چورمچائے شور....شامیوں کے قاتل بشار الاسد کا مزاحمت کاروں پر انتہاپسندی کا الزام
شیئر کریں
مغربی ممالک کو شام کے معصوم شہریوں کی کوئی فکر نہیں،اپنی رعایا پر بمباری کرنے والے شامی صدر کامعصومانہ شکوہ
امریکا جھوٹ کو چھپا نہیں سکا ،وہ جن لوگوں کی مدد کررہاہے وہ انتہاپسندہیں اور ان کاتعلق داعش ،جبہة فتح الشام سے ہے
پالمیرا پر دوبارہ قبضے کا مقصدحلب کی فتح کی اہمیت کم کرنااور شامی فوج کی کوششوں کو نظر انداز کرنا ہے ، روسی میڈیا کوانٹرویو
شہلا حیات
شام کے بشارالاسد نے گزشتہ روز روسی ٹی وی چینل 24اور این ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے امریکا پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ شام کی نام نہاد اعتدال پسند اپوزیشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہاہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکا اپنے اس جھوٹ کو چھپا نہیں سکا کیونکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اورامریکا جن لوگوں کی حمایت اور مدد کررہاہے وہ انتہاپسند اور دہشت پسند ہیں اور ان کاتعلق داعش ،جبہة فتح الشام یعنی سابقہ النصرہ فرنٹ سے ہے اور وہ انتہاپسند انہ اور دہشت گردانہ نظریئے کے حامل ہیں۔
بشارالاسد کا مزید کہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ بعض علاقوں میں داعش سے تعلق رکھنے والے کچھ عناصر کو برقرار رکھنا اور پھر نام نہاد اعتدال پسندوں کے ذریعے وہ علاقے داعش سے خالی کرانا چاہتاہے تاکہ اس پر انتہاپسندوں کے ساتھ تعلقات کاالزام نہ لگے۔پالمیرا کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ علاقہ ایک دفعہ پھر داعش کے قبضے میں آگیا ہے ،انھوں نے کہا کہ اس قدیم اور تاریخی شہر پر حملے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیاگیا جب حلب میں لڑائی تیز ہورہی تھی، داعش نے اس وقت حملے شروع کیے جب حلب میں پیش رفت ہورہی تھی ۔ایسا کیوںہوا، اس کے دو مقاصد تھے، اول حلب کو آزاد کرانے کی اہمیت کو کم کرنا اور دوسرے شامی فوج کی کوششوں اور کامیابیوں کو نظر انداز کرنا۔شام کے صدر بشارالاسد نے الزام لگایا کہ پالمیرا پر حملہ کرنے والے بیشتر افراد کو براہ راست امریکی امداد فراہم کی جارہی تھی۔
شام کے سرکاری ٹی وی کے حوالے سے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں میں دعویٰ کیاگیاہے کہ شامی فوجیوں اور ان کے اتحادیوں نے حلب میں غیر ملکی حمایت یافتہ انتہاپسندوں کو منہ توڑ جواب دیاہے اور اب حلب کا 99فیصد علاقہ شامی فوج کے زیر کنٹرول ہے۔بشارالاسد نے دعویٰ کیا کہ حلب کو آزاد کرانے کے باوجود دہشت گردوں کے خلاف شامی فوج کی کارروائیاں نہیں روکی جائیں گی اور کارروائیاں عارضی طورپر ان علاقوں میں روکی گئی ہیں جہاں دہشت گردوں نے ہتھیار چھوڑ کر شہر سے باہر جانے پر آمادگی کااظہار کیاہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم پالمیرا کو بھی دوبارہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے اسی طرح آزاد کرالیں گے جس طرح اس سے قبل شامی فوج نے آزاد کرایاتھا۔انھوں نے کہا کہ اس شہر پر داعش کاکنٹرول تھا اور شامی فوج نے روس کی مدد سے اسے آزاد کرایاتھا اور ہم دوبارہ ایسا ہی کریں گے۔
داعش نے 10ماہ تک پالمیرا پر قبضہ برقرار رکھااورمارچ میں اسے آزاد کرائے جانے سے قبل تک اس شہر پر قبضے کے اس شہر کے قدیم اور تاریخی مقامات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا نے پالمیرا اور حلب میںباغیوں کی پسپائی کے بعد گزشتہ ہفتہ شام کی نام نہاد اپوزیشن کو اسلحہ کی فراہمی پر سے پابندی اٹھانے کااعلان کیا ہے جس سے یہ واضح ہوتاہے کہ امریکا کو شام میں باغیوں کی پسپائی اور امن کاقیام پسند نہیں ہے اور امریکا چاہتاہے کہ شام میں خونریزی کا سلسلہ اس وقت تک اسی طرح جاری رہے جب تک کہ امریکا کے پٹھوباغیوں کو برتری حاصل نہیں ہوجاتی۔ایک سوال کے جواب میں بشارالاسد نے کہا کہ امریکی اسلحہ یا تو داعش کو مل رہاہے یا جبہت فتح الشام کو مل رہاہے اور ان دونوں تنظیموں کاتعلق انتہا پسند دہشت گردوں سے ہے۔ انھوںنے کہا کہ امریکی دغاباز اورغدار ہیں،جب امریکی منصوبے ناکام ہوتے ہیں تو وہ پوری دنیا میں ہمیشہ یہی کیاکرتے ہیں،وہ اس طرح افراتفری پھیلاتے ہیں جب تک انھیںاس وقت تک مختلف فریقوں کو بلیک میل کرنے کاموقع مل سکے جب تک ایسا استحکام قائم نہ ہوجائے جس سے ان کے مقاصد کی تکمیل ہورہی ہو۔
جنگ زدہ شام کی تعمیرنو کے حوالے سے ایک انٹرویو میں انھوںنے کہا کہ ہم روس، چین، ایران اور اس جنگ میں شام کی مخالفت نہ کرنے والے ملکوں کے ساتھ مل کر ان کے تعاون سے جنگ سے تباہ حال علاقوں کی تعمیر نو کریں گے۔
شام کے صدر بشارالاسد نے گزشتہ روز روس کے آرٹی ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو بھی ایک انٹرویو دیا جس میں انھوںنے الزام لگایا کہ مغربی ممالک دہشت گردوں کو بچانے کے لیے سرگرم ہیں اور انھیں شام کے معصوم شہریوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔
ادھر حلب سے ملنے والی اطلاعات سے ظاہرہوتاہے کہ صدر بشارالاسد کے مخالف باغیوں نے شام اور روس کی جانب سے دباﺅ بڑھنے کے بعد ہمت ہار دی ہے اور انھوںنے شام سے بحفاظت انخلا کے لیے روس اور ایران کے ذریعہ ایک معاہدہ کرلیا جس کے تحت حلب کے مشرقی علاقوں میں باقی رہ جانے والے باغی جنگجو اپنے مورچے ختم کرکے وہاں سے نکل جائیں گے اور اس کے بدلے شام کی حکومت چار قصبوں فوعا، کفرایہ ،مضایہ اورالزبدانی سے گرفتار کیے گئے باغی جنگجوﺅں اور ان کے زخمی ساتھیوں کو رہاکردے گی، مشرقی حلب کو خالی کرنے کے لیے وہاں قابض احرار الشام کے مذاکرات کار الفاروق ابوبکر نے صوتی ریکارڈنگ میں باغی جنگجوﺅں کے ساتھ روس اور ایرانی ملیشیا کے ساتھ طے پانے والے اس سمجھوتے کی تصدیق کردی ہے ،اس معاہدے سے قبل شام نے حلب سے شہریوں اور جنگجوﺅں کو نکالنے کاعمل روک دیاتھا اور یہ موقف اختیار کیاتھا کہ عالمی برادری کی جانب سے شہر چھوڑ کر جانے والوں کے تحفظ کی ضمانت ملنے کی صورت ہی میں اب لوگوں کوانخلا کی اجازت دی جائے گی۔شام کی حکومت کی اس شرط کے بعد فرانس نے اقوام متحدہ میںایک قرارداد پیش کی تھی جس میں اقوام متحدہ سےکہاگیاتھا کہ شام میں پہلے سے موجود اقوام متحدہ کے مبصرین کو فوری طورپر حلب بھیجا جائے تاکہ وہاں سے شہریوں اور باغیوں کا انخلا ممکن ہوسکے، اس سے ظاہرہوتاہے کہ حلب اورپالمیرا کی صورت حال کے بارے میں شام کے صدر نے اپنے انٹرویو میں جن خیالات کااظہار کیا ہے وہ بے بنیاد نہیں ہیں،اور امریکا اور دیگر مغربی ممالک شام میں جنگجوﺅںکی بالواسطہ یابلاواسطہ مدد کرتے رہے ہیں۔