آبِ زم زم پینے کے فضائل و آداب
شیئر کریں
رسول اللہﷺکا ارشاد ہے کہ: ’’زمین کے اوپر سب سے عمدہ پانی زم زم ہے ، اس میں غذائیت بھی ہے اور بیماری سے شفاء بھی ہے
زم زم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی فائدہ دیتا ہے‘اس کاکھڑے ہوکر پینا مستحب ہے ‘ایساصرف اس کے احترام کے لیے ہے
حمد بن عبد اللہ شریفی ؒ (جومکہ میں صاحب فراش تھے) نابینا ہوگئے ، انہوں نے بغرضِ شفاء ’’زم زم‘‘ پیا تو تو اُن کی بینائی لوٹ آئی
مولانامحمدوقاص رفیعؔ
لغت میں ’’زم زم‘‘ کثیر پانی کو کہا جاتا ہے۔ چوں کہ یہ پانی بھی وافر مقدار میں عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے، اس لئے اس کو بھی ’’زم زم‘‘ کہا جاتا ہے۔اور اصطلاحِ شریعت میں ’’زم زم‘‘ اُس پاک اور بابرکت پانی کو کہا جاتا ہے جو کعبہ شریف کے جوار میں ایک مخصوص کنویں کی شکل میں واقع ہے۔
اس کا مختصر پس منظر کچھ اس طرح سے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی بیوی حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کوایک بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ کر واپس چلے آئے اور وہاں ان دونوں ماں بیٹے کو پیاس نے سخت ستانا شروع کیا تو حضرت ہاجرہ علیہا السلام ایک قریبی پہاڑی ’’صفاء‘‘ پر چڑھ گئیں اور نیچے وادی میں نظر دوڑائی کہ شاید کوئی آدمی نظر آجائے ، لیکن جب کوئی بھی آدمی دکھائی نہ دیا تو پہاڑی سے نیچے اتر آئیں اور جب نشیب میں پہنچیں تو اپنا دامن سمیٹ کر پریشانی کے عالم میں دوڑتے ہوئے یہ حصہ پار کیا اور دوسری پہاڑی ’’مروہ‘‘ پر چڑھ کر دیکھنے لگیں کہ شاید اِدھر کوئی نظر آجائے ، لیکن یہاں پر بھی کوئی نظر نہ آیا، اس طرح ’’صفا‘‘ اور ’’ مروہ‘‘ پہاڑیوں کے سات چکرآپ نے لگائے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: ’’آج ’’صفاء‘‘ اور ’’مروہ‘‘ کے درمیان ’’سعی‘‘ اسی تگ و دو کی یاد گار ہے۔‘‘ آخری مرتبہ جب ’’مروہ‘‘ پر گئیں تو ایک فرشتہ دکھائی دیا ، اور جہاںحضرت اسمٰعیل علیہ السلام شدت پیاس کے سبب اپنی ننھی ایڑیاں رگڑ رہے تھے ، اُس جگہ اُس فرشتے نے اپنی ایڑی ماری اور وہاں سے ’’ آبِ زم زم‘‘ کا چشمہ پھوٹ پڑا ، جو اُس وقت سے لے کر آج تک تقریباً چار ہزار سال سے ایک منٹ میں چھ سو ساٹھ لیٹر کی مقدار میں مسلسل بہہ رہا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’زمین کے اوپر سب سے عمدہ پانی زم زم ہے ، اس میں غذائیت بھی ہے اور بیماری سے شفاء بھی ہے۔(برکاتِ زم زم)
اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’زم زم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی فائدہ دیتا ہے۔‘‘ (مسند احمد، ابن ماجہ)
چنانچہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ: ’’ابوبکر بن محمد بن جعفر ؒحضرت امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ اُن سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ آپ کو یہ عظیم الشان علم کس طرح حاصل ہوئے؟ تو انہوں نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’زم زم ‘‘کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی فائدہ دیتا ہے۔‘‘میں نے جب بھی زم زم پیا ، اللہ تعالیٰ سے علم نافع کا سوال کیا۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء: ۱۴/۳۷۰)
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حج سے فارغ ہونے کے بعد ’’ آبِ زم زم‘‘ چند مقاصد کے لئے پیا، جن میں سے ایک یہ کہ میں علم فقہ میں امام سراج الدین بلقینی رحمۃ اللہ علیہ کے مرتبہ کو پہنچوں اور حدیث میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مرتبہ کو پہنچوں ، اب میں بطورِ تحدیث نعمت کے اپنی اس دُعاء کی قبولیت کا اعتراف کرتا ہوں۔‘‘ (حسن المحاضرۃ : ۱/۲۱۰)
امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم امام ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر تھے، انہوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ: ’’زم زم‘‘ کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی فائدہ دیتا ہے۔ ‘‘تو ایک آدمی مجلس میں کھڑا ہوگیا اور اُس نے یہ حدیث دہرائی اور سوال کیا کہ: ’’ کیا یہ حدیث جو آپ نے بیان کی ہے صحیح نہیں ہے۔؟‘‘ آپ نے فرمایا : ’’کیوں نہیں؟ بالکل صحیح ہے !‘‘ تب وہ آدمی بولا کہ: ’’ حضرت! آج میں نے زم زم کا ایک ڈول اس نیت سے پیا ہے کہ آپ سو حدیثیں سنائیں۔‘‘ حضرت ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’اچھا بھائی بیٹھو! چنانچہ وہ بیٹھ گیا اور آپ نے اس کو سو حدیثیں سنادیں۔‘‘ (دُرّ منثور : ۴/۲۲۱)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’آبِ زم زم‘‘ کو برتنوں اور گھڑوں میں بھر کر لے جاتے اور مریضوں پر ڈالتے اور انہیں پلاتے۔‘‘(جامع ترمذی)
ابو جمرۃ ضبغی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس مکہ میں بیٹھا کرتا تھا، ایک روز مجھے بخار ہوگیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ: ’’ اسے ’’آبِ زم زم‘‘ سے ٹھنڈا کرو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’بخار جہنم کی حرارت کا اثر ہے اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو! یا فرمایا کہ: ’’زم زم ‘‘کے پانی سے ٹھنڈا کرو!‘‘(برکاتِ زم زم)
علامہ ازرقی رحمۃ اللہ علیہ نے مشہور تابعی ضحاک بن مزاحمؒ کا قول نقل کیا ہے کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ: ’’زم زم‘‘ کو خوب آسودہ ہوکر پینا نفاق سے بری ہونے کی علامت ہے، اور اس کا پانی دردِ سر کو رفع کرتا ہے، اور ’’زم زم‘‘ کے کنویں میں نظر کرنے سے بینائی تیز ہوتی ہے، اور اس پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ نیل و فرات سے زیادہ شیریں ہوگا۔‘‘ (تاریخ مکہ للازرقی)
صاحب ’’ العقد الثمین‘‘ نے لکھا ہے کہ احمد بن عبد اللہ شریفی رحمۃ اللہ علیہ ( جو حرم مکہ میں صاحب فراش ہوگئے تھے) نابینا ہوگئے ، انہوں نے بغرضِ شفاء ’’زم زم‘‘ پیا تو تو اُن کی بینائی لوٹ آئی ۔ (العقد الثمین)
’’آبِ زم زم ‘‘پینے کے آداب یہ ہیں: (۱)قبلہ رُخ ہوکر پیاجائے۔ (۲)کھڑے ہو کر پیا جائے۔ (۳) بسم اللہ پڑھ کر پیا جائے۔ (۴) تین سانسوں میں پیا جائے ۔ (۵) آخر میں الحمد للہ کہا جائے۔ (۶) اور یہ دُعاء مانگی جائے: ’’ترجمہ:اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع، رزقِ واسع اور ہر بیماری سے شفاء کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
یاد رہے کہ ویسے تو عام پانی اور دیگر مشروبات وغیرہ کا بیٹھ کر پینا ہی سنت ہے، لیکن چوں کہ’’ زم زم‘‘ کے کنویں کے پاس کھڑے ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے’’ زم زم‘‘ کا پینا ثابت ہے، اسی بناء پر فقہاء نے اسے کھڑے ہوکر پینا مستحب لکھا ہے، اور یہ محض اس پانی کے احترام کی وجہ سے ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔ دار الافتاء دارالعلوم دیوبند۔ (آن لائن فتاویٰ دار العلوم دیوبند)