میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مردم شماری کے دوران کسی کو شمار کرنے سے محروم نہ رکھا جائے

مردم شماری کے دوران کسی کو شمار کرنے سے محروم نہ رکھا جائے

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۶ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان میں 19 سال بعدبالآخر آج سے مردم شماری کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے, 2008 سے التواکا شکار چھٹی مردم و خانہ شماری کا اختتام 25 مئی کو ہوگا یہ عمل دو مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک میں یہ مردم شمار ی بنیادی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس مردم شماری کے نتیجے میں آبادی کے حوالے سے سامنے آنے والے اعدادوشمار ہی ملک کی ہر طرح کی منصوبہ بندی خاص طورپر اس ملک کے عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی سے متعلق منصوبوں کی بنیاد ثابت ہوں گے، اس مردم شماری کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اعدادوشمار کی روشنی میں ملک کے تمام صوبوں کی ضروریات کا صحیح اندازہ لگانے اور ان کی ضروریات کی تکمیل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
مردم شماری کی اس اہمیت کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مردم شماری کوہر اعتبار سے جامع اورملک کے تمام علاقوں اور صوبوں کیلئے قابل قبول بنایاجائے، جبکہ اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جاسکتا کہ وفاقی حکومت نے اس مردم شماری کو ہرا عتبار سے جامع اور آبادی کے تمام طبقوں کیلئے قابل قبول بنانے کیلئے مختلف اقدام کئے ہیں ،جس کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اس سال مردم شماری میں مخنث افراد کو علیحدہ سے شمار کیا جائے گا۔خواجہ سرا افراد کو شمار کیے جانے کا عدالتی فیصلہ سامنے آنے کے بعد اس حوالے سے فارمز کی چھپائی کا عمل مکمل ہوچکا ہے جبکہ مردم شماری کے لیے تعینات افراد کو بھی بتایا جاچکا ہے کہ سروے میں شامل افراد کے لیے جنس کے خانے میں تین آپشنز یعنی مرد، خاتون یا مخنث موجود ہوں گے،لیکن کثیرالنسلی افراد کے مسکن پاکستان میں جہاں زبان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اس مردم شماری میں ملک میں بولی اور سمجھی جانے والی تقریباً 70 زبانوں میں سے صرف 9 زبانوں کو شامل کیا گیا ہے، جو ملک میں مقیم کئی برادریوں کے لیے مایوس کن ہے۔مردم شماری میں قلیل آبادی والے علاقے گلگت بلتستان کی کسی علاقائی زبان کو شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی گجراتی کو شامل کیا گیا ہے جو بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کی زبان ہے۔گجراتی بولنے والوں کا خیال ہے کہ اگر زبان کو شناخت نہیں ملتی تو ان کی مادری زبان گمنام ہوسکتی ہے۔
اس مردم شماری کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان میں ہونے والی چھٹی مردم شماری سے ملک میں موجود اقلیتی برادری بالخصوص عیسائیوں اور ہندوو¿ں کی حقیقی تعداد سامنے آجائے گی جبکہ اب تک پاکستان میں موجود اقلیتوں کی تعداد کے حوالے سے صرف اندازے لگائے جاتے رہے ہیں جن پر اتفاق رائے نہیں،اب تک لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق پاکستان میں عیسائیوں کی تعداد 20 لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان جبکہ ہندو آبادی 25 لاکھ سے 45 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔مردم شماری کے دوران شہری خود کو مسلمان، عیسائی، ہندو یا احمدی ہونے کی حیثیت سے رجسٹرڈ کراسکیں گے۔مذہب کے حوالے سے ان4 آپشنز کے علاوہ لوگ خود کو شیڈولڈ طبقے کا رکن بھی ظاہر کرسکیں گے جس میں پسماندہ اور نچلی ذات کی ہندو برادری کے افراد و دیگر شامل ہوں گے۔خیال رہے کہ مردم شماری میں سکھ، پارسی یا بہائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے شمار کے لیے کوئی علیحدہ خانہ موجود نہیں۔مردم شماری کے فارم کے ایک خانے میں شہریوں سے یہ سوال بھی کیا جائے گا کہ ان کے گھر میں موجود ٹوائلٹس یعنی بیت الخلا کی تعداد کتنی ہے۔اس سوال کی ضرورت اس لیے بھی محسوس ہوتی ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی 40 فیصد آبادی کو ضروری حاجات کے لیے ٹوائلٹ میسر نہیں جو صحت کے بیشتر مسائل کی وجہ ہے۔مردم شماری میں قومیت کے خانے میں شہریوں کے لیے دو آپشنز پاکستانی یا غیر ملکی موجود ہوں گے۔تاہم اس حوالے سے پاکستانی فوج جو اس مردم شماری کے ساتھ متوازن شماری سرانجام دے گی، وہ قومیت کے حوالے سے مزید باریک بینی سے جائزہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی اہم وجہ ملک میں موجود افغان مہاجرین کی بڑی تعداد ہے۔کئی مقامی افراد خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ افغان شہری مقامی افراد کی گنتی میں آجائیں گے جس سے اعداد و شمار پشتون افراد کی تعداد میں اضافے کا سبب بنیں گے اور نتیجتاً پشتون سیاسی جماعتوں کو اس کا فائدہ ہوگا۔دوسری جانب اندازاً 60 لاکھ پاکستانی جو بیرون ملک ملازم ہیں وہ مردم شماری کا حصہ نہیں بن پائیں گے۔اندرون ملک ہجرت کے حوالے سے بھی کوئی معلومات اکٹھی نہیں کی جائیں گی، جو درحقیقت کسی صوبے کی سیاسی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے، جہاں معاشی وجوہات کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد منتقل ہوئی۔
مردم شماری کو شفاف بنانے کے حوالے سے وفاقی حکومت کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجودملک کے تینوں صوبوں کی جانب سے ان کی شفافیت اور طریقہ کار پر سوال اٹھائے جارہے ہیں اور یہ خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ میں ان صوبوں کو ان کے اصل حق سے کم حصہ دینے کیلئے ڈنڈی مارنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ بلوچستان اورخیبر پختونخوا کی حکومت نے مردم شماری کے دوران ان صوبوں میں پناہ گزین افغانوں کو بھی شمار کرلئے جانے اور بارشوں، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب ،سیلابوں ،اور قدرتی آفات کی وجہ سے مختلف خاندانوں کی نقل مکانی کی وجہ سے اصل مکینوں کے نام رہ جانے کے خدشات کااظہار کیاگیاہے، جبکہ سندھ میں شہری سندھ اور دیہی سندھ کے حوالے سے تشویش کا بھی ازالہ نہیں کیاجاسکا ہے اور اس حوالے سے شہری آبادی کو دانستہ کم اور دیہی آبادی کو زیادہ دکھائے جانے کے خدشات اپنی جگہ موجود ہیں، دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ نے مردم شماری کیلئے وفاق سے وسائل کی فراہمی کامطالبہ کیاہے اور یہ موقف اختیار کیاہے کہ وفاق مردم شماری کے اخراجات کے حوالے سے ان کو وفاق کی جانب سے فراہم کئے جانے والے وسائل سے رقم کی پہلے ہی کٹوتی کرچکاہے ۔اس لئے اب مردم شماری کے اخراجات کیلئے رقم کی فراہمی وفاق کافرض ہے۔اسی طرح مردم شماری کیلئے شناختی کارڈ کی جگہ برتھ سرٹیفکٹ یا اسکول سرٹیفکٹ یادیگر کوئی بھی ثبوت قبول کیاجانا چاہئے اور ایسا پورے ملک میں ہونا چاہئے۔
امید کی جاتی ہے کہ مردم شماری کیلئے تعینات اساتذہ اس حوالے سے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کریں گے اور کسی بھی شخص کو محض شناختی کارڈ نہ ہونے کی بنیاد پر مردم شماری سے محروم نہیں رکھا جائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں