وزیراعظم کو نااہل کریں یا نیب کے حوالے، فیصلہ شواہد کا جائزہ لیکر کرینگے، سپریم کورٹ
شیئر کریں
اسلام آباد (بیورو رپورٹ) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ شواہد کی بنیاد پر ہوگا، عدالت اس چیز کا بھی جائزہ لے گی کہ مقدمہ نیب کو بھیجا جائے یا نااہلی کا فیصلہ سنایا جائے ،وزیراعظم نواز شریف نے منی ٹریل دینے فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں، منی ٹریل فراہم کرنے کی ذمہ داری شریف خاندان پر تھی شریف خاندان کے وکلاء جے آئی ٹی کی سفارشات پر تنقید کے بجائے جے آئی ٹی رپورٹ میں موجود دستاویزات پر دلائل دیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی میں پیش ہو کر جان بوجھ کر حقائق پیش نہیں کیے یہاں تک کہ اپنے خالو کو بھی پہچاننے سے انکا ر کردیا عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ سات سال تک وزیراعظم جس گھر میں رہائش پذیر ہوں اسکی ملکیت سے لاعلم کیسے رہے سکتے ہیں؟ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے یہ کیس آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ہے، اثاثوں اورآمدن کی دستاویز شریف خاندان نے دینا تھیں ،وزیراعظم کا کام تھا کہ لندن فلیٹس کی خریداری کے ذرائع بتاتے، لیکن شریف خاندان کا زورصرف اس پر ہے کہ جے آئی ٹی نے یہ دستاویز نہیں دکھائی وہ نہیں دکھائی، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا اسکی سفارش کردی ،سفارش پر عمل کرنا ہے یا نہیںاس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے، جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ملکیت کی دستاویزات کے ذرائع ثابت کرنا پڑیں گے، یہاں کریں یا ٹرائل کورٹ میں دستاویزات اصل ہوں تو سفارت خانے کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہے، وہ الگ بات ہے شریف خاندان اعتراض کردے کہ فلاں دستاویزمتعلقہ ادارے سے نہیں لی گئی ۔منگل کو پاناما لیکس کیس کی سماعت جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پرمشتمل سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے کی کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ کا 20اپریل کا حکم نامہ پڑھ کرسناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں تحقیقات کی سمت کا تعین کردیا تھا عدالت کے سوالات میں نوازشریف سے متعلق تحائف کا ذکرتھا، جبکہ سپریم کورٹ نے نوازشریف کے خلاف کسی مقدمے کودوبارہ کھولنے کا حکم نہیں دیا تھا سپریم کورٹ نے لندن فلیٹس قطری خط بیئررسرٹیفکیٹ سے نامی دار اور زیر کفالت افراد کے اثاثوں سے متعلق سوالات پوچھے اورعدالت نے جوسوالات پوچھے ان کے ہی جواب مانگے گئے تھے جے آئی ٹی نے 13سوالات کے ساتھ مزید 2سوالات اٹھادیئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ وہ دو سوال کون سے ہیں کیا آپ کہنا چاہتے ہیں جائیدادوں کی نشاندہی جے آئی ٹی کا مینڈیٹ نہیں تھا جس پرخواجہ حارث نے کہا کہ جومقدمات عدالتوں سے ختم ہوچکے جے آئی ٹی نے ان کی بھی پڑتال کی جب کہ عدالت نے مقدمات کھولنے کا حکم نہیں دیا تھاجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جائزہ لینا الگ معاملہ ہے ازسرنو تعین کرنا الگ بات ہے بہت سے معاملات آپس میں ملے ہوتے ہیں جنہیں الگ نہیں کیا جاسکتا جہاں تک مجھے یاد ہے لندن فلیٹس کی پہلے بھی تحقیقات ہوتی رہی ہیں جب تک مکمل تحقیقات نہ ہو مکمل معاملے کو دیکھنا ہوگا تمام مقدمات کا آپس میں گہرا تعلق ہے اصل چیز منی ٹریل کا سراغ لگانا تھا عدالت کو دیکھنا تھا کہ رقم کہاں سے آئی التوفیق کیس پر عدالت کا فیصلہ موجود ہے اور اسحاق ڈار کا بیان التوفیق کمپنی سے منسلک ہے جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو اپنے مرتب سوالوں کے جواب دیکھنے ہیں ہم جے آئی ٹی کی سفارشات کے پابند نہیں، جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا اسکی سفارش کردی سفارش پر عمل کرنا ہے یا نہیںاس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ ابھی عدالت نے فیصلہ نہیں کیا لیکن وہ جے آئی ٹی کی کارکردگی بتا رہے ہیں، ہماری درخواست قانونی نکات پر ہے، جے آئی ٹی کی رائے کی قانون میں کوئی نذیر نہیں ہے جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کی بات سمجھ کر ہم نے نوٹ کرلی ہے آپ نے اپنے جواب میں دستاویزات کی تردید نہیں کی ہے، لندن فلیٹس کی انکوائری کی منظوری 17سال پہلے بھی ہوئی تھی 2000سے 2008تک آپ کے موکل ملک سے باہر تھے جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں جے آئی ٹی کی رائے نہیں اس کا مواد دیکھنا ہے جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے تمام افراد کو جواب دستاویز اور منی ٹریل کے لئے واضح موقع دیا تھا وزیر اعظم مریم حسن اورحسین کو بلایا گیا اور سوالات کیے گئے ہم آپ کو وزیر اعظم مریم حسن اور حسین کے جوابات بتا رہے ہیں اور ان کی سوچ تھی کہ انہیں نا تو کچھ بتانا ہے اور نا ہی کچھ تسلیم کرنا ہے جے آئی ٹی کو جو کرنا ہے وہ خود کرے وزیر اعظم سے لندن فلیٹس کاپوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ معلوم نہیں شائد ان فلیٹ کا مالک حسن ہے ۔وزیر اعظم نے تو اپنے خالو محمد حسین کو بھی پہچاننے سے انکار کردیا ،وزیر اعظم لندن فلیٹس میں جاتے رہے لیکن انہیں علم نہیں کہ کس کے ہیں، ہل میٹل کی رقم سے جماعت کو دس کروڑ کی گرانٹ دی گئی، لیکن ہل میٹل کی رقم کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنے کا پوچھا گیا تو کہا نہیں کی ،اس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ محمد حسین وزیر اعظم کے خالو نہیں ہیں ،وزیر اعظم سے ایف زیڈ ای سے متعلق سوال بھی نہیں پوچھا گیا، وزیراعظم 1985تک کاروبار کرتے رہے ہیں 1985کے بعد وزیراعظم کا خاندانی کاروبار میں کوئی کردار نہیں تھا۔ان کے تمام اثاثے گوشواروں میں ظاہر ہیں ان کے علاوہ کوئی اثاثے ہیں تو بتائیں ،وہ اپنے موکل کی جانب سے ان کا جواب دیں گے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر آپ دستاویزات نہیں دیں گے تو کوئی اور لے آئے گا، ہم نے آپ کے لیے دروازے بند نہیں کیے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی اور خواجہ حارث نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ کوشش کروں گا اپنے دلائل مکمل کرلوں۔