیز ایس پی ٹیکنیکل فارنزک اینڈ ایکسپلوزو سی ٹی ڈی کراچی، شمائل ریاض اے آئی جی پولیس ویلفیئر سی پی او ، فاروق بجارانی ایس پی فارنرز سکیورٹی سیل کراچی تعینات کیے گئے ہیں، انور کیتھران اے آئی جی اسٹیبلشمنٹ ٹو سی پی او،عارف اسلم راؤ ایس ایس پی اے وی ایل سی۔ علی بخش عرف نظامانی اے آئی جی ایم ٹی۔ محمود حسین ایس پی پرنسپل لاڑکانہ تعینات ہوئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ سابق آئی جی غلام نبی میمن کی تعیناتی چاہتے تھے لیکن پی پی کی ایک طاقتور رہنما اور ایک اہم وزیر چاہتے ہیں کہ موجودہ آئی جی سندھ رفعت مختار کی خدمات جاری رکھیں یا غلام نبی میمن کو تعینات نہ کیا جائے۔ جبکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے طاقتور حلقے وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کے ساتھ ہیں جس کے باعث آئی جی سندھ پولیس کی تقرری پر کئی دن سے ڈیڈلاک جاری ہے ۔