ملک لوٹنے والوں پر پھول پھینکے جاتے ہیں نیوٹرلز اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں عمران خان
شیئر کریں
کیا قرضے لینا کوئی حل ہے؟ سیاسی استحکام صرف شفاف انتخابات سے آئے گا،اسٹیبلشمنٹ کو ان کی کرپشن کا پتا تھا تو اقتدار میں آنے کی اجازت کیسے دے دی۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا خطاب
ان کے خلاف کیسز تھے، ہم حیران تھے ان کیسز کا فیصلہ کیوں نہیں ہورہا؟ نیب ان کو کیوں نہیں پکڑتی، لیکن بعد میں پتا چلا کہ کسی کا شفقت بھرا ہاتھ تھا، میرے کنٹرول میں نیب ہوتی تو اربوں روپیہ نکلوا لیتے
اسلام آباد(بیورورپورٹ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ نیوٹرلز سے کہتا ہوں اب بھی وقت ہے نظرثانی کریں، کیا قرضے لینا کوئی حل ہے؟ سیاسی استحکام صرف شفاف انتخابات سے آئے گا، اسٹیبلشمنٹ کو ان کی کرپشن کا پتا تھا تو اقتدار میں آنے کی اجازت کیسے دے دی۔ انہوں نے اسلام آباد میں آزادی اظہار رائے کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی تاریخ میں ہے کہ طاقتورانسان کی سوچ ، معاشرے اور انسانی رائے کو کنٹرول کرلے، وہ چاہتا ہے وہ انسانوں پر راج کرے۔وہی معاشرے اوپر گئے جو اظہار رائے کو آزادی دی، ریاست مدینہ کے اندر دو واقعات ہیں، حضرت علی رض ایک یہودی شہری سے کیس ہار جاتے ہیں کیونکہ قاضی ان کی گواہی قبول نہیں کرتا، اس دو چیزیں سامنے آئی کہ غریب شہری بھی خلیفہ وقت کے سامنے کیس لڑ سکتا ہے، دوسری قانون کی بالادستی تھی، میں جب کرکٹ کھیلتا تھا تو مجھے دین کا زیادہ علم نہیں تھا، میں دو معاشروں برطانیہ اور پاکستان میں زندگی گزاری تو میں دونوں معاشروں کا موازنہ کرتا رہتا تھا۔
علامہ اقبال کی شاعری پڑھیں تو وہ لوگوں کو جگا رہے تھے، غلامی انسانوں میں احساس کمتری ڈال دیتی ہے۔ جم خانہ کلب میں ہم 1974تک سوٹ پہن کر جاتے تھے جبکہ ہم 1947میں آزاد ہوچکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میری کوشش ہے کہ میری قوم آزاد ہو، حقیقی آزادی کی بات قوم کی آزادی کیلئے کرتا ہوں، میں یقین دلاتا ہوں مجھے کبھی آزاد میڈیا سے خوف نہیں رہا، ڈکٹیٹر اس لیے ڈرتے ہیں، کیونکہ کنٹرولڈ چاہتے ہیں۔
1988میں نجم سیٹھی نے نوازشریف پر تنقید کی تو نوازشریف نے تین دن مار پڑوائی، کرپٹ لوگوں کو خطرہ ہوتا ہے، کیونکہ انہوں نے کرپشن کرنی ہوتی یا پھر قانون توڑنے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کیا رہا ہے؟ 90 میں دونوں جماعتیں آئیں، دونوں نے مل کر کرپشن کی، ہم نے سوچنا شروع کردیا کہ شاید ملٹری اچھی ہوگی، کیو نکہ ضیا الحق کے دور میں ترقی ہوئی، اس وقت کوئی تنقید نہیں کرتا، 1996کی بات کررہا ہوں جب نوازشریف اور زرداری نے 150، 150 بلین ملک سے نکالا، میں سیاست میں کرپشن کے خلاف آیا تھا۔میں نے جب دیکھا کہ نوازشریف نے حکومت میں آکر تین سال میں 17 فیکٹریاں بنا لی، فرق تھا کہ میں نے برطانوی سسٹم دیکھا ہوا تھا۔ دونوں جماعتوں نے پیسا بنانا شروع کردیا، مشرف دور میں ان کی کرپشن کی فائیلیں دکھائی گئیں، ہمیں تھا کہ جنرل مشرف کرپشن ختم کرنے آیا ہے، لیکن اس نے بھی این آراو دے دیا۔ پھر ان دونوں نے 10سالوں میں کرپشن کی، میں ہمیشہ سمجھتا رہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو ملک کی زیادہ فکر ہوگی، وہ چوری نہیں ہونے دیں گے، میں ان کے خلاف سیاست میں تھا تو مجھے ایجنسیاں بتاتی تھیں کہ انہوں نے فلاں فلاں چوری کی ۔ان کے خلاف کیسز تھے، ہم حیران تھے ان کیسز کا فیصلہ کیوں نہیں ہورہا؟ نیب ان کو پکڑتی، لیکن بعد میں پتا چلا کہ کسی کا شفقت بھرا ہاتھ تھا، میرے کنٹرول میں نیب ہوتی تو اربوں روپیہ نکلوا لیتے۔ اپریل میں سازش ہوئی چلو کسی پر الزام نہیں لگاتے لیکن اسٹیبشلمنٹ بتائیں کس طرح حکومت میں لے آئے۔