میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ترجمان الیکشن کمیشن کی وضاحت کی وضاحت پر اعتبار کیسے کریں؟

ترجمان الیکشن کمیشن کی وضاحت کی وضاحت پر اعتبار کیسے کریں؟

جرات ڈیسک
هفته, ۱۸ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ترجمان الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کے نام و عہدہ کا ذکر کئے بغیر کہا ہے کہ ایک اعلیٰ عہدیدار کی طرف سے انتخابات کی شفافیت مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اعلیٰ عہدیدار کا یہ طرز عمل مناسب نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن پرعزم ہے کہ عام انتخابات صاف اور شفاف ہوں گے۔ ای سی پی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کے صاف اور شفاف ہونے کو یقینی بنایا جائے گا۔اس بارے میں دو رائے نہیں کہ اب تک کی صورتحال کے تناظر میں یہ بات عیاں ہے اور ایک بچہ بھی یہ بتادے گا کہ ملک میں جملہ سیاسی جماعتوں کویکساں ہموار سیاسی میدان اور مقابلے کے مواقع تودرکنار ایک سیاسی جماعت کی راہ میں روڑے اٹکانے کا عمل جاری ہے۔مختلف گرفتاریوں کے حوالے سے وثوق سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان گرفتاریوں کی وجہ سے وہ مقدمات اور الزامات ہیں جن کا تذکرہ ہے یاپھر یہ سیاسی گرفتاریاں ہیں لیکن پاکستان کی سیاست اور انتخابات کے دنوں میں یہ انہونی نہیں اس ساری صورتحال کے تناظر میں صدرمملکت کے بیان کو رد نہیں کیا جاسکتا جہاں تک ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور انتخابی ماحول کا تعلق ہے حسب سابق ایک اور بڑی وسنگین غلطی ہونے کے خدشات ابھر رہے ہیں جس میں عوام کی اکثریت کی رائے سے حکومت سازی کی بجائے کسی انتظام کاری کے شبہات کوتقویت مل رہی ہے۔ ہمارے ملک کی سیاست کا یہی وہ المیہ چلا آرہا ہے جسے باربار کی خرابی کے باوجود درست کرنے پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ یہ غلطی جب تک دہرائی جاتی رہے گی تب تک ملک میں ایسے شفاف اور قابل قبول انتخابات نہیں ہوسکتے جس پرجملہ سیاسی جماعتوں کا اعتماد اور الیکشن لڑنے والی جماعتیں اپنی شکست کوعوام کا فیصلہ قرار دے کر اسے تسلیم کرنے پرآمادہ ہوں او جب بھی حکومت آئے اسے عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ ارباب حل وعقد کو اب تو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے اور سیاسی جماعتوں کو بھی کسی کندھے کا سہارا لے کر کٹھ پتلی حکومت بنانے اور بے اختیار اقتدار کی بجائے حقیقی جمہوری عمل کوترجیح دینی چاہئے تاکہ ملک میں حقیقی معنوں میں ایسی عوامی چنیدہ حکومت کا قیام ممکن ہوسکے جواعتماد کے ساتھ عوام کے مسائل کے حل کی سعی کرے اور حزب اختلاف بھی جمہوری عمل پرآمادہ ہو جب تک حقیقی جمہوریت کے قیام کیلئے شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار نہیں ہو گی ان انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار نہیں ہو گی اور ایسا نہ ہواتوکسی بھی انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت بھی نہ تو عوامی کہلائی جا سکے گی اور نہ ہی مقتدروبااختیار ہوسکتی ہے۔
چند ماہ ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما لیول پلینگ فیلڈ کا بہت ذکر کر رہے ہیں۔ لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ بہتر اور اچھا ہے لیول پلینگ فیلڈ کا تقاضا ہے کہ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کیا جائے۔ وہ جو کچھ بھی مانگ رہے ہیں وہ سب کچھ ان کے ذہن میں ہے مگر کھل کر بات نہیں کر رہے، اگر آسان فہم میں بات کی جائے تو پیپلزپارٹی مانگ رہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کا مساوی موقع ملنا چاہیے یہ الگ بات ہے کہ، ابھی تک وہ تمام سیاسی جماعتیں سامنے ہی نہیں آسکی ہیں جو انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہیں، اگر دیوار کے اس پار جھانکا جائے تو یہ نظر آتاہے کہ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ تحریک انصاف کو بھی موقع ملنا چاہیے اس کا مطلب ہوا پنجاب میں تحریک انصاف مسلم لیگ کے مقابلے میں آکر پیپلزپارٹی کے لیے راہ ہموار کرے۔جبکہ یہ عام فہم بات ہے کہ پیپلزپارٹی کو تحریک انصاف سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو اسے چاہیے کہ تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کر لے یا سیٹ ایڈ جسٹمنٹ‘ یوں سارامسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ لیکن پیپلز پارٹی یہ بھی نہیں چاہتی، وہ تو صرف یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح مسلم لیگ کا راستہ روکا جائے۔ عام انتخابات کا بنیادی نقطہ اس وقت قومی سیاست سمیت علمی و فکری حلقوں میں انتخابات کی شفافیت اور لیول پلیئنگ فیلڈ کے گرد گھوم رہا ہے۔انتخابات کا ہونا اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر انتخابات کی شفافیت اور تمام فریقین کا انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنا اور آگے بڑھنا اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ ہماری سیاسی اور انتخابی تاریخ میں انتخابات کے نتائج سیاسی استحکام پیدا کرنے کے بجائے عدم استحکام کی سیاست کا زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ایک مسئلہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا ہے۔اول، انتخابات کی شفافیت پر ہمیشہ سے ہی سوالیہ نشان رہا ہے اور انتخابات سے قبل ہی سیاسی انجینئرنگ یا سیاسی جوڑ توڑ سمیت مداخلت سے جڑا عمل بھی انتخابی عمل کو متنازع بناتا ہے۔ہمارا ایک مجموعی سیاسی رویہ بھی بن گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات ہارنے کے بعد ہونے والے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتی ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں انتخابات جیت جائیں تو ان کی حیثیت شفافیت پر مبنی ہوتی ہے وگرنہ انتخابات دھاندلی پر مبنی ہوتے ہیں۔8فروری کے انتخابات کے حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جو خط نگران وزیر اعظم کو لکھا ہے۔ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی میدان میں ہموار میدان فراہم کرنا، سیاسی وابستگیاں اور وفاداریاں بدلے جانے اور گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا گیاہے، تحریک انصاف کے تحفظات کو نگران وزیر اعظم تک پہنچانا ان کی سیاسی، اخلاقی اور آئینی ذمے داری ہے۔صدر مملکت کا تعلق کیونکہ تحریک انصاف سے ہے، اس لیے ان نکات کو ایک جماعت کے نقطہ نظر کے طور پر ان کے سیاسی مخالفین نے لیا ہے۔اس خط پر الیکشن کمیشن کا بغیر کسی کا نام لیے ردعمل اور نگران حکومت کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ صدر کے خط کے مندرجات پر خوش نہیں ہیں۔الیکشن کمیشن کا یہ نقطہ کہ انتخابات شفاف ہوں گے اور صد ر مملکت ان کو مشکوک نہ بنائیں یا نگران حکومت کا یہ کہنا کہ صدر مملکت ایک جماعت کے نہیں وفاق کی علامت بنیں، اسی ناخوشی کو ظاہر کرتے ہیں۔عام انتخابات کی شفافیت یا لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات محض صدر یا تحریک انصاف تک محدود نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کا موقف بھی سمجھنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے بقول نگران حکومتیں مسلم لیگ ن کی بی ٹیموں کا کردار ادا کررہی ہیں، پیپلزپارٹی ہی نواز شریف پر لاڈلہ ہونے کی بات نہیں کررہی ہے۔سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر میڈیا پر بھی لیول پلیئنگ فیلڈ پر گفتگو ہورہی ہے۔بہت سے میڈیا کے لوگ اسی کو بنیاد بنا کر تجزیہ کررہے ہیں کہ نئے عام انتخابات ماضی میں کھیلے جانے والے کھیل 2018سے مختلف نہیں ہوں گے، بس کردار ہی تبدیل کیا گیا ہے، کہانی وہی پرانی ہے جس میں نئے رنگوں کے ساتھ انتخابی دربار سجایا جارہا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ سے کیا مراد ہے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ وفاقی و صوبائی نگران حکومتیں، الیکشن کمیشن اور ان سے جڑے ریاستی اداروں کی یہ بنیادی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ انتخابات سے قبل ایسا ماحول  پیدا کریں جو سب کے لیے یکساں بھی ہو اور سازگار بھی۔ سرکاری مشینری کسی کی حمایت اور مخالفت میں نہیں ہونی چاہیے۔ووٹرز کو آزادانہ بنیادوں پر ووٹ ڈالنے کا ماحول فراہم کیا جانا چاہیے کیونکہ ووٹ کی بنیاد پر اقتدار کے کھیل کا فیصلہ کرکے ہی ہم سیاسی اور جمہوری نظام کو مضبوط بناسکتے ہیں۔ لیکن  1970سے لے کر 2018 انتخابات کی کہانی میں ہمیں ایک بہت بڑا سیاسی جھول نظر آتاہے جو انتخابی شفافیت کونظرانداز کرتا ہے دیکھنے کو ملتا ہے۔جس کی وجہ سے بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ ایک سیاسی جماعت کی حمایت میں چلنے والی مہم اور ایک سیاسی جماعت کی مخالفت میں چلائی جانے والی انتخابی مہم ماضی کا ہی ٹریلر ہے۔ پاکستان کی سیاست اور انتخابات کا ایک اور بنیادی مسئلہ خود سیاسی جماعتوں کی اپنی داخلی سیاست سے جڑا ہوتا ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں کی بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کی تعریف اپنی اپنی ہوتی ہے۔ جب سیاسی جماعتیں اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت سے آگے بڑھتی ہیں یا ان کو آزادانہ سمیت دیگر پس پردہ قوتوں کی سہولتیں یا سہولت کاری ملتی ہے تو ان کی نظر میں انتخابات کی شفافیت بھی ہوتی ہے اور لیول پلیئنگ فیلڈ بھی بلکہ یہی جماعتیں اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے اور زیادہ سہولت کاری حاصل کرنے کی یا ڈیمانڈ پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس جو بھی جماعتیں اسٹیبلیشمنٹ کی مخالفت کا حصہ بنی ہوتی ہیں وہ انتخابات کی شفافیت پر بھی سوال اٹھاتی ہیں اور اسی نقطہ کو اجاگر کرتی ہیں کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ کسی بھی سطح پر نہیں دی جارہی بلکہ ہمارے خلاف  یہی حکمت عملی بنتی ہے کہ اس کو دیوار سے لگایا جائے تاکہ ہم انتخابات جیت کر سامنے نہ آسکیں۔جو بھی اسٹیبلیشمنٹ کی حامی جماعت ہوگی وہ اپنے سیاسی مخالفین کے لیے سیاسی راستہ نہیں بلکہ ان کو انتظامی، سیاسی اور قانونی پابندیوں میں دیکھنا چاہتی ہے تاکہ اس کا براہ راست سیاسی فائدہ ان کو ہوسکے۔وہ بنیادی طور پر انتخابی سیاست میں یکساں سیاسی مواقع فراہم کرنے کی حامی نہیں اپنے مخالفین کو دیوار سے لگانا ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔آج بھی بنیادی سوال یہ ہی ہے کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کے ساتھ انتخابی میدان میں کیا سلوک کیا جائے گا۔کیونکہ ابھی تک کے حالات میں ان کے لیے مسائل یا مشکلات نظر آرہی ہیں۔ نئی سیاسی جماعتوں، استحکام پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز جماعتوں کی تشکیل اور مختلف صوبوں یا مرکز میں انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا کھیل، پی ٹی آئی کے لوگوں کا پارٹی چھوڑنے کا اعلان، سیاسی گرفتاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ سیاسی قیادت نے ماضی سے سبق نہیں دیکھا۔ایسے لگتا ہے کہ انتخابات کی شفافیت یا لیول پلیئنگ فیلڈ کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف اور اس کے ہم خیال لوگ عدلیہ سے رجوع کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائیں گے۔ اس لیے جو سیاسی جماعتیں عتاب میں ہیں وہ عدالتوں کا راستہ بھی اپنے لیے اختیار کرسکتی ہیں اور گیند دوبارہ سپریم کورٹ میں بھی جاسکتی ہے۔ بنیادی سوال یہی ہے اور اسی پر زیادہ بحث بھی ہونی چاہیے اور ہم سب کو اسی نقطہ پر دباؤ بھی بڑھانا چاہیے کہ سب کو عوامی مینڈیٹ یا ووٹوں کی بنیاد پر حکومت سازی کرنی چاہیے۔انتخابات سے پہلے انتخابات کے نتائج کو مرتب کرنا اور اس طرح کا ماحول تیار کرنا جو کسی ایک جماعت کی حمایت اور ایک جماعت کی مخالفت کرتا ہو یا کسی کی حمایت اور مخالفت میں سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ، تشکیل اور سیاسی لوگوں پر دباؤ ڈال کر وفاداریوں کو تبدیل کرنے کے عمل سے سیاسی اور جمہوری نظام مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوگا۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہمیں مثبت پالیسی درکار ہے اور ایسی پالیسی جو سب کے لیے یکساں مواقع اور ماحول کو پیدا کرے، لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور ماضی روش کو ہی برقرار رکھا جائے گا تو پھر سیاست اور جمہوریت کا مستقبل مزید پیچھے کی طرف جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں