میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مہنگائی ۔۔۔ شہری گھریلو سامان بیچنے پر مجبور

مہنگائی ۔۔۔ شہری گھریلو سامان بیچنے پر مجبور

جرات ڈیسک
بدھ, ۲۰ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

احمد نجیب زادے

٭مہنگائی سے پریشان عوام اپنے بچوں کو پرائیوٹ اسکولز سے نکال رہے ہیں اور سرکاری یا بلا معاوضہ فیس والے مدارس میں داخل کروا رہے ہیں
٭دینی مدارس کے کئی منتظمین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس حالیہ مہنگائی کی لہر کے بعد بورڈنگ اور رہائشی مدارس میں بچوں کی انرولمنٹ بہت بڑھ گئی ہے
٭لانڈھی، اورنگی، لیاقت آباد، بلدیہ، فرنٹیئر، موچکو، قصبہ، کورنگی، نارتھ کراچی میں ٹرائی سائیکل یا ڈالے سوار افراد گلیوں، محلوں میں گھوم پھر کر میگا فون سے گھریلو سامان خریدنے کی صدا لگاتے ہیں
٭گزشتہ ماہ راشن، بجلی کے بلز بھرنے کیلئے اپنی والدہ کی جانب سے ماضی میں دی جانیوالی تین تولے کی طلائی چین بیچی ہے اور یوں اپنے اور گھر کے لیے آسانی پیدا کی ہے(رشیدہ بیگم)
٭ میرے گھر کا کرایہ 35 ہزار روپے ہے، میرا بجلی کا آخری بل 40 ہزار روپے سے زیادہ تھا، جس کو میں بھر نہیں سکتا تھا، اس پر میں نے بہت شرم کے ساتھ بیوی کا زیور بیچا (بابر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شدید مہنگائی اور پیٹرول کی قیمتوں سمیت بجلی کے یونٹ ریٹس میں مسلسل اضافہ نے شہریوں کو گھریلو سامان بیچنے اور سونا گروی رکھنے پر مجبور کردیا ہے۔ شہری اپنے بچوں کو تین کے بجائے دو اور دو کی بجائے ایک وقت کی روٹی کھلارہے ہیں اور اس نان شبینہ کی محتاجگی کو دور کرنے کیلئے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔کراچی شہر کا بالخصوص اور پاکستان بھر کا بالعموم جائزہ اس امر پر دلالت کررہا ہے کہ مہنگائی سے پریشان عوام اپنے بچوں کو پرائیوٹ اسکولز سے نکال رہے ہیں اور سرکاری یا بلا معاوضہ فیس والے مدارس میں داخل کروارہے ہیں۔ دینی مدارس کے کئی منتظمین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس حالیہ مہنگائی کے بعد بورڈنگ اور رہائشی مدارس میں بچوں کی انرولمنٹ بڑھ گئی ہے کیوں کہ بچوں کی تعلیم کا بوجھ اٹھانا مشکل ہوچکا ہے۔ حافظ بہزاد نامی مدرسہ منتظم کا کہنا ہے کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اپنے بچوں کو مدرسے میں داخل کرا رہے ہیں جہاں طلبہ کو مفت رہائش فراہم کی جاتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بنیادی طور پر یتیم، کم آمدنی والے یا مذہبی پس منظر والے بچے مدرسے میں داخلہ لیتے تھے لیکن صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بدل رہی ہے، اب لوگ اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے قابل نہیں رہے اور بچوں کو ایسے اداروں میں داخل کرا رہے ہیں جہاں مفت کھانا اور رہائش فراہم کی جاتی ہے۔ کئی ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ ان کے گاہکوں کی کیفیت بھی پریشان کن ہے، پہلے جو گاہک ایک کٹ خریدتا تھا، اب آدھا کٹ مانگتا ہے۔ دوست احباب پہلے کٹ منگواتے تھے لیکن اب کم قیمت چینک منگواتے ہیں۔ قصائی حضرات نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کا کاروبار ختم ہوتا محسوس ہورہا ہے، گاہک 1100 سو روپیہ بغیر ہڈی اور 900 روپیہ ہڈی والا گوشت خریدنے کی بجائے بٹ، اوجھڑی، کلے کا گوشت اور زبان خرید رہے ہیں، گاہکوں کی اکثریت گوشت نہیں خرید سکتی۔ ایسے شہریوں کی بھی تعداد کم نہیں ہے کہ جنہیں اثاثے بیچنے یا قرض لینے کی اشد ضرورت نہیں ہے وہ بھی اپنے ایسے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بنیادی ضروریات سے متعلق نہیں ہیں، یعنی کم کھانا اور کم اخراجات اور بجلی کے بلز میں کمی کیلئے شہری فریج اور دیگر بجلی کے آلات کم سے کم استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان بھر کا ایک سروے غریب عوام کی کسمپرسی کی روشن دلیل ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عوام اپنے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے گھریلو ساز و سامان فروخت کررہے ہیں جبکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایک ایک روٹی کو محتاج افراد اپنے بچوں کو بھی بیچنے کی پیشکشیں کرچکے ہیں۔مارکیٹ کے سروے کے دوران کئی دکانداروں نے تصدیق کی ہے کہ مہنگائی بے شک ہے لیکن مڈل مین اور بروکرز کی وجہ سے زیادہ خرابیاں ہیں جبکہ پرائس کنٹرول کا کوئی ادارہ کام نہیں کررہا ہے جس کی وجہ سے تھوک و خوردہ فروش من مانا اضافہ کرتے ہیں، اس بات کا اندازہ اس چیز سے لگایا جاسکتا ہے کہ چاولوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہوچکی ہیں اور ٹوٹا چال بھی ڈھائی سے تین سو روپے کلو فروخت کیا جارہا ہے۔ ہوش ربا مہنگائی کی حالیہ لہر اور معاشی بحران کے باعث عوام اب روزمرہ کی ضروریات، جیسے بجلی کے بل، اسکول کی فیس، مکان کا کرایہ اور دیگر اخراجات پورے کرنے کیلئے وہ کچھ کررہے ہیں جس کا انہوں نے سوچا تک نہ تھا۔ گوجرانوالہ کی رشیدہ بیگم کا کہنا ہے کہ وہ حالیہ مسائل سے بے حد ملول ہیں اور ان کی سوچ یہی ہے کہ اب گھر سے باہرنکلا جائے اوراپنے بچوں کی روزی روٹی میں آسانی کیلئے شوہر کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ رشیدہ کا مزید کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ ماہ راشن اور بجلی کے بلز بھرنے کیلئے اپنی والدہ کی جانب سے ماضی میں دی جانیوالی تین تولے کی طلائی چین بیچی ہے اور یوں اپنے اور گھر کے لیے آسانی پیدا کی ہے۔ رشیدہ کا کہنا ہے کہ ان کی ایک رشتے دار خاتون بھی پریشان تھیں اور انہوں نے اگست کے بجلی کے بل گھریلو بجٹ میں ادا نہیں کیے کئے تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا کہ وہ اپنی تین دہائیوں پرانی منگنی کی انگوٹھی ایک پڑوسی کے پاس گروی رکھوا کر بل ادا کرنے کے لیے رقم ادھار لیں، انہوں نے بھی طلائی انگوٹھی گروی رکھ کر اپنا راشن بھرا ہے۔
میڈیائی نمائندوں سے کی جانیوالی اپنی گفتگو میں کراچی کے رہائشی بابر کہتے ہیں کہ حالات انتہائی نا گفتہ بہ ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی ماہ انہوں نے اپنی بیوی سے مدد مانگی اور اس نے اپنی سونے کی بالیاں بیچ دیں جو اسے ہماری شادی پر ملی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں جس گھر میں رہتا ہوں اس کا کرایہ 35 ہزار روپے ہے، میرا بجلی کا آخری بل 40 ہزار روپے سے زیادہ تھا، جس کو میں بھر نہیں سکتا تھا، اس پر میں نے بہت شرم کے ساتھ بیوی کا زیور بیچا۔ اب میں پریشان ہوں کہ زیور کی واپسی کیسے ممکن ہوگی؟ لاہور سے تعلق رکھنے والی خاتون سبینہ نے بتایا ہے کہ ان کے شوہر نے حالیہ مسائل کو دیکھتے ہوئے مجھ سے مشاورت کے بعد اپنی گھریلو استعمال کی کار مارکیٹ میں فروخت کردی ہے۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی چکن فروش جہانزیب کا کہنا ہے کہ ان کا کاروبار بہت حد تک تنزلی کا شکار ہے اور اب ان کی سیل بھی کم ہورہی ہے، لوگ چکن خریدنے کی بجائے پنجے، گردن، بازو اور سر خرید رہے ہیں۔ کراچی کے مختلف علاقوں لانڈھی، اورنگی ٹاؤن، لیاقت آباد، بلدیہ، فرنٹیئر، موچکو، قصبہ، کورنگی، نارتھ کراچی میں اس وقت ٹرائی سائیکل یا ڈالے سوار افراد گلیوں، محلوں میں گھوم پھر کر میگا فون کی مدد سے گھریلو سامان خریدنے کی صدا لگاتے ہیں اور موٹریں، پرانی سائیکلیں، لوہے کی الماریوں سمیت دیگر گھریلو ساز و سامان خریدتے ہیں جس سے شہریوں کی بگڑتی معاشی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں