تحریک انصاف کے احتجاج پر حکومت کی بوکھلاہٹ
شیئر کریں
پی ٹی آئی کے بانی اور قائد عمران خان نے اپنے چاہنے والوں کو 24نومبر 2024ئکو اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال دیدی ہے۔ 24 نومبر کے احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے کمیٹی کے ارکان کے نام سر دست اخفا میں رکھے گئے ہیں مبادا ان کو اٹھا لیا جائے۔تحریک انصاف نو مئی کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے،تحریک انصاف کے لیڈروں اور کارکنوں کی رہائی اور اپنے مبینہ چوری شدہ مینڈیٹ کی واپسی کے مطالبات کرتی رہی ہے۔اب جو مطالبات سامنے آئے ہیں ان میں نو مئی کی تحقیقات کا مطالبہ شامل نہیں ہے تا ہم ایک نیا مطالبہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خاتمے کا سامنے آیا ہے۔مینڈیٹ کی واپسی کا مطالبہ بدستور موجود ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے پارٹی قیادت کو متنبہ کیا ہے کہ اگراختلافات کے باعث 24 نومبر احتجاج متاثر ہوا تو سخت کارروائی ہوگی۔ وزارت اعلیٰ اور وزیروں کی کرسیاں بدلتی رہیں گی مگر اختلافات نہیں ہونے چاہئیں، ہر کوئی ہر وقت سیاسی عہدوں پر نہیں رہتا،عہدے اور کرسیاں بدلتی رہتی ہیں۔ بشریٰ بی بی کے اس انتباہ سے ظاہرہوتاہے کہ بشریٰ بی بی آئندہ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کو 24 نومبر کے احتجاج میں کارکردگی سے مشروط کرچکی ہیں۔پارٹی ذرائع نے اندرون خانہ اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اگلے عام انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج کے دوران پی ٹی آئی قیادت کی کارکردگی سے منسلک ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ہاؤس میں 24 نومبر کے احتجاج پر ہونے والے اجلاس میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں، ایم این ایز، ایم پی ایز، پشاور اور خیبرپختونخوا کے جنوبی علاقوں میں ضلعی سطح کے پارٹی عہدیداروں اور انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور انصاف یوتھ ونگ سمیت متعلقہ تنظیموں نے شرکت کی تھی۔بشریٰ بی بی نے پارٹی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ احتجاج کے دوران گرفتاریوں سے بچیں جب کہ احتجاج کے لیے موثر تحریک اور وفاداری کی بنیاد پر ہی پی ٹی آئی میں ان کے مسقبل کا فیصلہ ہوگا۔انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ احتجاج کے دوران توقعات پر پورا نہ اترنے والے رہنماؤں کی پارٹی کے ساتھ دیرینہ وابستگی بھی انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کی ضامن نہیں ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ہونے والا احتجاج پی ٹی آئی سے وفاداری کا امتحان ہے، ہمارا ہدف عمران خان کی رہائی کو یقینی بنانا ہے اور ہم ان کے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں آئیں گے۔ذرائع کے مطابق بشریٰ بی بی نے پارٹی رہنماؤں کو بتایا کہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایت کے مطابق تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنے حلقوں سے نکلتے وقت اپنے قافلے کے ہمراہ ویڈیوز بناکر بھیجیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ قافلے میں خالی گاڑیاں شمار نہیں ہوں گی بلکہ تمام رہنماؤں کو گاڑی کے اندر موجود لوگوں کی ویڈیوز بنانا ہوں گی۔ پچھلے اجلاس میں یہ طے ہوا تھا کہ پچھلے احتجاج کے برعکس اس بار خیبرپختونخوا سے قافلے الگ الگ روانہ ہوں گے، اسلام آباد روانگی کے لیے ہر ایم پی اے کو 5 ہزار اور ایم این اے کو 10 ہزار افراد لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے ۔تحریک انصاف کی طرف سے ایک مرتبہ پھر ڈی چوک کو مرکز بنانے کا اعلان کیا گیا ہے پاکستان تحریک انصاف کے حتمی احتجاج کی تیاریوں اور بشریٰ بی بی کی جانب سے جاری کی جانے والی ہدایات نے حکمرانوں کی صفوں میں کھلبلی مچادی ہے اور حکومت نے اس احتجاج سے نمٹنے کیلئے ابھی سے منصوبہ بندی شروع کردی ہے ،اور اس احتجاج سے قبل ہی انتظامیہ نے ایک بار پھر وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی جانب سے اسلام آباد میں 2 ماہ کیلیے دفعہ 144 کے نفاذ کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے، جس کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں5 یا5سے زیادہ افراد کے اکھٹے ہونے پر پابندی ہے۔نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں مذہبی، سیاسی یا کسی بھی قسم کے اجتماع پر پابندی عائد ہوگی۔ اس سے قبل بھی اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی جو گزشتہ روزہی ختم ہوئی تھی۔ احتجاج کی کال پر حکومت کی پریشانی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت بلاول زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے بدلتے ہوئے تیور کی وجہ سے موجودہ حکومت خود کو پہلے سے بہت ز یادہ کمزور تصور کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ حکومت پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ تحریک انصاف کے احتجاج کو کچل کر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ حکومت کو کمزور تصور کرنے والو ں کا خیال درست نہیں ہے ،اور وہ اب بھی ہرطرح کے چیلنجز کا مقابلہ کرسکتی ہے ،دوسری جانب حکومت کی جانب سے تحریک کو کچلنے کیلئے پیشگی اقدامات کے باوجود پی ٹی آئی قیادت تیاریوں میں مصروف ہے۔ احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی خاصی متحرک نظر آرہی ہیں اور انہوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس خیبرپختونخوا میں پارٹی قیادت و رہنماؤں سمیت اراکین اسمبلی سے میٹنگز بھی کی ہیں،جبکہ تحریک انصاف پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں موجود اپنے حامیوں سے بھی 24 نومبر کو احتجاج کرنے کو کہا ہے۔
جہاں تک تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کی کال کا تعلق ہے تو جمہوری نظام میں احتجاج کا حق کسی سیاسی پارٹی یا غیر سیاسی تنظیم سے چھینا نہیں جا سکتا ۔تحریک انصاف کی طرف سے کارکنوں کو پرامن رہنے کیلئے کہا گیاہے ،لیکن احتجاج کو روکنے کیلئے حکومت کی جانب سے اختیار کئے گئے فسطائی ہتھکنڈے احتجاج کے شرکا کو اشتعال دلاتے ہیں اور اچھے خاصے پر امن مظاہرین تشدد پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ یہ ایک مسلمہ امرہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے زیادتیاں جلتی پر تیل کا کام دیتی ہیں اور پرامن کارکن بھی جوش جذبات میں بے قابو ہو جاتے ہیں۔ جس کا خمیازہ عام شہریوں کوبھگتنا پڑتا ہے۔ جبکہ حکومت چاہے تومعاملات خوش اسلوبی سے مذاکرات کے ذریعے بھی طے ہو سکتے ہیں۔بہتر ہے کہ حکومت احتجاج کو روکنے اور دبانے کیلئے روایتی فسطائی طریقے اختیار کرنے کے بجائے افہام وتفہیم کا راستہ اختیار کرے۔
یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ پی ٹی آئی عمران خان ہے اور عمران خان اپنے چاہنے والوں کیلئے ایک مرشد اور پیر کامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی زبان سے نکلنے والی بات ان کے لئے حکم کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احتجاج کی کال ملتے ہیں عمران خان کے مریدین نے سوشل میڈیا پر ایک سماں باندھ دیا ہے اور ایسا معلوم ہونے لگاہے کہ 24 نومبر کو سب کچھ الٹ پلٹ ہو جائے گا۔ تاج و تخت اچھال دیئے جائیں گے، حکومت کے دن گنے جائیں گے بالفاظ دیگر 24نومبر ڈی ڈے بن گیا ہے۔ عمران خان آخری بال تک کھیلنے اور کھیلتے رہنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے سیاست میں بھی آخری کال دے دی ہے، اب تخت یا تختہ کئے جانے کے لئے کارکن نہیں بلکہ مریدین کو دعوت جہاد دے دی گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مریدین میں شوق شہادت کہاں تک ہے۔ وہ اپنے مرشد کی رہائی کیلئے جانوں کی قربانی دینے کے لئے شوق شہادت لئے کیسے میدان جہاد میں اترتے ہیں۔ گنڈاپور پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ ہم اب کفن باندھ کر نکلیں گے وہ کہہ رہے ہیں کہ اس بار واپسی نہیں ہوگی گویا مقاصد کے حصول تک یا مطالبات پورے ہونے تک میدان جنگ سے واپسی نہیں ہوگی۔
پاکستان تحریک انصاف صوابی کے جلسے میں لاکھوں افراد نے پورے پاکستان سے شرکت کی اس جلسہ کے موقع پر وزیراعلیٰ خبر پختون خواہ علی امین خان گنڈا پور نے تمام شرکا سے حلف لیا تھا اور خود حلف پڑھا کہ عمران خان جب مجھے کال دینے کا کہیں گے تو ہمیں سروں پر کفن باندھ کر نکلنا ہے اور ہم اس وقت تک واپس گھروں کو نہیں جائیں گے جب تک عمران خان ہمارے ساتھ جیل سے باہر نہیں ہوں گے ، ہم مر جائیں گے مٹ جائیں گے جیلوں میں چلے جائیں گے لیکن عمران خان کو ساتھ لے کر جائیں گے۔ اس جلسہ میں خاص جو بات تھی وہ یہ تھی کہ جلسہ گاہ میں آنے والے لوگ مکمل طور پر چارج تھے اور ان کا جذبہ اور جوش ہوش کے ساتھ وہی تھا جو 8 فروری کو تحریک انصاف کے کارکنوں نے بغیر نشان کے عمران خان کے نام پر ان لوگوں کو ووٹ دیے جن کو اپنے محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا دیکھنے میں آیا پنجاب کے متعدد بڑے شہروں لاہور فیصل آباد سے مسلم لیگ نون کا صفایا کر دیا گیا اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھی لاہور سے فارم 47 کا شکارہوئے۔47 فارم پر قائم ہونے والی حکومت نے اس طریقے سے قانون سازی کی آئینی ترامیم پاس کیں جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی،اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کی جیل سے رہائی جلد متوقع ہے کیونکہ حکومت نے ان پر جتنے بھی مقدمات بنائے ہیں وہ تمام تر عدالتوں میں جا کر اپنی حیثیت کھو چکے ہیں کیونکہ مقدمات درج کرنے والوں نے ایسے معاملات اس میں درج کیے جن کا کوئی سر پیر ہی نہیں تھا خاص طور پر 9مئی کے واقعات میں ایک ہی شخص پر8 اور 10 جگہ مقدمات درج کئے گئے ٹائم بھی ایک تھا لیکن لاہور راولپنڈی میانو الی اور دیگر اضلاع میں ان پر مقدمات درج کیے گئے جلدی میں درج کئے گئے ان مقدمات میں رہ جانے
والی خامیاں ہی تھیں جن کی وجہ سے عمران خان کی دونوں بہنیں اور بشریٰ بی بی جیل سے باہر آ چکی ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں اور اس ملک کے قیمتی وسائل کو اپنے ہی عوام کے خلاف آنسو گیس کے استعمال اور دیگر حربوں پر ضائع کرنے کے بجائے افہام وتفہیم کا راستہ اختیار کریں اور بدتر کا انتظار کرنے کے بجائے حالات کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔