میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہسپتالوں میں غیر معیاری ادویات کی فراہمی

ہسپتالوں میں غیر معیاری ادویات کی فراہمی

منتظم
جمعرات, ۱۹ اپریل ۲۰۱۸

شیئر کریں

اخباری اطلاعات کے مطابق پنجاب کے ہسپتالوں کے لیے محکمہ صحت پنجاب کی جانب سے خریدی گئی ادویات میں سے کم وبیش 80 ادویات غیر معیاری ثابت ہوئی ہیں جس کے بعد محکمہ صحت نے دوائوں کے بعض مخصوص بیجز پر پابندی عاید کردی ہے اور ڈرگ ڈیپارٹمنٹ نے ان ادویات کو اسٹورز سے اٹھانا شروع کر دیا۔ خبروں کے مطابق غیرمعیاری پائی جانے والی ان ادویات میں دل‘ یرقان‘ درد‘ گلا‘ اورتیزابیت کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات کے علاوہ اینٹی بائیوٹک ادویات شامل ہیں، خبروں کے مطابق پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو فراہم کرنے کے لیے خریدی گئی 80 اقسام کی غیر معیاری ادویات پر گزشتہ سال پابندی محکمہ صحت کی جانب سے پابندی عاید کی گئی تھی لیکن خود محکمہ صحت کے حکام پابندی لگائے جانے کے باوجود ان ادویات کی خریداری جاری رکھے ہوئے تھے اور ان ادویات کو غیر معیاری قرار دیئے جانے کے باوجود ہسپتالوں کو ان ادویات کی سپلائی جاری تھی۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہسپتالوں کو ادویات کی فراہمی کے ٹھیکے محکمہ صحت کی منظوری کے بغیر کیسے دئے گئے اور محکمہ صحت نے ان ٹھیکوں کی منظوری دی تھی تو محکمہ صحت کے ارباب اختیار ان غیر معیاری ادویات کی سپلائی کے بارے میں لاعلم کیسے تھے۔محکمہ صحت کے حکام نے غیر معیاری قرار دی گئی دوائیں اسٹورز سے اٹھانے کااعلان کرکے بظاہر اپنا فریضہ ادا کردیاہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان ادویات کو اسٹورز سے واپس لے کر وہ اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوگئے ۔

سرکاری ہسپتالوں میں غیر معیاری دوائوں کی فراہمی کوئی ایسی معمولی بات نہیں ہے جسے اس طرح نظر انداز کردیاجائے، یہ انسانی زندگی اور صحت کا سوال ہے۔ اس میں کسی قسم کی لاپروائی ناقابل معافی ہے۔ پابندی کے باوجود یہ ادویات ابھی تک سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو دی جا رہی تھی سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا یہ انسانی زندگیوں سے کھلواڑ نہیں ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں غیر معیاری ادویات کی فراہمی اور مریضوں کو انھیں استعمال کرائے جانے کایہ اپنی نوعیت کاپہلا واقعہ نہیں ہے چند برس قبل لاہور میں امراض قلب کے ہسپتال میں ایسی ہی غیر معیاری ادویات کا ایک ا سکینڈل سامنے آیا تھا جس کے نتیجے میں درجنوں مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اب غیرمعیاری ادویات کے باعث ایک بار پھر نجی ہسپتالوں میں علاج کرانے کی سکت نہ رکھنے والے غریب مریض کسی بھی سانحے سے دوچار ہو سکتے ہیں ۔ اس کاذمہ دار کون ہوگا؟ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف خود کو خادم پنجاب ظاہر کرتے ہوئے دن رات یہ ثابت کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں کہ پنجاب سے بہتر انتظام کسی اور صوبے میں نہیں ہے اور پنجاب کے کسی محکمے میں کرپشن نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ،لیکن اصل صورت حال یہ ہے کہ پنجاب کاکوئی بھی محکمہ ایسا نہیں ہے جہاں کرپٹ عناصر نے اپنے پنجے نہ گاڑے ہوئے ہوں، پنجاب کے مختلف علاقوں میں فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے چھاپوں سے پنجاب میں شفاف حکمرانی کی قلعی کھل کر سامنے آچکی اب ہسپتالوں میں غیر معیاری دوائوں کی فراہمی کے اس اسکینڈل سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ پنجاب کے کسی بھی محکمے پر حکومت کاکوئی کنٹرول نہیں ہے اور ہر ایک لوٹ مار میں لگاہواہے ،اورپنجاب بھر میں عوام کی صحت اور انکی جانوں سے کھیل کر اپنی تجوریاں بھرنے والے متعدد مافیاز گلی محلوں میں ادویات سازی کی فیکٹریاں کھولے ہوئے ہیں جہاں حفظان صحت کے اصولوں سے ہٹ کر جعلی غیر معیاری ادویات تیار کر کے سرکاری ہسپتالوں‘ میڈیکل سٹوروں پر فروخت کیلیے پیش کی جاتی ہیں،اس پورے کاروبار میں ہسپتالوں کی انتظامیہ اور ڈاکٹروں کی ملی بھگت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ غیر معیاری دوائوں کی ہسپتالوں میں فراہمی سے محکمہ صحت کی غفلت کا اظہار ہوتاہے ،اور اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ محکمہ صحت کے حکام یا تو اس غیر قانونی دھندے پر قابو پانے میں مکمل طورپر ناکام رہے ہیں یا پھر وہ خود بھی بالواسطہ یابلاواسطہ طورپر اس دھندے میں شریک رہے ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر دیہات توکجا شہروں میں بھی میڈیکل ا سٹورز پر غیر معیاری ادویات کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں،اورسرکاری ہسپتالوں میں بھی بلاروک ٹوک مریضوں کواستعمال کرائی جارہی ہیں لیکن اب تک کسی میڈیکل سٹور یا ادویات تیار کرنیوالے کیخلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی گئی۔

اس صورت حال کاتقاضہ ہے کہ محکمہ صحت کی جانب سے غیر معیاری ادویات ہسپتالوںکے اسٹورز سے واپس لیے جانے کے اعلان کوکافی تصور نہ کیاجائے بلکہ کسی غیر جانبدار ادارے سے اس بات کی تحقیقات کرائی جائے کہ یہ مکروہ دھندہ اس طرح کھلے عام کیونکر جاری تھا اور کون لوگ ہیں جو اس کی پشت پناہی کرتے رہے، اس کے ساتھ ہی ہسپتالوں میں غیر معیاری ادویات وصول کرنے والے ڈاکٹروں اورمتعلق حکام کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے کہ انھوں نے غیر معیاری ادویات وصول ہی کیوں کیں، جب تک عوام کی جان و مال کے ایسے دشمنوں کو کڑی سزا نہیں دی جاتی یہ مکروہ دھندا بند نہیں ہو سکتا اور صرف ادویات کے80 بیجز پر پابندی لگانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ یہ لوگ پھر نئے ناموں سے پھر یہی مکروہ دھندا شروع کر دینگے۔ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری پنجاب نے مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے محکمہ صحت کو فروخت کی جانے والی جن 100 سے زائد ادویات کو لیبارٹری تجزیہ کے بعد غیر معیاری اور ناقص قرار دے کر ان پر پابندی کی سفارش کی ہے اگرچہ حکام نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے ان ادویات کا استعمال صوبے بھر میں روک دینے کادعویٰ کیا ہے لیکن نہ صرف اس بدمعاملگی کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے بلکہ دوسرے صوبوں کو بھی بلاتاخیر اس صورتحال سے آگاہ کیا جانا چاہئے تا کہ پنجاب کے ہسپتالوں اور اسٹورز سے اٹھائی جانے والی یہ غیر معیاری ادویات دوسرے صوبوں کو فراہم نہ کی جاسکیں اور پورے ملک کے مریضوں کو ایسی ادویات سے بچایا جا سکے۔ ان ادویات میں عام طورپر استعمال ہونے والی بعض ادویات شامل ہیں جن کھانسی کے بعض شربت بھی شامل ہیں بعض ادویات ایسی ہیں جنہیں صارفین ضرورت کے وقت استعمال کے لیے ہر وقت گھر میں رکھتے ہیں اسی طرح ہیپاٹائٹس، جسم کے درد، گلے کے امراض، تیزابیت کی دوائیں اور بعض اینٹی بائیٹکس ایسی ہیں جن کی قیمتیں دسترس سے باہر ہوتے ہوئے بھی غریب لوگ انہیں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں،موجودہ صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے دور افتادہ علاقوں میں محکمہ صحت کی ٹیمیں بھیجی جائیں جو غیر معیاری ادویات کو تلف بلااستثنیٰ تلف کریں،اوریہ دوائیں سپلائی کرنے والے اداروں کوہمیشہ کے لیے پورے ملک میں بلیک لسٹ کردیا جائے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں