میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نیب کی کمزور تفتیش ،منظور کاکاکو سنگین الزامات کی تحقیقات سے بچانے کی کوشش

نیب کی کمزور تفتیش ،منظور کاکاکو سنگین الزامات کی تحقیقات سے بچانے کی کوشش

ویب ڈیسک
منگل, ۱۶ فروری ۲۰۲۱

شیئر کریں

(رپورٹ:اسلم شاہ)سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مفرور سابق ڈائریکٹر جنرل منظور احمد کاکا، کراچی سے متحد ہ امارات 28مئی2015ئمیں فرار ہوئے، وہ پہلے امریکا اور اس کے بعدکینیڈا مقیم ہیں، ان کا داخلی بارڈر مینجمنٹ سسٹم ریکارڈ موجود ہے، منظورکا درست پتا نہ ہونے سے ناقابل ضمانت وارنٹ ارسال نہ ہوسکے۔ ان پر سنگین الزامات کی تحقیقات نہ ہوسکی، یہ رپورٹ کراچی کا دوسرا بڑا منصوبہ آئیکون ٹاور ریفرنس کے تحقیقاتی آفیسر اصغرخان نے احتساب عدالت میں پیش کی گئی،عدالت میں تحقیقاتی آفیسر اصغر خان نے ملک ریاض حسین کا بیٹا احمد علی ریاض کے بیرون ملک روانگی سے لاعملی کا اظہار کیا،نہ ا س کا پتا ہے نہ اس کا کسی کو علم ہے۔ انہوں نے وارنٹ پر مشتمل عدالتی سمن لینے سے انکار کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ان کے وکیل تنویر احمد سیال ایڈووکیٹ نے عدالت کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی ہے۔نیب نے اپنی کمزور تفتیش اور اس سے کہیں زیادہ کمزور ریفرنس کے ذریعے عملاً بدعنوانی کے اس میگا اسکینڈل کو دفنانے کا انتظام کردیا ہے۔ ملک کی سب سے بلند و بالا عمارت کے مرکزی ملزم ریاض ملک کے داماد زین ملک ’’چیف ایگز یکٹو گلیکسی کنسٹرکشن کمپنی‘‘کو پلی بارگین کے مقدمے سے باعزت بری کردیا گیا ہے۔اس ضمن میں مقدمہ میں ملوث دیگر ملزمان کے خلاف اب کارروائی میں تعطل پیدا ہونے کا خطرہ ہے، اس طرح ملک کی سب سے بڑ ی عدالت سپریم کورٹ کے نیب کے انداز وتیور اور طریقہ تفتیش پر اْٹھائے گئے سوالات نئے سرے سے جنم لینے والے ہیں۔کراچی میں زمینوں پر قبضے کے خوفناک اسکینڈلز میں ملوث ملک ریاض کا دوسرا بڑا منصوبہ آئیکون ٹاورکا ریفرنس بھی احتساب بیورو میں قریب المرگ ہے۔ ذرائع کے مطابق آئیکون کے خلاف تفتیشی افسر امیش چاولہ، انوسٹی گیشن آفیسر IW-Iنیب کراچی تھے، لیکن کراچی سے کیس پراسرار طور پر راولپنڈی منتقل ہونے پر جوائنٹ انوسٹی گیش ٹیم کی تمام تفتیش اصغرخان کے سپردکردی گئی۔ نیب کراچی میں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے رفاہی پلاٹ 1081 اسکوائر یارڈ اور2900اسکوائریارڈ ریونیوکے پلاٹس کی الاٹمنٹ کرنے والے تمام کرداروں کورپورٹ ریفرنس سے غائب کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری براہ راست یا بالواسطہ اس زمین کے مبینہ طور پر مالک تھے، اس کے 50فیصد شیئر زرداری کے فرنٹ مین ڈاکٹرڈنشاکے نام ہے، 25شیئر فریال تالپور اور 25فیصد حصہ بحریہ گروپ کے مالک ریاض حسین ملک ہے۔ ان کا ریفرنس میں سرے سے ذکر ہی نہیں ہے،سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، موجودہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغاسراج درانی، سابق ناظم کراچی سید مصطفی کمال، سینئر بورڈ آف ریونیو سندھ سید انور حیدر، سیکریٹری فنانس سندھ حسن نقوی، ایڈ یشنل سیکریٹری فنانس سندھ ایس ایم طیب اور ایڈیشنل سیکریٹری لینڈ یوٹیلائزیشن سندھ محمد علی شاہ سمیت دیگر ڈی سی او کراچی، ریونیو کے افسران سمیت کئی نام ریفرنس میں موجود ہی نہیں۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور آغاسراج دررانی نے متوقع گرفتاری کے پیش نظراسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری کرائی تھی،جبکہ اسلام آبا دہائی کورٹ سے ضمانت منسوخ ہونے پر سجاد حسین عباسی،ای ڈی او ریونیو، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی،نیب میں گرفتاری کے بعد وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔ سینیٹر یوسف بلوچ گرفتاری کے بعد ضمانت پررہا کردیے گئے، عبدالسبحان، سیکریٹری لینڈیوٹیلائزیشن بورڈ آف ریونیو سندھ گرفتار ہوئے۔ لیاقت علی قائم خانی سابق ڈائریکٹر جنرل پارکس، جمیل بلوچ ڈائریکٹر اسٹیٹ گرفتار ی کے بعد اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ ان کی ضمانتوں کی درخواستیں بھی منسوخ ہوچکی ہیں، خواجہ شفیق احمد، سابق ایڈیشنل سیکریٹری بلدیات سندھ،سید محمد شاہ ڈسٹرکٹ آفیسر، پلاننگ اینڈ اربن ڈیپارٹمنٹ ماسٹر پلان کراچی،ڈنشا گلیکسی کنسٹرکشن لمیٹڈ، اسدزیدی بھی ضمانتوں پر ہیں۔ عتیق بیگ، ڈسٹرکٹ آفیسر ماسٹرپلان ضمانت پر ہے ،آئیکون ٹاور کی زمین گلیکسی کنسٹرکشن کمپنی کے مالک محمد سلیم تھے۔ان سے سابق صدر آصف علی زرداری کے فرنٹ مین ڈنشا نے کمپنی خریدی اور1996ء میں اس زمین پر 15منزلہ فلیٹ بنانے کے منصوبے کی منظوری حاصل کر لی،مگرپیپلز پارٹی کی حکومت برطرف ہونے کے بعد منصوبہ روک دیا گیا تھا۔ سابق صد ر آصف زرداری کے دور2008 میں بورڈ آف ریونیونے غیر قانونی طور پر 2769 اسکوائریارڈ،کلفٹن کوارٹرز کراچی کی زمین کی الاٹمنٹ دی اور دیگر زمینوں کو شامل کرکے بحریہ آئیکون ٹاور کی بنیاد رکھی اور جعل سازی کے ذریعے پلاٹس نمبر پانچ اور چھ،رہائشی کم کمرشل،9636اسکوائریارڈکو 17000اسکوائر یارڈ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے، 6000اسکوائر یارڈ کی زمین ابن قاسم پارک کی زمین بھی آئیکون ٹاور کا حصہ ہے۔ اس کا پورے مقدمہ میں ذکر ہی نہیں،زیر تعمیر ٹاور کے الاٹمنٹ میں مختلف اداروں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا، لیکن نیب نے الاٹمنٹ کی سنگین بے قاعدگیوں کے باوجود اپنی تفتیش اور ریفرنس میں اس پہلو کو شامل ہی نہیں کیا۔ قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ براہ راست کسی بھی ادارے یا اتھارٹی کے الاٹمنٹ کے اختیار کو 2006 میں ختم کردیا گیا تھا، لیکن آصف زرداری کی ہدایت پر مفرور ملزم منظور احمدکاکاسابق ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آئیکون ٹاور کو براہ راست تمام معاملات کودیکھ رہے تھے، ان کی ذاتی نگرانی میں زمین کی الاٹمنٹ، زمین کو یکجا کرنا اور اس کے نقشہ جات کی منظوری جیسے تمام امور دیکھے جارہے تھے۔ ان کا نام ہی آئیکون ٹاورریفرنس میں موجود نہیں تھا، بعد میں چالان میں شامل کیا گیاہے،کاکا نے نقشہ جات کے دوران ا سٹرکچرل، ڈیزائن، اور این او سی برائے خریدوفروخت کو کئی بار تبدیل کیا گیا۔پہلے 39،49اور58اس کے بعد 59منزلہ کے ساتھ 7انڈرگراؤنڈ پارکنگ، بیسمنٹ 2 کوبھی اس میں شامل کیاجائے تو یہ مجموعی طور پر 68 منزلہ عمارت بن جاتی ہے۔ اس عمارت میں متعدد بار تبدیلیوں کی باربار اجازت کا بندو بست بھی کاکا نے کیا تھا۔ آئیکون ٹاور سے قبل بحریہ ٹاؤن کراچی کا سب سے بڑا رہائشی منصوبہ ناکام ہوچکا ہے۔ منصوبے پر سپریم کورٹ نے سوال اٹھائے تھے اور کسی ڈیل کے نتیجے میں یہ اب بھی متنازع ہے، اور آئندہ بھی اس کے متنازع رہنے کی توقع ہے۔ آئیکون ٹاور بھی ریفرنس دائر ہونے کے باوجود متنازع بن گیا ہے۔ نیب کی تفتیش اور رپورٹ سے اندازہ ہوگیا ہے کہ نیب کو کسی جرم کی سز ا دلانے سے زیادہ اپنے مفاد اور پلی بارگین میں دلچسپی ہے جس سے ادارے کے ساتھ افسران کے مالی مفاد ات بھی وابستہ ہوتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں