یہ وکیل کاکام نہیںکہ عدالت کو بتائے کہ ہم کیا کریں،چیف جسٹس
شیئر کریں
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ آج کل سپریم کورٹ میںکوئی فیکٹس ہی نہیں بتاتا، فلاں کاغذ دیکھ لیں، فلاںکاغذ دیکھ لیں، بس یہ دیکھ لیں وہ دیکھ لیں، وکیل کا کام ہے کچھ الفاظ میں کیس سمجھادے، اِدھر دیکھ لیں، اُدھردیکھ لیں، اوپر دیکھ لیں، نیچے دیکھ لیں، فلاں صفحہ دیکھ لیں، وکیل سے جرح نہیں کرنی چاہیئے۔ دو، تین طریقے ہوتے ہیں، ایک علم غیب ہے وہ ہمارے پاس نہیں۔ اب نیا اسٹائل یہ ہے کہ سوال کاجواب نہ ہوتو اوربحث شروع کردو۔ا ب ہم کیس کی تیاری بھی کریں گے اورکیس کافیصلہ بھی کریں گے۔ ہمیں توقانون ہی نہیں پتا کہ مرے ہوئے شخص کے خلاف دعویٰ ہوسکتا ہے۔ ہارے ہوئے لوگ تواورزیادہ محنت کرتے ہیں،، یہ وکیل کاکام نہیںکہ عدالت کو بتائے کہ ہم کیا کریں،وکیل نے عدالت کے سوالوں کے جواب دینا ہوتے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے مسمات جہاں بانو اوردیگر کی جانب سے مہربان شاہ اوردیگر کے خلاف خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں زمین کی ملکیت کے تنازعہ کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کا درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے قسم کھائی ہے کہ کبھی کلیئر کاپی جمع نہیں کروائیں گے، چارفیکٹس نکالنے کے لئے اتنی جدوجہد کرنا پڑتی ہے، مہربان شاہ کدھرسے ٹپک پڑا، خورشیدہ زمین کی مالک ہے، آج کل سپریم کورٹ میںکوئی فیکٹس ہی نہیں بتاتا، فلاں کاغذ دیکھ لیں، فلاںکاغذ دیکھ لیں، بس یہ دیکھ لیں وہ دیکھ لیں، وکیل کا کام ہے کچھ الفاظ میں کیس سمجھادے، اِدھر دیکھ لیں، اُدھردیکھ لیں، اوپر دیکھ لیں، نیچے دیکھ لیں، فلاں صفحہ دیکھ لیں، وکیل سے جرح نہیں کرنی چاہیئے، خورشیدہ کہاں گئی پھر، خورشیدہ سے آپ کورنجش تھی تواس کو پارٹی کیوں نہیں بنایا، اللہ کا بندہ! خورشیدہ کے ورثاء کون ہیں یہ دکھادیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دو، تین طریقے ہوتے ہیں، ایک علم غیب ہے وہ ہمارے پاس نہیں،ٹائٹل میں دکھائیں خورشیدہ کے لواحقین کانام کہاں لکھا ہے، میرا نام لکھ دیتے آپ اپنا نام لکھ دیتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب نیا اسٹائل یہ ہے کہ سوال کاجواب نہ ہوتو اوربحث شروع کردو، لاء کی کلاس ہم کررہے ہیں تودوسری بات ہے، کس طرح میں کرتا، کس طرح میں کرتا، کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا، یہ دوسری مرتبہ پورے کیس کے دلائل ہورہے ہیں ، اب ہم کیس کی تیاری بھی کریں گے اورکیس کافیصلہ بھی کریں گے،ہمیں توقانون ہی نہیں پتا کہ مرے ہوئے شخص کے خلاف دعویٰ ہوسکتا ہے، وکیل گھر بیٹھیں، ہم خود ہی پڑھ لیں گے، تھوراسابنیادی کیس بتادیں کیا کیس ہے، ایک منٹ کا کیس تھا،یہ وکیلوں کو غلط فہمی ہے، سپریم کورٹ کا کام پیج دیکھنا نہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکیل خودفیصلہ کر کے لے آئیں ہم دستخط کردیں گے، فیکٹس دے نہیں رہے اورسیدھے قانون پر جانا چاہتے ہیں، بیٹھو، چلائو، ملتوی کردو۔ چیف جسٹس نے مدعاعلیہ کے وکیل ضیاء الرحمان خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیس کے حقائق بتائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جھگڑاکس چیز کا ہے وہ بتائیں۔ وکیل ضیاء الرحمان خان کا کہنا تھا کہ مدعا علیہ نے درخواست گزار کے ساتھ 13کنال زمین کاتبادلہ کیا تھا۔ چیف جسٹس نے ضیاء الرحمان خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کوزمین دے دیں اورآپ ان کودے دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جوتبادلہ میں زمین شاہی خان کو ملی وہ کہاں گئی۔ اس پر درخواست گزارکے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ زمین واپس مدعا علیہ کے ہی پاس ہے۔ وکیل ضیاء الرحمان خان کا کہنا تھا کہ میں نے دعویٰ دائر کیا تودرخواست گزار نے بھی اس کے فوراً بعد دعویٰ دائر کردیا۔ چیف جسٹس نے مدعا علیہ کے وکیل سے سوال کیا کہ تبادلہ کی کیوں انٹری نہیں کروائی۔ ضیاء اللہ خان کا کہنا تھا کہ زبانی معاہدہ شاہی خان اور دیدار شاہ کے درمیان تھا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ درخواست شای خان کے ورثاء نے زمین وراثت کے زریعہ اپنے نام درج کروالی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کیس کا فیصلہ محفوظ کررہے ہیں اگرفریقین تحریری دلائل دینا چاہیں تو15روز میں جمع کرواسکتے ہیں۔ بینچ نے وفاقی حکومت کی جانب سے ڈائریکٹر اے این ایف کے توسط سے حاجی شامل خان کے خلاف ان کے لواحقین کے توسط سے منشیات برآمدگی کے کیس میں جائیداد ضبط کرنے کے معاملہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا تھا۔دوران سماعت اے این ایف پراسیکیوٹر پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے سرکاری وکیل کو ہدایت کی کہ کیس چلائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کام کی بات کس صفحہ پر لکھی بتادیں، مدعا علیہ کوسزاہوئی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سزابرقراررہی کہ نہیں، کوئی جواب ہی نہیں دیتا، تقریر شروع ہوجاتی ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ فائنل فیصلہ ہائی کورٹ کاہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ 89کلو گرام ہیرائون سمگلنگ کامعاملہ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے اتنالمبا فیصلہ لکھا ہے اس میں غلطی بتادیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکالت کدھر ہورہی، مشہورکیس ہے، مشہور کیس ہے، کوئی حوالہ نہیں دے رہے، محکمہ کی جانب سے جاری نوٹس کہاں ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ہم اسپیشل جج کے پاس شکایت درج کرواتے ہیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ دوعدالتوں سے آپ جیتے اورہائی کورٹ سے آپ کے خلاف فیصلہ آگیا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ شامل خان فوت ہو گیا تھااس کا بیٹا ہوااوراس نے بیان حلفی بھی جمع کروایا اورشوکازکاجواب بھی دیا۔ چیف جسٹس کا سرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہائی کورٹ سے آپ ہارے ، ہارے ہوئے لوگ تواورزیادہ محنت کرتے ہیں، یہ وکیل کاکام نہیںکہ عدالت کو بتائے کہ ہم کیا کریں،وکیل نے عدالت کے سوالوں کے جواب دینا ہوتے ہیں، منشیات کی کتنی مقدارتھی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ 2011میں درخواست دائر ہوئی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ13سال پرانا کیس ہے۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی تیاری توکچھ بھی نہیں ہے اب ہم آپ کی مدد کریں گے۔ عدالت نے سرکاری وکیل کو مزید دستاویزات جمع کروانے کی مہلت دیتے ہوئے مدعاعلیہ کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کر لیااور کیس کی مزید سماعت ایک ماہ تک ملتوی کردی۔ جبکہ بینچ نے دلاورخان کی جانب سے دائر ضمانت بعدازگرفتاری پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل پنجاب احمد رضا گیلانی نے پیش ہوکربتایا کہ کیس کاٹرائل مکمل ہو چکاہے اور صرف ملزم کا342کابیان ریکارڈ ہونا باقی ہے۔ جبکہ ملزم کے وکیل شاہنوازخان نیازی کے جونیئر وکیل سردارآصف جاوید نے بتایا کہ ان کے سینئر والدہ کی اچانک بیماری کی وجہ سے عدالت سے چلے گئے ہیں اوران کے پاس کیس کی فائل نہیں اس لئے وہ دلائل نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کاٹرائل مکمل ہوچکاہے اور ملزم کا صرف 342کابیان ریکارڈ ہونا ہے، اس مرحلہ پر درخواست ضمانت زیر غور نہیں لائی جاسکتی۔ بینچ نے عدم پیروی پر درخواست خار ج کردی۔