میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاک فوج کے سربراہ کے بیان پراحسن اقبال کی غیر ضروری برہمی

پاک فوج کے سربراہ کے بیان پراحسن اقبال کی غیر ضروری برہمی

منتظم
اتوار, ۱۵ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

وفاقی وزیر داخلہ و ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے اس تبصرے پر کہ پاکستان کی معیشت اگر بری نہیں تو اچھی بھی نہیں ہے ،مل بیٹھ کر ملکی معیشت پر بات چیت کی ضرورت ہے اور یہ کہ آرمی چیف نے ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے تجاویز دی ہیں۔سخت ردعمل کااظہار کرتے ہوئے ہوئے گزشتہ روز ایک بیان میںکہاہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہیے ، اس کے ساتھ ہی انھوںنے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی معیشت مستحکم ہے ، اورغیر ذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر کر سکتے ہیں ، 2013 کے مقابلے میں معیشت بہت بہتر ہے ،ملک میں توانائی کے منصوبوں اور بجلی کی فراہمی سے صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری سے درآمدات پر دبا ؤپڑا ہے مگر قابل برداشت ہے ، ٹیکسوں کی وصولی میں د گنے سے زائد اضافہ ہوا ہے ،ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے ترقیاتی بجٹ پر عمل ہو رہا ہے ،سیکورٹی آپریشنز کے لیے بھی وسائل فراہم کئے جا رہے ہیں ،آئی ایم ایف پروگرام پر جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ملک میں ٹیکسوں کی وصولی میں دو گناسے زائد اضافہ ہوا ہے اورملک کی تاریخ کے سب سے بڑے ترقیاتی بجٹ پر عمل ہو رہا ہے۔ سیکیورٹی آپریشنز کے لیے بھی وسائل فراہم کئے جا رہے ہیں ۔
کراچی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس و انڈسٹری کے زیراہتمام ’’معیشت اور سلامتی‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ پاک فوج نے ریاستی رٹ کو چیلنج کرنیوالے خطرات کو شکست دے دی ہے‘ ملک میں داخلی سلامتی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے‘ نیشنل ایکشن پلان پر بروقت عمل ہوا تو سیاسی و معاشی استحکام کے براہ راست نتائج سامنے آئینگے‘ اس کے لیے پاکستان کو قومی سلامتی اور معاشی استحکام میں توازن یقینی بنانا ہوگا۔ آرمی چیف نے کہا تھاکہ شروع دن سے ہی پاکستان کو کئی بحرانوں کا سامنا رہا ہے‘ ہم دنیا کے سب سے زیادہ غیرمستحکم خطے میں رہتے ہیں‘ تاریخی بوجھ اور منفی مقابلے نے خطے کو اسیر بنا رکھا ہے۔ ہمارے مشرق میں جنگی جنون میں مبتلا بھارت اور مغرب میں غیرمستحکم افغانستان ہے۔ ہم مغربی سرحد کو فوجی‘ معاشی اور سفارتی اقدامات کے ذریعے محفوظ بنارہے ہیں جس کے لیے فاٹا اور بلوچستان میں سیکورٹی بہتر کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میںسیکورٹی کی صورتحال مستحکم ہے مگر کہیں کہیں خطرات باقی ہیں‘ ہم اپنی نوجوان نسل کی بڑی تعداد کو کم آپشنز کے ساتھ نہیں چھوڑ سکتے ‘ مدارس میں اصلاحات بھی بہت اہم ہیں‘ ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ مدارس کے طلبہ زندگی کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر میں واضح کیاتھا کہ سلامتی اور معیشت کا معاملہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے‘ معیشت زندگی کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتی ہے‘ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے جو ریونیو کا بڑا حصہ دیتا ہے۔ دشمن پاکستان کو بند کرنے کے لیے کراچی کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ کراچی کی اہمیت کے پیش نظر یہاں امن و امان ضروری ہے۔ آرمی چیف نے اپنی تقریر میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے کثیرالجہتی چیلنجز سے نبردآزما ہے اس صورت حال میںاگر میں معیشت دان ہوتا تو اس وقت معاشی ترقی اور استحکام کو ترجیح دیتا۔ مستقبل محفوظ بنانے کے لیے ہمیں مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہنا چاہیے آرمی چیف نے حکومت کو مشورہ دیاتھا کہ‘ ہمیں ٹیکس بیس بڑھانا اور مالیاتی نظم و ضبط اور معاشی پالیسیوں میں تسلسل لانا ہوگا۔اس کے ساتھ ہی ہمسایہ ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا تھا کہ ہم ہمسایہ ملکوں کو پرخلوص پیغام دینا چاہتے کہ ہمارا مقدر ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے‘ یہ خطہ ڈوبے گا تو ہم سب ڈوبیں گے اس لیے ہمارے باہمی تعلقات بہتر ہونے چاہئیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ملک کے معاشی حالات بہتر نہیں ہیں اور قومی معیشت کی خراب صورتحال عام آدمی کی زندگی کو بری طرح متاثر کررہی ہے۔ ہماری معیشت کا درآمدات پر انحصار بڑھ رہا ہے اور برآمدات میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے گزشتہ روز جاری کی جانے والی رپورٹ میں بھی ملکی معیشت کی کمزوریوں کی نشاندہی کی جاچکی ہے ،اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اگر معیشت کا پہیہ جامد ہو‘ صنعتیں بتدریج ’’سِک یونٹ‘‘ میں تبدیل ہورہی ہوں اور زراعت کا شعبہ بھی بوجوہ زبوں حالی کا شکار ہو تو ایسے معاشرے کی ترقی کا عمل رک جاتا ہے اور قومی معیشت کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے‘ مہنگائی کا عفریت بے قابو ہو جاتا ہے اور بے روزگاری بھوت بن کر معاشرے کے کارآمد نوجوانوں کو مایوسیوں کے دلدل کی جانب دھکیلنا شروع کر دیتی ہے اس لیے معاشرے کو گراوٹوں کا شکار ہونے سے بچانا کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ جس معاشرے میں بھوک ناچتی اور غربت ڈیرے ڈالتی نظر آئے وہ اقتصادی تو کجا‘ اخلاقی طور پر بھی مضبوط اور محفوظ معاشرے کے قالب میں نہیں ڈھل سکتا۔ ہمارے معاشرے کی زبوں حالی کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک امن و امان کی خراب صورتحال اور دوسرے ارباب حکومت کی جانب سے اہم فیصلوں میں تاخیر اور ہر کام میں مبینہ طورپر ذاتی مفادات تلاش ہے۔
امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن جانے کی وجہ سے اس ملک میں انتہاپسند تنظیموں کی قائم کی گئی دہشت گردی کی نرسریوں کو فروغ حاصل ہوا اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنیوالی ان انتہاپسند تنظیموں نے امریکی ڈرون حملوںکے ردعمل میں یہاں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا، پاک فوجنے اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے کے یکے بعد دیگرے پانچ آپریشنز کے ذریعہ دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ،دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز میں یہ کامیابی یوں ہی حاصل نہیں ہوئی بلکہ دہشت گردوںکے خلاف اس جنگ میں ہمارے سیکورٹی فورسز کے دس ہزار جوانوں اور افسران سمیت ملک کے 70 ہزار سے زائد شہریوںنے اپنی جانیں قربان کی ہیں اوراس سے قومی معیشت کو 70 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا، دہشت گردوں کی پھیلائی گئی خوف و ہراس کی فضا کے باعث اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کا عمل بھی رک چکا ہے اور نئی صنعتیں لگانے کے لیے بھی حالات سازگار نہیں رہے ،اس صورت حال میں قومی معیشت کی اس دگرگوں صورحال میں اقتصادی کساد بازاری کا در آنا بھی فطری امرہے۔موجودہ صورت حال میں یہ بات باعث اطمینان ہے کہ پاک فوج نے تمام تر رکاوٹوں کے باوجود آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کی سرکوبی کا مشن جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ آپریشنز بلاشبہ ہماری بہادر اور مشاق سیکورٹی فورسزکی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں ،اگرچہ ان آپریشنز میں پاک فوج کو بھاری جانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑے ہیں‘ مگر ان آپریشنز کی بنیاد پر آج ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے ذریعے ملک کی اقتصادی اور معاشی ترقی کے راستے کھلتے نظر آرہے ہیں اور دہشت گردوں کی کمر ٹوٹنے سے ملک بالخصوص کراچی میں امن و امان کی صورتحال بھی بحال ہورہی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک آج اپنی سلامتی کے تحفظ کے حوالے سے بیرونی جارحیت کے سنگین خطرات میں گھرا ہوا ہے جس کی نشاندہی آرمی چیف نے بھی کی ہے اس لیے آج اولین ترجیح ملک کی سلامتی کے تحفظ کے اقدامات اٹھانے کی ہے جس کے لیے عساکر پاکستان کو ہی اپنا پیشہ ورانہ آئینی کردار ادا کرنا ہے۔ اس تناظر میں ہماری عسکری قیادتوں کو اپنی تمام تر توجہ ملک کی سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داری پر مرکوز کرنی چاہیے ۔یہ ایک خوش آئند اور قابل اطمینان بات ہے کہ پاک فوج کے ترجمان نہ صرف یہ کہ ملک کو دہشت گردی سے پاک کرکے امن وامان کی بحالی کافریضہ پورا کررہے ہیں بلکہ ملک کے دفاع کو مضبوط ومستحکم بنانے کے لیے ملک کو اقتصادی طورپر مستحکم کرنے کی ضرورت سے بھی ناواقف نہیں ہیں،اور وہ اس مقصد کے لیے ملک کے تاجروں اور صنعت کاروں کااعتماد بحال کرنے کے لیے انھیں امن وامان برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرارہے ہیں ، آرمی چیف کی ان کاوشوں پر وفاقی وزیر داخلہ کو برہم ہونے اور ان کی باتوں کو سول حکومت کے دائرہ کار میں مداخلت قرار دینے کی کوشش کرنے کے بجائے ان کاممنون ہونا چاہئے تھا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں سول حکومت کے ارباب اختیار کو ملک کے دفاعی اور ملک کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے شب وروز مصروف عمل پاک فوج کے سربراہ اور دیگر ارباب اختیار کو تنقید کانشانہ بنا کر عوام کی نظروں میں ان کی وقعت کم کرنے کی کوششوں سے گریز کرنا چاہئے۔
امید کی جاتی ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ اور دیگر ارباب اختیار اپنی پارٹی کے سربراہ کی نااہلی پر اتنا زیادہ آپے سے باہر ہونے سے گریز کریں گے جس سے اس ملک کی بنیاد ہی کو نقصان پہنچنے کااندیشہ ہو ، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر بھی یہ فرض عاید ہوتاہے کہ وہ اپنی کابینہ کے ارکان کو اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور ردعمل کے اظہار سے روکیں جس سے خوشگوار سول ملٹری تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو ،مسلم لیگی رہنماؤں کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ ان کے لیڈر نواز شریف کو نااہل ان کی کرپشن کی بنیاد پر کیاگیاہے اور انھیں نااہل قرار دینے کا فیصلہ متفقہ تھا اور ان کے اور ان کے بچوں اور داماد کے خلاف زیر سماعت مقدمات بھی ان کی کرپشن کی بنیاد پر ہی بنائے گئے ہیں یہ وہ مقدمات ہیں وہ اپنے اختیارات کاناجائز استعمال کرتے ہوئے جنھیں کھولے جانے سے روکے ہوئے تھے ، اگر یہ مقدمات پہلے کھل جاتے توشاید اس ملک کے اربوں روپے لوٹے جانے سے بچائے جاسکتے تھے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں