عمران خان مودی سرکارکے نشانے پر،اسرائیلی سافٹ ویئرسے جاسوسی کاانکشاف
شیئر کریں
اسرائیلی سافٹ ویئر کے ذریعے موبائل پر کی جانے والی گفتگو کی جاسوسی کے لیے وزیراعظم عمران خان کے پرانے نمبر کو بھی ہٹ لسٹ میں رکھا گیا تھا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی معاونت سے مکمل ہونے والے عالمی خبر رساں ادارے کی انویسٹی گیشن رپورٹ میں اسرائیلی کمپنی ایس این او کے سافٹ ویئر کے ذریعے دنیا بھر کے 50 ہزار سے زائد اہم سیاسی، سماجی اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے موبائل فونز کی جاسوسی کا انکشاف کیا گیا ہے۔اس بہتی گنگا میں سب سے زیادہ بھارتی وزیراعظم مودی نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ اسرائیلی کمپنی ایس این او کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے مودی سرکار نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ اپنی ہی کابینہ کے وزرا اور حلیفوں کی جاسوسی کروا کے پست ذہنیت اور بزدلی کا ثبوت دیا ہے۔انویسٹی گیشن رپورٹ کے اقتباسات جیسے جیسے منظر عام پر آرہے ہیں ویسے ویسے مودی سرکار کے سیاہ کارنامے بھی بے نقاب ہو رہے ہیں۔ ہیکنگ اور جاسوسی کے لیے دنیا بھر کے 180 صحافیوں کے موبائل نمبر کی فہرست بھی ملی ہے۔اس حوالے سے یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ اسرائیل کے سافٹ ویئر کے ذریعے موبائل فون کی جاسوسی کے لیے بھارت کے اپوزیشن رہنما راہول گاندھی کا نمبر بھی فہرست میں موجود تھا، اسی طرح انویسٹی گیشن صحافیوں کو وزیراعظم عمران خان کا پرانا موبائل نمبر بھی اسی ہٹ لسٹ میں ملا۔بھارتی اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ موبائل فون کے حوالے سے ہر مہینے دو مہینے بعد مجھے کوفت بھری عجیب صورت حال کا سامنا رہا ہے اور میں کافی تنگ ہوا ہوں۔ اسی طرح بھارتی صحافیوں نے بھی دو تین بار اپنے موبائل فونز ہیک ہونے کی تصدیق کی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فہرست میں موجود موبائل نمبرز میں سے 67 نمبروں کے زیر استعمال اسمارٹ فونز کا فرانزک جائزہ لیا جن میں سے 23 پر ہیکنگ کامیاب رہی تھی تاہم 14 پر ہیکنگ حملے کامیاب نہ ہوسکے بقیہ کے موبائل سیٹ تبدیل ہونے کی وجہ سے ثبوت نہیں مل سکے۔یوں تو جاسوسی سافٹ ویئر کے صارفین میں دنیا کے 12 ممالک شامل ہیں تاہم سب سے زیادہ جن لوگوں کے موبائل نمبرز ہیکنگ کے لیے سامنے آئے ہیں وہ یا تو مودی مخالف صحافی اور سیاست دان ہیں یا پھر بھارت کے پڑوسی ممالک کی اہم شخصیات ہیں۔واضح رہے کہ یہ انویسٹی گیشن فرانس کے غیر منافع بخش صحافتی ادارے فوربڈن نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے فرانزک اور دیگر تکنیکی معاونت سے 10 ممالک میں 17 خبر رساں اداروں کے 80 سے زائد صحافیوں کی مدد سے مکمل کی ہے۔