میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نون لیگ میں ٹکٹو ں کی تقسیم اور ممکنہ سیاسی منظرنامہ

نون لیگ میں ٹکٹو ں کی تقسیم اور ممکنہ سیاسی منظرنامہ

جرات ڈیسک
هفته, ۶ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

پاکستان مسلم لیگ نون اپنے بوجھ تلے دب رہی ہے۔ اس جماعت کا ٹکٹوں کی تقسیم پر متوقع بحران اب سامنے آ گیا ہے۔ لاہور میں اس کے بڑے بڑے برج الٹ گئے ہیں۔ ابتدائی اطلاعات میں لاہور کی 14میں سے 12 نشستوں پر امیدواروں کے ناموں کو شارٹ لسٹ کرلیا گیا ہے۔ جبکہ این اے 117میں استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ ممکنہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے امیدوار شارٹ لسٹ نہیں کیے گئے۔فہرست کے مطابق سردار ایاز صادق، رانا مشہود، میاں مرغوب احمد اور رانا مبشر قومی اسمبلی کی ٹکٹوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ ان کے علاوہ علی پرویز ملک، سردار نصیر بھٹہ اور وحید عالم خان بھی پارٹی قیادت کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔مسلم لیگ(ن) نے سردار ایاز صادق اور رانا مبشر کو ضمنی انتخابات میں ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو سینٹ کے ٹکٹ کی بھی پیشکش کیے جانے کا امکان ہے۔ این اے۔ 117سے استحکام پاکستان پارٹی کے علیم خان اور مسلم لیگ(ن) کے ملک ریاض میں سے کسی ایک امیدوار کا فیصلہ ہو گا جبکہ این اے 118سے حمزہ شہباز کا نام شارت لسٹ کیا گیا ہے۔اسی طرح این اے۔119سے مریم نواز، حلقہ این اے۔ 120 سے سہیل شوکت بٹ اور حلقہ این اے۔121سے شیخ روحیل اصغر کو پارٹی ٹکٹ دیے جانے کا قوی امکان ہے۔اسی طرح قومی اسمبلی کی نشست این اے۔122سے خواجہ سعد رفیق، این اے۔123سے شہباز شریف، این اے۔128سے حافظ نعمان اور این اے۔129سے مہر اشتیاق کو مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے۔124میں استحکام پاکستان پارٹی کے عون چوہدری اور مسلم لیگ(ن) کے رانا مبشر اقبال میں مقابلہ ہے جبکہ این اے۔127سے عطا تارڑ مسلم لیگ(ن) کے ممکنہ امیدوار ہو سکتے ہیں۔مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف لاہور میں ممکنہ طور پر اپنے آبائی حلقے این اے۔130سے حصہ لیں گے۔مسلم لیگ آئندہ چند روز میں لاہور کے باقی دونوں حلقوں این اے۔117اور این اے۔124سے امیدواروں کا حتمی فیصلہ کرے گی۔جہاں علیم خان اور عون چودھری کی ممکنہ حمایت کے فیصلے بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
نون لیگ کی جانب سے ابتدائی مرحلے میں لاہور کی14میں سے 12 نشستوں پر امیدواروں کی اس فہرست کے سامنے آنے سے اس جماعت کے اندر جاری ہڑبونگ کا اندازا لگایا جا سکتا ہے۔ نون لیگ تاریخ کے اس مرحلے میں داخل ہو گئی ہے جہاں اُسے اپنی بقا کے مسئلے سے دوچار کر دینے والے بحرانوں کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ جماعت عوام میں صرف اپنی مقبولیت ہی نہیں کھو چکی بلکہ وہ عوامی ردِ عمل کے نشانے پر بھی آگئی ہے۔ کسی جماعت کا عوامی حمایت کھو دینا ایک بات ہوتی ہے اور اس کا عوامی نفرت کا نشانا بننا دوسری بات ہوتی ہے۔ نون لیگ دونوں ہی کا شکار ہے۔ چنانچہ اب نون لیگ کے قائدین کا مکمل انحصار طاقت ور حلقوں پر ہے۔ یہ وہی حلقے ہیں جن کے متعلق ماضی میں نوازشریف کہہ چکے ہیں کہ ”ڈکٹیشن نہیں لیں گے“۔ یا یہ کہ ”یہ اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتے“۔ یہ وہی حلقے ہیں جن کے خلاف ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی نون لیگ نے ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ یہ وہی حلقے ہیں جن کے متعلق نواز شریف اپنے پرچیوں پر مبنی خطاب میں نام لے لے کر یہ کہتے تھے کہ”اس کا آپ کو حساب دینا پڑے گا“۔ یہ وہی حلقے ہیں جن کے متعلق نوازشریف صاحب یہ رونا روتے رہے ہیں کہ ”مجھے کیوں نکالا“۔ ظاہر ہے کہ اب پھر اُن ہی حلقوں پر انحصار کرتے ہوئے نواز شریف ایک مرتبہ پھر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف لوٹانا چاہتے ہیں مگر”گیاوقت پھر ہاتھ آتا نہیں“ کہ بمصداق زمینی حقائق نے اُن سے منہ پھیر لیا ہے۔ اور اُنہیں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ نون لیگ کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ اُس کی قیادت کو نامقبول اور نفرت کی علامت بنانے والے عمران خان کو حوالہئ زنداں کروانے میں کامیابی پانے اور انتخابات کے ہر ہر مرحلے میں ہر ہر طرح کی حمایت پانے کے باوجود وہ اپنی مشکلات پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ وقت کا جبر یہی ہوتا ہے۔ تاریخ، تقدیر اور روح عصرکی آہٹیں نون لیگ کے قائدین کے خلاف سنائی دیتی ہیں اور وہ اس حقیقت کو طاقت ور حلقوں کی حمایت سے تبدیل کر دینے کے خواہاں ہیں۔نون لیگی قائدین کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی ماضی کی عادتوں سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ چنانچہ ایک طرف تواُن کا انحصار مکمل طاقت ور حلقوں پر ہیں مگر دوسری طرف وہ اس انحصار کو اپنی مکمل سیاسی طاقت میں تبدیل کردینے کی راہ پر بھی گامزن ہے جس کے لیے وہ ہر طرح سے انتخابات میں کامیابی کے ایک ایسے ہندسے کی جانب کوشاں ہے جہاں نون لیگ ایک واحد اکثریتی جماعت کے طور پر اُبھر سکے تاکہ اُسے کم از کم اپنی حکومت قائم رکھنے کے لیے ”اُن“ پر انحصار نہ کرنا پڑے جن پر انحصار کرکے ہی وہ انتخابات جیتنا چاہ رہی ہے۔اس طرح وہ ایک بار پھر ایسی طاقت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں جہاں وہ اپنے”ایجنڈے“ کے تحت بروئے کار آسکیں۔ اس سوچ کے باعث نوازشریف اُن سیاسی اتحادیوں کو وعدوں کے مطابق انتخابات میں گنجائش دینے کو تیار نہیں جن کی حمایت کے ذریعے وہ عمران خان کی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ مگر سہارا دینے والوں کا بھی اپنا ایک ایجنڈا دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ نوازشریف پر یہ دباؤ موجود ہے کہ وہ انتخابات میں اُن اتحادیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں جن کی حمایت سے پی ٹی آئی حکومت کو کڈھب طریقے سے گرایا گیا۔ اس حوالے سے نون لیگ کے لیے جس زندہ مکھی کو نگلنا سب سے زیادہ دشوار ہو رہا ہے وہ استحکام پاکستان پارٹی ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی پاکستان کی ایک ایسی پارٹی ہے جس میں ”استحکام“ ہو یا نہ ہو مگر اس کے ذریعے کسی بھی حکومت کو”عدم استحکام“ سے دوچار کردینے کی پارلیمانی قوت اگلے کھیل میں بھی برقرار رکھی جائے گی۔ اس نکتے کو نوازشریف اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ ابھی یہ واضح ہونا تو باقی ہے کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے استحکام پاکستان پارٹی سے کتنے حلقوں میں معاملہ طے کرنے کا دباؤ تھا، مگر جن دو حلقوں پر اس جماعت کے دو امیدواروں کا سامنا نون لیگ کو ہے، وہ دونوں ہی امیدوار کسی بھی حکومت کو طاقت سے زیادہ کمزور کرنے کے کام آنے والے کرداروں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ علیم خان اور عون چودھری کے معاملے میں یہ رائے عمومی طور پر پائی جاتی ہے کہ ”یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں“۔وفاداریوں کے کھیل کی مکروہ روایتوں سے قطع نظریہ امر تو واضح ہو چکا کہ نون لیگ نے لاہور کی 14 نشستوں میں سے صرف دو نشستوں پر گنجائش دیے جانے کا اشارہ دیا ہے۔ نون لیگ کو جن علیم خان کے لیے گنجائش دینا پڑی ہے، اُن کے متعلق یہ رائے پائی جاتی ہے کہ وہ نون لیگ کی طرف سے استحکام پاکستان پارٹی کو گنجائش نہ دینے کے رویے سے نالاں ہو کر نون لیگ کی حمایت سے دست کش ہونے کاموقف پارٹی اجلاسوں میں سختی سے دیتے رہے ہیں۔ پھر وہ استحکام پاکستان پارٹی میں بھی اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ جہانگیر ترین کے فیصلوں کے خلاف جا سکتے ہیں۔ چنانچہ علیم خان کے معاملے میں نرمی دراصل نون لیگ کی اس موقع پر اپنی مخالفت کے طوفان کو تھما دینے کی حکمت عملی سے کچھ زیادہ نہیں اور عون چودھری راز درونِ خانہ کے دانے چگنے اور دوسری محفلوں میں جا کر اُگلنے کے محنتانے کے طالب ہیں۔ یوں اگر دیکھا جائے تو نون لیگ نے جن دو نشستوں پر گنجائش دی ہے وہ نشستوں کے فارمولے سے زیادہ افراد کو دی جانی والی رعایت محسوس ہوتی ہے۔
نون لیگ کے لیے ان مسائل کے علاوہ جماعت کے اندر بڑھتی ہو ئی ناراضیاں بھی ہیں۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں کہ نون لیگ کی اپنی طاقت اب کوئی نہیں رہی۔ چنانچہ شریف برادران کے سامنے کبھی لب کشا نہ ہونے والے رہنما بھی اب زبان درازیاں کرنے لگے ہیں۔
دوسری طرف نوازشریف اور شہباز شریف کے درمیان امیدواروں کے حوالے سے بھی پسند ناپسند کے اپنے اپنے معیارات سامنے آئے ہیں اور دوسری نسل یعنی حمزہ شہباز اور مریم نواز کی سطح پر آکر یہ معاملات کھینچا تانی کے تیور اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ ساری صورت حال اس وقت زیادہ بھیانک محسوس ہوتی ہے کہ ان سب بحرانوں سے نکل کر نمودار ہونے والی نون لیگ اس قابل بھی نہیں کہ انتخابات کے بعد کسی سطح پر کوئی کارکردگی دکھا سکے اور تحریک انصاف کے چیلنج سے سیاسی سطح پر نمٹ سکے۔ یوں نظام نوازشریف کو لانے کے لیے جس عوامی نفرت کا مسلسل نشانہ بن رہا ہے وہ ان کے برسراقتدار آنے کے بعد کوئی سیاسی راحت پانے کے بجائے مزید بحرانوں کا سامنا کر رہا ہوگا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں مسائل سے دوچار نون لیگ اب مسائل کے حل سے زیادہ مسائل کا حصہ او رموجب بننے کے قابل ہی رہ گئی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں