میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تھر کول پراجیکٹ ابتدائی مراحل میں ہی مشکلات کاشکار

تھر کول پراجیکٹ ابتدائی مراحل میں ہی مشکلات کاشکار

منتظم
منگل, ۱۵ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

مائننگ کمپنی کی مبینہ بے اعتنائی سے علاقے کی زمینیں بنجر ہونے کاخدشہ، گاﺅں سے ریزروائر ختم کیا جائے،متاثرین
ذخائر سے کوئلہ نکالنے کیلئے کھدائی کا کام مزید تیز،اگلے دو سال میں اس کوئلے سے بجلی کی پیداوار بھی شروع ہونے کا امکان
ایچ اے نقوی
2019 تک بجلی پید ا کرنے کاہدف حاصل کرنے کیلئے تھر کے ذخائر سے کوئلہ نکالنے کیلئے کھدائی کا کام مزید تیز کردیا گیا ہے، جس کے بعد امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگلے دو سال میں اس کوئلے سے بجلی کی پیداوار بھی شروع ہوجائے گی۔ تھر میں اس وقت 800 سے زائد چینی انجینئرز کام کر رہے ہیں، جبکہ آئندہ 2سال کے دوران انجینئرز کی یہ تعداد بڑھ کر 3 ہزار تک پہنچ جائے گی۔تھر میں کوئلے کے ذخائر پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کی سیکورٹی کیلئے فوج، فرنٹیئر کور (ایف سی) اور اسپیشل کمانڈوز تعینات ہیں۔ حکومت نے تھر سے بجلی کی پیداوار کے لیے ڈیڈ لائن جون 2019 مقرر کر رکھی ہے اس مقصد کیلئے اطلاعات کے مطابق40 میٹر گہرائی تک کھدائی مکمل ہوچکی ہے جبکہ کوئلے کے حصول کے لیے 180 میٹر تک کھدائی کرناہوگی۔ایک محتاط اندازے کے مطابق تھر میں 152 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جن سے اگلے 50 سال تک 4 ہزار میگاواٹ بجلی تیار کی جاسکتی ہے۔دو ارب ڈالر سے زائد مالیت کے اس منصوبے میں بجلی کی پیداوار کے لیے پلانٹ کی تنصیب کا کام بھی تیزی سے جاری ہے جبکہ پلانٹ کی مشینری بھی پہنچ چکی ہے۔ابتدائی طور پر 300 میگاواٹ بجلی کے دو پلانٹ لگائے جائیں گے، جس سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت کااندازہ 11 روپے فی یونٹ لگایاگیا ہے۔
تھر میں موجود کوئلے کے وسیع ذخائر سے بجلی کی پیداوار بلاشبہ پاکستان کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے اور اس سے نہ صرف پاکستان کو بجلی کی تیاری کیلئے تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والے کثیر زرمبادلے کی بچت ہوگی بلکہ اس سے ملک میں بجلی کی کمی پوری کرکے صنعتوں کاپہیہ بلا روک ٹوک چلاتے رکھنا ممکن ہوگا جس سے ملک کی صنعتی پیداوار کی لاگت میں مناسب حد کمی ہوسکے گی اور بیرون ملک پاکستانی مصنوعات دیگر ممالک کی تیار کردہ مصنوعات کامقابلہ کرنے کے قابل ہوجائیں گی جس سے برآمد ات میں اضافے کی توقع کی جاسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ تھر میں دریافت ہونے والے کوئلے کے ان وسیع ذخائر کو تھر کاسیاہ سونا بھی قرار دیاجاتاہے۔
ایک طرف تو یہ خوشکن صورت حال ہے کہ ملک میں موجود کوئلے کے ذخائر کوایک اچھے مقصد کیلئے استعمال کرنا ممکن ہورہاہے لیکن دوسری طرف تھر میں کوئلے کے ذخائر پر کام کرنے والی کمپنی کی جانب سے ذخائر سے ضائع ہونے والے آلودہ پانی کو ٹھکانے لگانے اور اس کا ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظامات نہ کئے جانے کی شکایات سامنے آرہی ہیں ، اس حوالے سے سامنے آنے والے حقائق سے واضح ہوتاہے کہ کوئلے کی کان میں کھدائی میں مصروف کمپنی کی جانب سے آلودہ پانی کا ذخیرہ کرنے اور اس کی نکاسی کا مناسب اور محفوظ انتظام نہ کئے جانے کی وجہ سے تھر کی وسیع اراضی پیداواری صلاحیت سے محروم ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے تھر کے غریب عوام جو پہلے ہی بارشوں کے رحم وکرم پر فصلوں کی بوائی پر مجبور ہیں، اس رہی سہی امید سے بھی محروم ہورہے ہیںاور زمینیںناکارہ ہوجانے کی وجہ سے وہ اپنی گزر اوقات کیلئے تھوڑا سا غلہ اگانے کی صلاحیت بھی کھوتے جارہے ہیں۔اس طرح تھر کا یہ سیاہ سونا اب تھر کے غریب عوام کی قسمت کی سیاہی بنتا جارہاہے اور تھر کے عوام اسے اپنی روٹی کے حصول کا ذریعہ چھین لئے جانے سے تعبیر کرنے لگے ہیں ۔یہ صورت حال تھر کے عوام کیلئے کس حد تک پریشان کن ثابت ہورہی ہے اس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ تھرپارکر کے اسلام کوٹ تعلقہ میںتھر کول پراجیکٹ بلاک II سے تعلق رکھنے والے تھر کے باشندوں نے گزشتہ روز اس تعلقہ میں کھدائی کرنے والی کمپنی کی جانب سے آلودہ پانی جمع کرنے کیلئے بنائے گئے ریزروائر کے خلاف مظاہرہ بھی کیاتھا ۔مظاہرین کامطالبہ تھا کہ آلودہ پانی جمع کرنے کا یہ تالاب کسی اور جگہ منتقل کیاجائے کیونکہ اس کی وجہ سے علاقے کی زرخیز قابل کاشت زمینیں بھی ناکارہ ہورہی ہیں۔اپنے مطالبے کے حق میں مظاہرے کیلئے تھرپارکر سے کراچی آنے والے لوگوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل لیلا رام اور ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ ان کاتعلق اسلام کوٹ تحصیل کے گورانونامی گاﺅں سے ہے اور ان کاکسی بھی سیاسی پارٹی یا گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ علاقے کے 12دیہات کے 15ہزار مکینوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ علاقے کے مکینوں کی اجازت کے بغیر تعمیر کیاگیا گندے پانی کا یہ ریزروائر علاقے کے لوگوں کیلئے ایک مصیبت ثابت ہورہاہے۔انھوں نے کہاکہ ہم 12دیہات کے مکین اس ریزروائر کی وجہ سے پریشان ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے اس پورے علاقے میں زمین بنجر ہوجانے کی وجہ سے مویشیوں کی افزائش کی راہ میںمشکلات کھڑی ہوگئی ہیں، اس کے علاوہ اس سے علاقے میں واقع مساجد ، مندروں اور قبرستانوں تک کا وجود خطرے میں پڑگیاہے۔انھوں نے بتایا کہ یہ نمکین پانی پورے علاقے کو سیم وتھور کانشانہ بنارہاہے اس کی تعمیر کیلئے کم وبیش 1200درخت کاٹ دئے گئے ہیں اور ان میدانوں پر جہاں ہمارے مویشی چرتے تھے قبضہ کرلیاگیاہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کاگاﺅں اور اس کے ارد گرد واقع گاﺅں تھرکول پراجیکٹIIکے دائرے میں نہیں آتے اس لئے گندے پانی کے اس ریزروائر کو بھی اسی علاقے میں منتقل کیاجائے جو علاقے اس پراجیکٹ کے دائرے میں آتے ہیں۔
علاقے میں گندے پانی کاریزروائر تعمیر کرنے سے گاﺅں کے لوگوں اور جنگلی حیات اور زراعت کو پہنچنے والے نقصان کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانے کیلئے مظاہروں کے ساتھ ہی گورانو گاﺅں کے لوگوں کی جانب سے حیدرآباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کردی گئی ہے۔سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی اور سندھ کول اتھارٹی کو فریق بنایاگیاہے۔
ایک اہم پراجیکٹ کی تعمیر کے ابتدائی مرحلے میں ہی علاقے کے لوگوں کے حقوق اور مفادات کو نظر انداز کیاجانا بلاشبہ قابل غور ہے اور حکومت کو علاقے کے عوام کی جائز شکایات کا ازالہ کرنے اور انھیں ہرطرح سے مطمئن کرنے کیلئے فوری اقدامات کرنے چاہئےں۔بصورت دیگر آگے چل کر اس پراجیکٹ سے بجلی کی تیاری اور ترسیل کے مراحل میں مزید مشکلات بھی کھڑی ہوسکتی ہیں جس سے ایک اہم اور عوامی اور ملکی مفاد کیلئے ضروری پراجیکٹ بلاوجہ تنازعات کاشکار ہوجانے کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں