چشم مَا روشن ،دلِ ماشاد ۔ ۔ امت مسلمہ کے دردمند ،عالم اسلام کے عظیم رہنما رجب طیب اردگان کو خوش آمدید
شیئر کریں
ابو محمد
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان، صدر مملکت ممنون حسین کی دعوت پر آج دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ دفترخارجہ کے مطابق صدر اردگان کے ہمراہ وزراءاور اعلیٰ حکام سمیت ایک اعلیٰ سطحی وفد آرہا ہے جس میں ترک تاجروں کا ایک وفد بھی ہوگا۔ وہ صدر ممنون حسین سے ملاقات کے علاوہ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مذاکرات بھی کریں گے۔وہ کل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کریں گے۔ دونوں رہنماو¿ں کے درمیان مذاکرات میں دوطرفہ امور کے تمام پہلوو¿ں سمیت علاقائی و بین الاقوامی معاملات پر بھی بات چیت ہوگی۔ ترک صدر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کریں گے۔ صدر معزز مہمان کے اعزاز میں ضیافت دیں گے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان لاہور بھی جائیں گے جہاں وزیراعظم شاہی قلعہ میں ان کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کریں گے۔ آوزیر دفاع خواجہ آصف کو ترک صدر کے دو روزہ دورہ پاکستان کے موقع پر حکومت پاکستان کا وزیر مہمانداری مقرر کر دیا گیا۔ وہ ترک صدر اور ان کے ہمراہ آنے والے ترک مہمانوں کے استقبالیہ پروگرامات کے انچارج ہونگے۔قبل ازیں رجب طیب اردگان نے 2009میں بھی مشترکہ پارلیمانی اجلاس سے خطاب کیا تھا تاہم اس وقت وہ ترکی کے وزیر اعظم تھے،دورے کے موقع پر انہیں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے فروغ کے حوالے سے انکی خدمات کے اعتراف میں نشان پاکستان عطاکیاگیاتھاجبکہ سابق وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے زلزلے کے موقع پر ترکی کی جانب سے بھرپور تعاون پر اظہارتشکر کیاتھا۔
ترک صدر کا نام اس وقت ملکی و غیر ملکی میڈیا کی زینت بن گیا تھا جب رواں سال جولائی میں انکی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کیلیے فوج نے جمہوریت پر شب خون مارا تھا اور ٹی وی پر بھی فوری کنٹرول حاصل کرلیا تھا تاہم طیب اردگان نے سوشل نیٹ ورک پر اپنے خطاب میں اہل ترکی کو جمہوریت کی بقا کیلیے نکلنے کی ہدایت کی تھی جس پر ترک عوام نے تاریخ رقم کرتے ہوئے بے مثال قربانی کا ثبوت دیا اور لاکھوں کی تعداد میں آدھی رات کے وقت سڑکوں پر آگئے اور قابض فوج سے مزاحمت شروع کردی بالآخر آمرفوجیوں کو پسپائی کا سامنا ہوا اور رجب طیب اردگان کا سیاسی قد پہلے سے بھی بلندہوگیا۔
ترکی کے پاکستان سے دیرینہ تعلقات دوستی و اسلامی اخوت پر مبنی ہیں ۔لیکن گزشتہ ایک دھائی سے یہ تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ترکی پر برسراقتدار حکمرانوں کا تعلق اسلامی فلاحی جماعت سے ہے لہٰذا ترکی نے تمام اسلامی برادر ممالک سے دوستی مضبوط سے مضبوط تررکھنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے ۔
گزشتہ دنوں بھارت کی جانب سے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے دھمکیوں کے جواب میں ترکی اور چین ہی وہ ممالک تھے جنہوں نے پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا اعلان کیا جبکہ ترکی نے اس سے آگے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف فیکٹ اینڈ فائنڈنگ وفد بھیجنے کا بھی اعلان کیاتھا۔
قبل ازیں بنگلا دیش میں پاکستان سے محبت کے جرم میں اسلامی تحریک کے رہنماﺅں کو سزا دیے جانے کیخلاف ترکی وہ واحد ملک تھا جس نے احتجاجااپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
رجب طیب اردگان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے غاصب اسرائیلی فوج کے فلسطین پر مظالم کیخلاف جدوجہد کو پوری دنیا کی آواز بناتے ہوئے فریڈم فلوٹیلا نامی بحری بیڑا امدادی سامان کے ساتھ غزہ بھیجا جس پر اسرائیلی حملے میں کئی افراد شہید ہوئے اور کافی گرفتارکرلیے گئے تھے تاہم ترکی کے مضبوط موقف پر آخر کار اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا اور حال ہی میں اسرائیلی وزیر اعظم نے ترکی کی شرائط یعنی زرتلافی ،معافی اور غزہ میں امدادی کام کی اجازت کی بنیاد پر ترکی سے معاہدہ کر لیا ہے ۔
رجب طیب اردگان کوحالیہ فوجی بغاوت کے بعد بعض مغربی لابی نے ڈکٹیٹر ثابت کرنے کی کوشش کی اور جمہوریت پر شب خون مارنے والے فسادیوں کی گرفتاری پر جمہوریت کے نام نہاد علمبرداروں نے امریکی شیلٹر میں چھپ کر طیب اردگان پر اوچھے وار شروع کردیے اور گرفتارشدگان باغیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی دہائی دینے لگے ۔حالانکہ اس بغاوت کے نتیجے میں سینکڑوں ترک شہری مسلح باغی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔گزشتہ دنوں ترک صدر نے تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے توہینِ صدر کے مرتکب گرفتارباغیوں کی رہائی کا حکم دے کر مخالفین کو چپ کرادیا ہے ۔
رجب طیب اردگان کی سحر انگیز شخصیت اس وقت عالمی حالات پر نظر رکھنے والوں کی نظر میں بہت عظیم ہے کیونکہ وہ اس وقت واحد شخصیت ہیں جو مسلم امت کے لیے درددل رکھنے والوں میں عملی اقدامات بھی کر رہے ہیں اور ان کے اقدامات کے عالمی سطح پر نتائج بھی نظر آرہے ہیں۔ شام میں جاری جنگ کے حوالے سے ترکی نے ہمیشہ درددل محسوس کیا اور شامی مہاجرین کے معاملے پر باوجود یور پ کی سرمایہ پرستانہ ذہنیت کے ترکی اپنا کردار بھرپورکررہا ہے ۔