میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیر اعظم چوہدری نثار کے مشورے پر توجہ دیں!

وزیر اعظم چوہدری نثار کے مشورے پر توجہ دیں!

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۶ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

قومی اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پاناما کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی حتمی رپورٹ کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ دن بدن زور پکڑنے لگا۔اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ اجلاس جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں اپوزیشن کے چیمبر میں ہوا، جس کی صدارت قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کی۔اجلاس میں پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، قومی وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر کے سربراہان اور نمائندوں نے شرکت کی۔تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ، شاہ محمود قریشی اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اجلاس کی کارروائی کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے لیے ریکوزیشن قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کے پاس جمع کرا دی ہے۔جسے وہ جب بھی مناسب سمجھیں گے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیں گے۔انہوں نے مزید بتایا کہ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور عوامی نیشنل پارٹی نے اجلاس میں تجویز دی ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے اور فی الوقت ان ہاؤس تبدیلی یا نئے الیکشن کے مطالبے کی طرف نہیں جانا چاہیے جبکہ تحریک انصاف نے بھی پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ان ہاؤس تبدیلی پر اتفاق کیا ہے۔
جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے بعد اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کے لیے بڑھتے ہوئے مطالبے کو وزیراعظم نواز شریف نے دو ٹوک الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے ہاتھ صاف ہیں، جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی ان کے خلاف کوئی کرپشن کا الزام نہیں اس لیے استعفیٰ نہیں دوں گا۔یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی ارکان کے اجلاس کے موقع پر کہی، جس میں پارٹی کے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز شریک تھے۔ مسلم لیگ ن نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے مسلم لیگی ارکان کے اجلاس میں وہ لوگ بھی شریک ہوئے جو پارٹی سے ناراض تصور کیے جاتے تھے اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ اجلاس میں اپنی ناراضی کااظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم اور وزرا کو تنقید کانشانا بنائیں گے لیکن ان خدشات کے برعکس انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف پر اعتماد کااظہار کیا،جس کے بعد وزیر اعظم نواز نے ایک دفعہ پھر یہ بات دہرائی کہ جے آئی ٹی کی متنازع رپورٹ ہمارے مخالفین کے بے بنیاد الزاما ت کا مجموعہ ہے، اس رپورٹ میں ہمارے موقف اور ثبوتوں کو جھٹلانے کے لیے کوئی ٹھوس دستاویز پیش نہیں کی گئیں، صرف ہمارے خاندان کے 62 سالہ کاروباری معاملات کو مفروضوں، ذرائع سے حاصل کردہ رپورٹوں، بہتان اور الزام تراشیوں کی بنیاد پر نشانابنایا گیا، انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیاکہ ’جے آئی ٹی رپورٹ میں کوئی ایک جملہ ایسا نہیں جس سے اشارہ بھی ملے کہ نواز شریف کرپشن کا مرتکب ہوا ہے‘۔ اس لئے محض حزب اختلاف اور ایسے لوگوں کے کہنے پرجن کو عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے استعفیٰ نہیں دوں گا،اور آخری وقت تک اپنا اور حکومت کادفاع کروں گا۔
جہاں تک جے آئی ٹی رپورٹ کا تعلق ہے تو اس میں وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں جو الزامات سامنے آئے ہیں، کسی برسر اقتدار وزیر اعظم کے لیے اس سے زیادہ بدتر الزامات اور کیا ہوں گے ،جے آئی ٹی کی رپورٹ میں شریف خاندان پر جھوٹے بیانات اور جعلی دستاویزات سے لے کر اپنی ذرائع آمدنی اور مالی وسائل چھپانے اور اپنے وسائل سے بڑھ کر طرز زندگی گزارنے تک کئی الزامات عائد کیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجودنواز شریف جھکنے کو تیار نظر نہیں آتے اور آخری دم تک لڑنے کے لیے پر عزم ہیں۔ اس صورت میں اب یہ سپریم کورٹ پرہی منحصرہے کہ وہ ان کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتی ہے اور اس حوالے سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتاکہ اس کیس کو ختم ہونے میں ابھی اور کتنا وقت لگے گا لیکن یہ بات تو یقینی ہے کہ اس کا انجام کافی مشکلوں سے بھرپور ہوگا۔ عین ممکن ہے کہ سپریم کورٹ وزیر اعظم کو کلین چٹ دیدے اور اس طرح میاں نواز شریف کا یہ کہنا درست ثابت ہوجائے کہ وہ واقعی مسٹر کلین ہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی رپورٹ میں لگائے جانے والے الزامات کودرست تصور کرتے ہوئے تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے والے میاں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا کر ان کے خلاف فوجداری مقدمہ چلانے کا حکم دیدے اوریہ بھی عین ممکن ہے کہ سپریم کورٹ نواز شریف کے ساتھ ہی ان کے خاندان کے دیگر افراد اوران کے دفاع میں حد سے آگے بڑھ جانے والے ان کے رفقا کو بھی نااہل قرار دے کر عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونے کا حکم دے۔ ایسی صورت میںوزیر اعظم اپنے اس وقت کے اصرار کو کس طرح درست ثابت کریں گے،یہ سوچنا یقینا خود میاں نواز شریف کاکام ہے۔ہمارے خیال میں دانشمندی کاتقاضا یہی ہے کہ وزیر اعظم اس حوالے سے اپنے دیرینہ دوست اور وزیرداخلہ کے مشورے پر توجہ دیںاور اس بحران سے نکلنے کاکوئی درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کریں۔ اطلاعات کے مطابق چوہدری نثار نے ارکان پارلیمان کے سامنے وزیر اعظم کو صاف صاف بتادیاتھا کہ وہ حالات کی سنگینی کااحساس کریں کیونکہ اب کوئی معجزہ ہی انھیں بچاسکتاہے، یہی نہیں بلکہ چوہدری نثار نے وزیر اعظم کو یہ بھی بتادیا کہ آپ کے مشیروں اور خوشامدی ٹولے ہی نے حالات کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔
ہوسکتاہے کہ ملک میں جنم لینے والی یہ قانونی کشمکش کافی عرصہ اور چلے جو ملک میں موجود سیاسی تقسیم کو مزید تقسیم کرنے کا باعث بھی بنے گی۔ اس تاریخی عدالتی کارروائی کا نتیجہ سیاسی منظرنامے کو مکمل طور پر بدل کر رکھ سکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ شریف دور کے اختتام کی شروعات بھی ہو۔نواز شریف کو یہ سوچنا چاہئے کہ جے آئی ٹی نے ان کی بیٹی مریم نواز پرجو بظاہر کافی عرصے سے ان کی جانشین کے طور پر نظر آ رہی ہیں، جھوٹی دستاویزات جمع کرانے کا الزام عائد کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یوں اقتدار کو دوسری نسل میں منتقل کرنے کا شریف خاندان کا منصوبہ بھی ناکام ہوجائے۔ یہ تونظر آ رہا ہے کہ شریف خاندان کے بیرونی اثاثوں پر ایسی مفصل تحقیقات نے خود وزیر اعظم کو اچنبھے میں ڈال دیا ہے۔اگرچہ حکومت بالآخر تحقیقات کی سنجیدگی بھانپ چکی ہے مگر پھر بھی پراعتماد دکھائی دیتی ہے کہ وزیر اعظم اس مشکل صورتحال سے جیسے تیسے نکل ہی آئیں گے لیکن چوہدری نثار کے مشورے سے یہ ظاہرہوتاہے کہ اب شاید ایسا نہ ہوسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں