اعتکاف کے فضائل و آداب
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیعؔ
اپنے نفس کو دُنیاوی شہوات و لذات سے باز رکھ کر مسجد میں ایک معینہ مدت کے لئے گوشہ نشین ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کواعتکاف کہتے ہیں ۔
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں:
ایک واجب اعتکاف جو منت اور نذر کی وجہ سے ہو ، جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنے دنوں کا اعتکاف کروں گا۔ دوسرا نفلی اعتکاف جو کسی بھی دن ، کسی بھی وقت اور کسی بھی معینہ مدت کے لئے ہوسکتا ہے ، بلکہ علماء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ جب بھی انسان مسجد میں داخل ہووہ نفلی اعتکاف کی نیت کرلے تو جب تک وہ مسجد میں ٹھہرا رہے گا اُسے اعتکاف کا ثواب برابر ملتا رہے گا ۔
تیسرا اعتکاف سنت مؤکدہ ہے جو رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں ہوتا ہے ، اس اعتکاف کو سنت مؤکدہ اس لئے کہاجاتا ہے کہ نبی کریم ؐ رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں ہمیشہ اعتکاف بیٹھا کرتے تھے ، بلکہ ایک مرتبہ تو آپؐ نے پورے رمضانُ المبارک کا اعتکاف فرمایا تھا ۔
چنانچہ حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ؐ نے رمضانُ المبارک کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرہ میں بھی ( اعتکاف فرمایا ) پھر ترکی خیمہ سے ( جس میں اعتکاف فرمارہے تھے ) سر مبارک باہر نکال کر ارشاد فرمایاکہ : ’’ میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف شبِ قدر کی تلاش اور اُس کے اہتمام کی وجہ سے کیا تھا ، پھر اُسی کی وجہ سے دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف کیا ، پھر مجھے کسی بتلانے والے (فرشتہ) نے بتلایا کہ وہ رات اخیر عشرہ میں ہے ، لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف بیٹھے ہیں وہ اخیر عشرہ کا بھی اعتکاف کریں ۔
مجھے یہ رات دکھلادی گئی تھی پھر بھلادی گئی (اس رات کی علامت یہ ہے کہ ) میں نے اپنے آپ کو اس رات کے بعد کی صبح کو کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا ، لہٰذا اب اس رات کو اخیر عشرہ کی طاق راتوں (۲۱، ۲۳ ، ۲۵ ، ۲۷، ۲۹) میں تلاش کیا کرو ۔‘‘
راوی کہتے ہیں کہ: ’’ اِس رات میں بارش ہوئی اور مسجد چھپر کی تھی وہ ٹپکی اور میں نے اپنی آنکھوں سے نبی کریم ؐ کی پیشانی مبارک پر کیچڑ کا اثر اکیس (۲۱) کی صبح کو دیکھا۔‘‘(بخاری و مسلم )
اور جس سال آپؐ کا وصال ہوا اُس سال آپؐ نے بیس (۲۰) روز کا اعتکاف فرمایا تھا ،لیکن اکثر و بیشتر عادت شریفہ چوں کہ رمضانُ المبارک کے اخیر عشرہ ہی کے اعتکاف کی رہی ہے ، اس لئے علماء نے اس اعتکاف کو سنت مؤکدہ کا درجہ دے دیا ہے۔
اوّل تو نبی پاکؐ سارے ہی رمضان میں عبادت کا بہت زیادہ اہتمام فرمایا کرتے تھے ، لیکن اخیر عشرہ میں تو کچھ حد ہی نہیں رہتی تھی ، رات کو خود بھی جاگتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگانے کا اہتمام فرماتے تھے ۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے ، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ : ’’اخیر عشرہ میں حضورِپاکؐ اپنی تہہ بند مضبوط باندھ لیا کرتے تھے ، راتوں کو جاگا کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو جگانے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے ۔ ‘‘(بخاری و مسلم)
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ ناس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ: ’’تہہ بند مضبوط باندھ لینے سے عبادات میں کوشش کی زیادتی بھی مراد لی جاسکتی ہے اور بیویوں سے کلی طور پر احتراز بھی مراد لیا جاسکتا ہے ۔ (فضائل رمضان:ص۵۶ بتغیریسیر)
علامہ شعرانی ؒ نے نبی کریم ؐ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ : ’’جو شخص رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کرے اس کو دو حج اور دو عمروں کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص مسجد جماعت میں مغرب سے عشاء تک کا اعتکاف کرے کہ نماز ، قرآن کے علاوہ کسی سے بات نہ کرے حق تعالیٰ شانہ اُس کے لئے جنت میں ایک محل بناتے ہیں ۔ (کشف الغمہ للشعرانی)
مرد کے لئے سب سے افضل جگہ مسجد حرام یعنی کعبہ شریف ہے ، پھر مسجد نبویؐ ،پھر مسجد بیت المقدس ، پھر جامع مسجد ، پھر اپنے محلے کی مسجداور پھر وہ مسجد جس میں زیادہ جماعت ہوتی ہو۔(فتاویٰ ہندیہ : ۱/۲۰۹ ، فتاویٰ شامیؒ : ۲/۱۲۹)
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک یہ بھی شرط ہے کہ جس مسجد میں اعتکاف کرے اس میں پانچوں وقت کی جماعت ہوتی ہو ۔ صاحبینؒ کے نزدیک صرف شرعی مسجد ہونا کافی ہے، اگرچہ جماعت نہ ہوتی ہو۔
عورت اپنے گھر میں کوئی کمرہ وغیرہ متعین کرکے اعتکاف بیٹھ سکتی ہے۔ اگر کمرہ وغیرہ میسر نہ ہوسکے تو کمرہ کے کسی کونہ کو بھی اعتکاف کے لئے متعین کرکے وہ وہاں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے ۔
اعتکاف کی حالت میں بلا ضرورت کسی دُنیاوی کام میں مشغول ہونا مکروہِ تحریمی ہے ، اسی طرح بالکل چپ بیٹھنے کو تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھنا بھی مکروہِ تحریمی ہے ، ہاں! بے ہودہ اور بری باتیں زبان سے نہ نکالے ، جھوٹ نہ بولے ، غیبت نہ کرے ، بلکہ قرآن مجید کی تلاوت ، اللہ تعالیٰ کا ذکر ، اور تسبیحات وغیرہ کرنے میں اپنے آپ کو مشغول رکھے۔ (دُرّمختار مع ردّ المحتار: ۲/۱۳۴، البحر الرائق: ۲/ ۳۰۳،۳۰۴، فتاویٰ عالمگیریہ:۱/۲۱۱)
علامہ شرنبلالیؒ نے لکھا ہے: ’’ کہ اعتکاف اگر اخلاص کے ساتھ ہو تو افضل ترین اعمال میں سے ہے اور اس کی خصوصیات ضبطِ تحریر سے باہر ہیں ، اس لئے کہ اس میں دل کو دُنیا اور اُس میں جو کچھ ہے اُس سے یکسو کرلینا ہے اور اپنے نفس کو مولیٰ کے سپرد کردینا اور آقاء کی چوکھٹ پر پڑے رہنا ہے۔‘‘ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح : ص۲۶۰)
اور جب کوئی شخص دُنیا سے بالکل منقطع ہوکر اللہ تعالیٰ کے در پر پڑا رہے تو اُس کے نوازے جانے میں کیا تامل ہوسکتا ہے ؟ بلکہ اللہ جل شانہ کی کریم و رحیم ذات تو بخشش کے لئے بہانے ڈھونڈتی ہے ، بلکہ بے بہا مرحمت فرماتی ہے
؎تو وہ داتا ہے کہ دینے کے لئے
در تیری رحمت کے ہیں ہر کھلے
اس لئے آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ہر طرف سے یکسو کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اُس کی رضاء کے کاموں( نماز ، تلاوت کلام الٰہی اور تسبیحات وغیرہ) میں اپنے آپ کو لگائے رکھے اور اپنی تمام مشغولیات کے مقابلے میں اس کریم ذات کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول رہنے کو ترجیح دے، اور اگر وہ کوئی بھی عبادت وغیرہ نہ کرسکے تب بھی اعتکاف میں بیٹھنے کی برکت سے اُس کو عبادت کرنے کا ثواب ملتا رہے گا ، اس لئے کہ اعتکاف کی حالت میں آدمی سوتے جاگتے ہر وقت عبادت میں شمار کیا جاتا ہے اور اُسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل رہتا ہے ۔ (فضائل رمضان:ص۵۴ بحذف و تغیر)