میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حکومت کو تین ماہ میں تمام آئی پی پیز سے دوبارہ بجلی خریداری کے معاہدوںکی سفارش

حکومت کو تین ماہ میں تمام آئی پی پیز سے دوبارہ بجلی خریداری کے معاہدوںکی سفارش

ویب ڈیسک
پیر, ۲۰ اپریل ۲۰۲۰

شیئر کریں

مہنگی بجلی اور گردشی قرض کی وجوہات کے لئے قائم کمیٹی نے آئی پی پیز کی مبینہ بلیک میلنگ کی کوشش پر ان کے پلانٹس ریٹائر کرنے اور فورنزک آڈٹ شروع کرنے کی تجویز دیتے ہوئے حکومت کو تین ماہ میں تمام آئی پی پیز سے دوبارہ بجلی خریداری کے معاعدے کرنے کی سفارش کر دی ، نجی ٹی وی کے مطابق گزشتہ بیس سالوں سے ملک میں جاری بدترین توانائی بحران کے حل کیلئے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر سابق چیئرمین ایس ای سی سی علی محمد کی سربراہی میں نو رکنی کمیٹی قائم کی گئی جس نے اس سال 20 مارچ کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کر دی تین سو صفحات پر مشتمل رپورٹ سابق چیئرمین ایس ای سی پی محمد علی کی سربراہی میں قائم 9 رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے جاری کی کمیٹی میں وزارت بجلی، ایس ای سی سی، نیپرا سی پی پی اے ، این پی سی سی، این ٹی ڈی سی اور آئی ایس آئی کے نمائندے شامل تھے ،وزیراعظم کی ہدایت پر 7 اگست 2019 کو کمیٹی قائم کی گئی جس نے 20 مارچ کو رپورٹ پیش کی،1994 کی پاور پالیسی کے تحت قائم 16 آئی پی پیز نے مجموعی طور پر 52 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ 25 سالوں میں ان آئی پی پیز نے مجموعی طور پر 415 ارب روپے کا منافع حاصل کیا ،ان کمپنیوں نے اپنی سرمایہ کاری پر 40 سے 79 فیصد منافع حاصل کیا ۔رپورٹ کے مطابق 2002 کی پاور پالیسی کے تحت 13 آئی پی پیز نے مجموعی طور پر 58 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ،گزشتہ 9 سالوں میں ان آئی پی پیز نے 203 ارب روپے کا منافع کمایا ،ان کمپنیوں نے سرمایہ کاری پر 87 فیصد منافع حاصل کیا ،صرف فیول کی مد میں ان کمپنیوں نے 64 ارب 22 کروڑ روپے کا ناجائز منافع حاصل کیا ۔رپورٹ کے مطابق آئی پی پیز نے زیادہ بجلی پیداواری ٹیرف حاصل کرنے کیلئے نیپرا کو غلط معلومات دیں ،کمرشل آپریشنز ڈیٹ ٹیرف کیلئے غلط معلومات فراہم کی گئیں ،2002 پاور پالیسی والے آئی پی پیز نے فیول کی مد میں 210 ارب روپے کی اضافی وصولی کی ،آئی پی پیز نے اپنا ہیٹ ریٹ کم ظاہر کیا ۔رپورٹ کے مطابق 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے پاور پلانٹس کو 105 ارب روپے کی اضافی ادائیگی کی جا چکی ،طریقہ کار کو درست نہ کیا گیا تو آئندہ چند سالوں میں یہ کمپنیاں 1ہزار 23 ارب روپے کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گی ۔ رپورٹ کے مطابق 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے پاور پلانٹس کو 105 ارب روپے کی اضافی ادائیگی کی جا چکی ،طریقہ کار کو درست نہ کیا گیا تو آئندہ چند سالوں میں یہ کمپنیاں 1ہزار 23 ارب روپے کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گی ،2002 پالیسی والے پاور پلانٹس کو اوسط 4 ارب 50 کروڑ روپے سالانہ کیپیسٹی پیمنٹ کی گارنٹی ہے ،اوچ پاور پلانٹ کو کیپیسٹی پیمنٹ میں ساڑھے 9 ارب روپے اور ساہیوال پاور پلانٹ کو ساڑھے 42 ارب روپے دینا پڑتے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق تھرمل پاور پلانٹس کے علاوہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں کوئلے اور شوگر مل پلانٹس بھی شامل ہیں ، 2015 کی پاور پالیسی کے تحت کوئلے پر چلنے والے دو پلانٹس لگائے گئے ۔رپورٹ کے مطابق ایک پلانٹ نے دو سال میں سرمایہ کاری شدہ رقم کا 71 فیصد وصول کر لیا ،دوسرے پلانٹ نے اپنی سرمایہ کاری کا 32 فیصد ایک سال میں وصول کر لیا ،ان کمپنیوں کو سرمایہ کاری پر امریکی ڈالر میں 17 فیصد کا انٹرنل ریٹ اف ریٹرن دیا گیا ،ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے باعث ان کمپنیوں کی ریٹرن آن ایکویٹی 43 فیصد ہو گئی ، کوئلے والے پاور پلانٹس کو تعمیر کے دوران قرض کے سود کی مد میں 32 ارب 50 کروڑ روپے ناجائز فراہم کیے گئے ۔رپورٹ کے مطابق 2013 کی پاور پالیسی کے تحت شوگر ملوں نے گنے کے پھوک سے بجلی پیداوار 45 فیصد ظاہر کی حالانکہ پیداوار زیادہ تھی ،شوگر ملوں نے بجلی پیداوار کم ظاہر کر کے 6 ارب 33 کروڑ روپے کا ناجائز فائدہ اٹھایا ۔رپورٹ نے آئی پی پیز کی بلیک میلنگ اور لندن کی ثالثی عدالت میں جائے کی دھمکی روکنے کا مستند طریقہ کار بھی بتا دیا ،حکومت کے پاس مہنگی بجلی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے صرف دو طریقہ کار ہیں ،رپورٹ کے مطابق ان کمپنیوں کے ساتھ دوبارہ سے بجلی خریداری کے معائدے کیے جائیں ،آئی پی پیز اگر مذاکرات پر آمادہ نہ ہوں تو فوری طور پر انکے فارنزک آڈٹ کا حکم دیا جائے ، بجلی خریداری معائدے صرف خریدو اور پیسے دو کی بنیاد پر کیے جائیں ، رپورٹ کے مطابق آئی پی پیز اگر دباؤ ڈالیں تو 1994 اور 2002 کی پالیسی کے تحت لگنے والے پلانٹس کو ریٹائر کر دیا جائے ،2002 پالیسی والے 11 پلانٹس کو ریٹائر کرنے سے حکومت کو 740 ارب روپے کی بچت ہو گی ، رپورٹ کے مطابق حکومت نے مالی سال سات سے مالی سال انیس تک صارفین کو 3202 ارب روپے کی سبسڈی دی ،اسی عرصہ کے دوران گردشی قرض کے باعث نقصانات 4802 ارب روپے پر پہنچ گئے ، مالی سال 2016 میں مجموعی کیپیسٹی پیمنٹ 275 ارب روپے کی تھی ،12 ہزار میگا واٹ بجلی پیداوار میں اضافہ ہوا ،بجلی پیداوار میں اضافہ سے کیپیسٹی پیمنٹ مالی سال 2019 میں بڑھ کر 640 ارب روپے ہو گئی ۔رپورٹ کے مطابق آئندہ مالی سال 900 ارب روپے کی کیپیسٹی پیمنٹس کا تخمینہ ہے ،رپورٹ نے گزشتہ 20 سال سے وزارت بجلی اور نیپرا کی ناقص کارکردگی اور کوتاہیاں بھی بیان کر دیں ۔ رپورٹ کے مطابق وزارت بجلی اور نیپرا نے آئی پی پیز کی سنگین کوتاہیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا ، آئی پی پیز غلطیوں والے طریقہ کار کے تحت انٹرنل ریٹ آف ریٹرن وصول کرتی رہیں ۔رپورٹ کے مطابق آئی پی پیز کے قرض ادائیگی کے تعین کا طریقہ کار ناقص ہے ،کمپنیوں کے ساتھ ڈالر میں طے آئی آر آر کو روپے کی قدر میں کمی کے باعث کبھی فکس کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔رپورٹ کے مطابق رپورٹ نے یہ بھی بتا دیا کہ وزارت بجلی کو کس طرح درست کیا جائے ،وزارت بجلی میں فوری طور پر اصلاحات کی جائیں ۔رپورٹ کے مطابق وزارت میں بجلی فنانس اکاؤنٹنگ اور قانون کے ماہرین کی تعیناتی کی جائے ،وزارت بجلی کے ذیلی اداروں پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ اور اور متبادل ذرائع توانائی بورڈ کو وزارت میں ضم کر دیا جائے ۔رپورٹ کے مطابق درآمدی ایل این جی اور مقامی گیس کا ایک ریٹ فکس کیا جائے ،بجلی کی قیمت میں کمی سے صنعتی شعبے کو گرڈ سے بجلی حاصل کرنے کا کہا جائے ۔رپورٹ کے مطابق کے الیکٹرک سے کہا جائے کہ وہ اپنے نئے پلانٹس لگانے کی بجائے قومی گرڈ سے بجلی حاصل کرے ،آئندہ پانچ سال کیلئے نیا بجلی پلانٹ لگانے پر پابندی عائد کی جائے ،بجلی کے ٹرانسمیشن نظام کو بہتر بنانے کیلئے سرمایہ کاری کی جائے ،ڈسکوز کی انظامیہ ماہرین کے حوالے کی جائے اور تقسیم کار کمپنیوں کے حجم کو کم کر کے مزید ڈسکوز قائم کی جائیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں