میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عالمی برادری میں تنہائی کا ڈھنڈورا۔فوج کی پالیسی اصل نشانہ

عالمی برادری میں تنہائی کا ڈھنڈورا۔فوج کی پالیسی اصل نشانہ

منتظم
جمعه, ۷ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت اجلاسوں کی اندرونی کہانیاں ،کتنی حقیقت کتنا فسانہ ‘فیصلہ وقت کرے گا
ایچ اے نقوی
4اکتوبر کو وزیراعظم ہائوس سارا دن سیاسی اور سفارتی سرگرمیوں کامرکز بنارہا، اور اعلیٰ فوجی اور سول قیادت بھارت کے ساتھ کشیدگی میں اضافے اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے حوالے سے مذاکرات اور صلاح ومشوروں میں مصروف رہی۔ اطلاعات کے مطابق ایوان وزیر اعظم میںوزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اپنی نوعیت کے تین علیحدہ علیحدہ اجلاس ہوئے ۔پہلا اجلاس قومی سلامتی کونسل کا تھا جس میں قومی سلامتی کے حوالے سے تازہ ترین صورت حال پر غور کیاگیا اور صورت حال میں مزید تبدیلی کی صورت میں لائحہ عمل طے کیاگیا، دوسرا اجلاس نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے ہوا جس میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور اس حوالے سے درپیش مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرنے پر غور کیاگیا اور تیسرا اجلاس وزیراعظم نواز شریف اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے درمیان ہوا ۔ظاہر ہے کہ اس اجلاس میں بھارت کی جانب سے مسلسل سرحدی خلاف ورزیوں کے واقعات پر غور کے ساتھ ہی کشیدگی کم کرنے کے اقدامات اور بھارت کی جانب سے یہ سلسلہ بند نہ کیے جانے کی صورت میںممکنہ اقدامات اور اس کے نتائج پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیاگیاہوگا۔
منگل کو ایوان وزیر اعظم میں ہونے والے ان اجلاسوں سے یہ واضح پیغام سامنے آیا ہے کہ ملک کو درپیش خطرات کامقابلہ کرنے اور ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے حوالے سے سول اور فوجی قیادت کی سوچ میں کوئی تضاد اور فرق نہیں ہے۔اس کے علاوہ ان اجلاسوں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ حکومت اور فوجی قیادت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے پر عزم ہے اوربھارت کے ساتھ موجودہ کشیدہ ماحول کے باوجود اس کو ادھورا نہیں چھوڑا جائے گا۔
ان اجلاسوں کے حوالے سے سامنے آنے والی اطلاعات میں یہ بات انتہائی اطمینان بخش معلوم ہوتی ہے کہ بھارت کی پیدا کردہ کشیدگی کے باوجود سول اور فوجی قیادت کی توجہ ملک سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے اہم مقصد سے مبذول نہیں ہوئی اور سول اور فوجی قیادت اس کام کو ہر صورت ترجیحی طورپر مکمل کرنے کیلیے پرعزم ہیں۔
دوسری جانب انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیاکہ حکومت نے انتہائی محتاط اور غیر معمولی طور پر واضح طریقے سے عسکری قیادت کو یہ پیغام پہنچادیا کہ عالمی سطح پر تیزی سے پاکستان تنہا ہورہا ہے جبکہ ریاستوں کی جانب سے کئی اہم معاملات پر کارروائیوں کے لیے اتفاق رائے کا بھی تقاضہ کردیا۔پیر 3 اکتوبر کوآل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر ہونے والی ایک خفیہ ملاقات میں کم سے کم دو اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔پہلا یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے ہمراہ چاروں صوبوں کا دورہ کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹرکمانڈرز کو ایک پیغام دیں گے اوروہ پیغام یہ ہوگا کہ : فوج کے زیر انتظام کام کرنے والی خفیہ ایجنسیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کالعدم شدت پسند گروہوں اور ان گروپس کے خلاف کارروائیوں میں مداخلت نہیں کریں گی جنہیں اب تک سویلین ایکشن کی پہنچ سے دور سمجھا جاتا تھا۔دوسرا یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہدایات دیں کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں جبکہ ممبئی حملہ کیس سے متعلق مقدمات کی سماعت راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں دوبارہ سے شروع کی جائیں۔اخبار کے مطابق یہ فیصلے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان ہونے والی زبردست بحث کے بعد کیے گئے۔
پیر کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے وزیر اعظم ہاؤس میں سول و عسکری حکام کو خصوصی پریزینٹیشن دی۔اس اجلاس کی سربراہی وزیر اعظم نواز شریف کررہے تھے جبکہ کابینہ اور صوبائی حکام بھی اس میں موجود تھے اور عسکری نمائندوں کی سربراہی ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کررہے تھے ۔سیکریٹری خارجہ نے پاکستان کی جانب سے حالیہ سفارتی کوششوں کے نتائج کا خلاصہ پیش کیا اور بتایا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہے اور حکومت پاکستان کے موقف پر دنیا کے بڑے ملکوں نے بے اعتنائی کا اظہار کیا۔امریکا کے حوالے سے سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ باہمی تعلقات خراب ہوئے ہیں اور اس کے مزید زوال پذیر ہونے کا امکان ہے کیوں کہ امریکا کا مطالبہ ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے۔بھارت کے حوالے سے اعزاز چوہدری نے کہا کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات اور جیش محمد کے خلاف موثر کارروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔اس کے بعد سیکریٹری خارجہ نے شرکاکو بتایا کہ چین نے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تاہم ترجیحات میں تبدیلی کا اشارہ بھی دیا۔انہوں نے بتایا کہ خاص طور پر جب چینی حکام نے جیش محمد کے رہنما مسعود اظہر پر اقوام متحدہ کی پابندی کے خلاف تکنیکی اعتراض برقرار رکھنے پر آمادگی ظاہر کی تو ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ بار بار ایسا کرنے کی منطق کیا ہے۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر سول عہدے داروں کے درمیان حیرت انگیز اور غیر معمولی تبادلہ خیال شرو ع ہو گیا۔سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے رد عمل میں ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر نے استفسار کیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟۔اس پر اعزاز چوہدری نے جواب دیا کہ عالمی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید ،لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسے ضروری سمجھتی ہے گرفتار کرے۔اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے غیر متوقع طور پر مداخلت کی گئی اور انہوں نے رضوان اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردیتی ہے۔شہباز شریف کا یہ موقف سن کر شرکا ششدر رہ گئے تاہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے خود وزیر اعظم نواز شریف نے رضوان اختر کو مخاطب کیا اور کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔
اخباری رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس اہم اجلاس کے متعدد عینی شاہدین کا یہ ماننا ہے کہ سیکریٹری خارجہ کی پریزینٹیشن اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی مداخلت وزیر اعظم نواز شریف کا تیار کردہ منصوبہ تھا تاکہ فوج کو کارروائی کے لیے تیار کیا جاسکے اور اس کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی کو بین الصوبائی دوروں پر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی اور سول حکام کے درمیان بحث ہونے کے باوجود معاملہ تلخ کلامی تک نہیں پہنچا۔
قبل ازیں اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ فوج کی پالیسی ہے کہ وہ شدت پسند گروہوں کے درمیان فرق نہیں کرتی اور فوج اس پالیسی پرعملدرآمد جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہے ۔ تاہم آئی ایس آئی چیف نے مختلف شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے وقت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا اور کہا ان کارروائیوں سے ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ سب کچھ بھارت کے دباؤ پر کیا جا رہا ہے یا ہم نے کشمیریوں سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے۔رضوان اختر نے وزیر اعظم کی ہدایت پر چاروں صوبوں کا دورہ کرنے کی بھی بخوشی حامی بھرلی جہاں وہ آئی ایس آئی سیکٹر کمانڈرز کو تازہ احکامات جاری کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں سے بھی ملاقات کریں گے تاکہ ان مخصوص اقدامات کا خاکہ تیار کیا جاسکے جو مختلف صوبوں میں اٹھائے جانا ضروری ہیں۔متعدد حکومتی عہدے داروں کے مطابق اجلاس میں سول اور عسکری حکام کے درمیان بحث وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے کھیلا گیا بڑا جْوا تھا جو انہوں نے مزید بین الاقوامی دباؤ کو روکنے کے لیے کھیلا۔اس کے علاوہ شرکا نے بتایا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے علیحدہ ملاقاتوں میں وزیر اعظم نواز شریف زیادہ پر جوش نظر آئے اور انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اگر پالیسی میں موجودہ حالات کے مطابق تبدیلی نہ کی تو پاکستان کو حقیقی تنہائی کا سامنا ہوسکتا ہے۔تاہم حکومتی عہدے دار اس بات پر منقسم ہیں کہ آیا نواز شریف کا کھیلا گیا جْوا کامیاب ہوگا یا نہیں۔
ایک عہدے دار نے ڈی جی آئی ایس آئی کے عزم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنی ساری زندگی یہ سننے کی دعا کرتے رہے ہیں اب دیکھنا ہے کہ واقعی ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں‘۔ایک اور سرکاری عہدے دار نے کہا کہ ’اقدامات کیے جارہے ہیں یا نہیں یہ دیکھنے کے لیے نومبر تک انتظار کرنا ہوگا کیوں کہ نومبر تک کئی معاملات طے ہوجائیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں