میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مسلم لیگ کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کی کوشش

مسلم لیگ کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کی کوشش

منتظم
جمعه, ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

ریلوے کے وفاقی وزیر خواجہ محمد سعد رفیق نے کہا ہے کہ ڈنکے کی چوٹ پر سب کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ مسلم لیگ (ن) کے سپریم لیڈر نواز شریف ہیں کوئی دوسرا نہیں ہے، نہ کوئی دوسرا لیڈر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ،نہ کوئی بن سکتا ہے۔ تمام کوششوں اور سازشوں کے باوجود (ن) لیگ کو ڈس کریڈٹ نہیں کیا جا سکا۔ دو، چار، پانچ لوگوں کا ہرجماعت میں آنا جانا لگا رہتا ہے یہ کسی شمار میں نہیں آتے۔ سعد رفیق نے ان خیالات کا اظہار نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ ان کا کہنا تھا جس طرح سیاستدانوں کے مائنڈ سیٹ میں وقت گزرنے کیساتھ تبدیلی آتی ہے اسی طرح ریاستی اداروں کے اندر بھی گرومنگ کا عمل چلتا رہتا ہے اس کو چلتے رہنا چاہیے ابھی کچھ وقت لگے گا ہم اس جمہوریت کی منزل کو چند سال میں ضرور پالیں گے۔ جس کا خواب ہم سب اپنی اپنی جگہ بیٹھے دیکھتے ہیں۔ اداروں میں پارلیمنٹ بھی شامل ہے صدر اور وزیراعظم بھی ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ افواج ایک ادارہ ہے اور عدلیہ بھی ایک ادارہ ہے۔ بعض اوقات لگتا ہے کہ ادارے مختلف سمتوں میں حرکت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایک سوال پر کہ کیا پارٹی سے 30 , 35 یا 50 ارکان کے اکٹھے جانے کا امکان موجود ہے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ لوگوں کا اس بار اجتماعی خود کشی کا ارادہ نہیں ہے۔
نااہل قرار دئے گئے نواز شریف کے بارے میں سعدرفیق کا یہ بیان ان کی خوش فہمی یاصورتحال سے لاعلمی کانتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نوازشریف کو سیاسی طورپر زندہ رکھنے اور مسلم لیگی کارکنوں اور ارکان اسمبلی کو یہ تاثر دینے کی کوشش ہی قرار دیاجاسکتاہے کہ وہ دوبارہ اس ملک کے وزیر اعظم بن جائیں گے اس کامقصد سوائے پارٹی کواگلے انتخابات تک ٹوٹ پھوٹ سے بچانے اورپارٹی کے ارکان اسمبلی کو پارٹی چھوڑ کر جانے سے روکنے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ یہ ایک واضح امر ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دئے جانے کے بعد جب نواز شریف اگلے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لے سکیں گے تو وہ وزیر اعظم کی کرسی کیسے سنبھال سکتے ہیں، یہ موٹی سی بات شہباز شریف بھی جانتے ہیں اور ناال قرار دئے گئے نواز شریف کی صاحبزادی مریم صفدر بھی سے اس سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف گردش حالات کا شکار ہوکر ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ کاش میاں صاحب شریف خاندان کے مفاد کے بجائے اپنے ایک کروڑ 50 لاکھ ووٹرز اور مسلم لیگ(ن) کے سیاسی مستقبل کا سوچتے اور30 سال کی فعال سیاست کے بعد سونیا گاندھی جیسا کردار قبول کرلیتے اور مسلم لیگ کا صدر بننے کی بجائے پارٹی کے رہبر کاکردار قبول کرلیتے تو مسلم لیگ(ن) کی حکومت سیاسی وآئینی بحران کا شکار نہ ہوتی۔لیکن ہرمرتبہ انتہائی بے عزتی کے ساتھ وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کئے جانے کے باوجود پاکستان کے تین بار وزیراعظم بننے والے نواز شریف نے اپنی سابقہ کوتاہیوں سے سبق سیکھنے اور حالات کاصحیح تجزیہ کرکے اس کے مطابق قدم اٹھانے پر توجہ دینے کے بجائے اخلاقی اقدار اور آئینی، قانونی اور جمہوری روایات سے ٹکرانا شروع کردیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے قانون تبدیل کرا لیا اور پارٹی کے آئین میں بھی تبدیلی کرکے مسلم لیگ(ن) کے صدر بن گئے۔لیکن شاید انھیں اس بات کااندازہ نہیں ہے کہ ان کے اس غیر اخلاقی اور غیر جمہوری عمل نے انہیں سیاسی طور پر مزید کمزور کردیا ہے۔ میاں صاحب اگر میاں شہباز شریف یا چوہدری نثار علی خان کو مسلم لیگ(ن) کا صدر بنادیتے تو پارٹی اور حکومت دونوں پران کی گرفت مضبوط رہتی۔ میاں صاحب نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی افسوسناک روایت قائم کی ہے۔یہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ حکومت ریاست کے دو طاقتور اداروں، عدلیہ اور پاک فوج سے ٹکرا رہی ہے۔ تصادم اور محاذ آرائی کی یہ پالیسی مسلم لیگ(ن) کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے جس کا اندازہ میاں صاحب کو چند ماہ کے اند راس وقت ہوجائے گا جب مسلم لیگ(ن) کے انتخابی گھوڑے دوسری سیاسی جماعتوں کا رخ کرنے لگیں گے۔
میاں صاحب لندن میں بیٹھ کر وفاقی حکومت کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بااختیار وزیراعظم نہیں ہیں وہ واضح طورپر برملا اس بات کااظہار کرچکے ہیں کہ اصل وزیر اعظم نواز شریف ہیں،وہ حکومت کو اطمینان سے چلانے کے لیے اپنے وزرا کو ریاستی اداروں پر تنقید سے روکتے ہیں مگر وزرامیاں صاحب سے ہدایات لے رہے ہیں۔ وزیر داخلہ احسن اقبال بزعم خود ’’ڈپٹی وزیراعظم‘‘ بن چکے ہیں اوراب انھوں نے اپنی وزارت پر توجہ دینے امور داخلہ کو درست کرنے کی بجائے دوسری وزارتوں میں مداخلت شروع کردی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ احتساب عدالت کے سامنے ’’فتنہ فساد‘‘ کی بنا پر جج صاحب کو سماعت ملتوی کرنا پڑی۔ اعتدال پسند وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے بیانات میں انتہا پسندی آتی جارہی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے معیشت کے بارے میں بیان پر ردعمل ان کی ذمے داری نہیں تھی۔ وفاقی حکومت کی ترجمان مریم اورنگ زیب وضاحت کرسکتی تھیں۔
وفاقی حکومت خود آئین سے انحراف کرنے لگی ہے جس پر عدالتوں کو اس کی گرفت کرناپڑتی ہے۔ جو حکومت خود ماورائے آئین فیصلے کرتی ہو وہ ریاست کے اداروں کو آئین کا پابند بنانے کا جواز ہی کھو بیٹھتی ہے۔ تحریک انصاف اور پی پی پی دونوں نے انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اْمیدواروںکے لیے پارٹی ٹکٹوں کا فیصلہ کیا جارہا ہے۔سیاسی میدان میں نئی صف بندیاں ہورہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی اتحاد اور سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمینٹ کے لیے مشاورت جاری ہے۔ ایم ایم اے کو بحال کرنے کے لیے مذہبی جماعتوں کے اجلاس ہورہے ہیں۔ جناب لیاقت بلوچ پر اْمید ہیں کہ ایم ایم اے بحال ہوجائے گی۔ سوشل میڈیا پر پاکستان کے باشعور عوام متحرک اور فعال ہیں۔ سوشل میڈیا رائے سازی کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں کھل کر فوج کے حق میں بیانات جاری کررہی ہیں ۔ آصف علی زرداری، خورشید شاہ اور اعتزاز احسن کے فوج کے حق میں تازہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے ریاستی اداروں سے کھلم کھلا محاذ آرائی کرکے جو خلا پیداکیا ہے پی پی پی اسے حاصل کرنے کے لیے سرگرم کوشش کررہی ہے۔
تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عمران خان نے آصف زرداری کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے ورکرز کنونشن سے اپنے خطاب میں دوٹوک الفاظ میں اعلان کردیا ہے کہ وہ پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں اور اگر شریف خاندان نے انصاف اور احتساب کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو تحریک انصاف کے کارکن احتساب کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اسلام آباد میں ایسا احتجاج کریں گے کہ کسی کو کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ملے گی۔ حکومتی محاذ آرائی، نااہلی اور بدانتظامی کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی معاشی بحران سنگین ہوتا جائے گا اور موجودہ حکومت اپنی ٹرم پوری نہیں کرسکے گی اور قبل ازوقت انتخابات ناگزیر ہوجائیں گے۔
جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کے مطابق ایک آئینی راستہ یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ افہام و تفہیم سے قبل از وقت انتخاب پر راضی ہوجائیں ۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ سیاستدانوں نے اس معیار کی بصیرت اور بلوغت کا مظاہرہ کم ہی کیا ہے اور راستہ اکثر اوقات حالات کے جبر نے ہی نکالا ہے۔زوال پذیر معیشت قبل از وقت انتخابات کی بڑی وجہ بن سکتی ہے۔
ریاستی اداروں کے درمیان موجودہ محاذ آرائی ختم کرنے کا واحد آئینی آپشن قبل ازوقت انتخاب ہی ہیں۔ موجودہ صورت حال میںخیال اغلب ہے کہ عدلیہ اور پاک فوج دونوں نئے انتخابات کی حمایت کریں گے۔ اگر ہماری پہلی محبت پاکستان سے ہو تو ہم لازمی طور پر اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ کوتاہیوں کے باوجود ہمیں پاک فوج کو مضبوط بنانا چاہیئے تاکہ پاکستان کے دشمن اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں