میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفر یاد۔۔۔ قسط43

سفر یاد۔۔۔ قسط43

منتظم
بدھ, ۱۸ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایسے قیدی بن گئے تھے کہ سوچ بھی ایک جگہ آکر رک سی گئی تھی۔ دوستوں سے ذکر کیا تو سب نے یہی بتایا کہ یہاں آنے سے کچھ عرصے بعد ایسی کیفیت آجاتی ہے جب زندگی اور اس سے جڑی ہر چیز رکی ہوئی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ کچھ دوستوں نے اس کیفیت کو سوتے جاگتے کے درمیان کی سی کیفیت قرار دیا ۔دوستوں کا کہنا تھا یہ نیم بے حسی جیسے کیفیت اس دیار غیرمیں زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کیفیت سے نکلنے کے لیے کچھ دوستوں نے عمرہ ادا کرنے کا مشورہ دیا ہم بھی ریاض آنے کے بعد سے عمرہ ادا کرنے کے لیے جانے کا سوچ رہے تھے۔ بیت اللہ شریف کا دیدار ہر مسلمان کی طرح ہمارے دل کے نہاں خانے میں بسا ہوا تھا۔دعا تھی کہ اللہ پاک ایک موقع دے کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا سفر کرسکیں اور ان مقامات کا طواف اور زیارت کرسکیں جو اللہ اور اس کے رسول کو پیارے ہیں۔ ہماری چھٹی جمعے کو ہوتی تھی اس لیے ہم دو دن یعنی بدھ اور جمعرات کی چھٹی لیکر عمرے کیلیے نکل جاتے تو آسانی اور سہولت کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے بعد جمعے کی رات کو واپس آسکتے تھے۔ ہم نے اپنے انچارج سیمی سے دو دن کی چھٹی کی بات کی لیکن سیمی دو دن کی چھٹی پر راضی نہیں تھا اس کا کہنا تھا ہم صرف ایک دن یعنی جمعرات کی چھٹی لیں۔ ہم دو دن کی چھٹی پر اڑے ہوئے تھے۔ آخر سیمی ہمیں دو دن کی چھٹی دینے پر رضامند ہوگیا۔ طے پایا کہ ہم منگل کی شام کو مکہ المکرمہ کے لیے نکل جائیں گے اور جمعے کی رات کو واپس ریاض پہنچ جائیں گے۔ ہفتے کے روز ہم بطحہ گئے اور وہاں موجود ایک عمرہ سروس میں منگل کے لیے بکنگ کروادی۔ وہیں سے ہم نے احرام اور دیگر اشیا بھی خرید لیں۔ منگل کو ہم ولا سے ضروری سامان کا بیگ لیکر کالج گئے وہاں سے واپسی پر بطحہ اتر گئے، وہاں اپنی عمرہ سروس پہنچے جہاں بس مکہ جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ تقریبا پانچ بجے بس روانہ ہوئی، دل پر ایک انجانے سرور کی کیفیت طاری تھی۔ بس میں تمام عازمین عمرہ تھے جو ذکرو اذکار میں مصروف تھے۔ لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کی جا رہی تھیں۔ راستے میں مغرب اور عشا کی نماز کے لیے بس رکی، جہاں لوگوں نے نماز پڑھنے کے علاوہ رات کا کھانا بھی کھایا۔ ریاض سے مکہ المکرمہ کا فاصلہ تقریبا875 کلومیٹر ہے۔ صبح فجر سے بہت پہلے ہماری بس میقات پر پہنچ گئی، یہاں رکنا ضروری ہے یہیں سے غسل کے بعد احرام باندھا جاتا ہے۔
میقات حدود حرم کو کہتے ہیں۔ مکہ مکرمہ کے لیے "ذو الحلیفة”، "قرن المنازل”،” یلملم”، "الجحفة” اور "ذات عرق” وہ پانچ میقاتیں ہیں جہاں مشاعر مقدسہ کا رخ کرنے والے قافلوں کا ٹھہرنا ناگزیر ہے۔ شرعی طور پر یہاں رکنا ایک دینی فریضہ ہے جہاں حجاج کرام حج کی ادائیگی کی نیت کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک اور میقات "مسجد التنعیم” کا بھی اضافہ ہوا ہے جو مکہ کے رہنے والے مقامی یا مقیم افراد کے حج کے لیے میقات شمار کی جاتی ہے۔
قرن المنازل کو نجد اور خلیج کے عرب ممالک کے حجاج کرام کی میقات سمجھا جاتا ہے۔ حجاج کرام کے ایک منتظم علی السعدی کے مطابق طائف میں "الھدا” کے راستے کے افتتاح نے ایک متوازی میقات بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جو کہ اس وقت ” وادی محرم” کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس نئے مقام نے ریاض کے مشرق اور جنوبی علاقوں سے آنے والے حجاج کرام کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ خلیج کے عرب ممالک کے بھی بہت سے حجاج کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ میقات پر احرام باندھا جاتا ہے علمائے کرام کا کہنا ہے جب عمرہ کا احرام باندھنا چاہیں تو مسنون طریقہ یہ ہے میقات پر یا میقات سے پہلے ناخن تراشیں، زیر ناف اور بغلوں کے بال صاف کریں، غسل کریں ، اچھی خوشبو لگائیں اور دو سفید چادریں لے لیں، ایک چادر تہبند کی طرح باندھ لیں اور ایک چادر کو اوڑھ لیں، خواتین اپنا عام لباس ہی پہنیں ، ہاں نقاب ، برقع اور دستانے نہ پہنیں اور میقات پر اگر فرض نماز کا وقت ہو تو نماز پڑھیں اور پھر لبیک عمرہ کہہ کر نیت کرلیں اور تلبیہ کہنا شروع کردیں۔ ہم نے قرن المنازل کے میقات پر احرام باندھا۔ میقات سے ہماری بس مکہ المکرمہ کے لیے روانہ ہو گئی۔۔۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں