عالمی سطح پردہشت گردی کے واقعات میں اضافہ پس پردہ کیاہے
شیئر کریں
گزشتہ چند روز کے دوران ہونے والے واقعات سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف تمام تر کوششوں کے باوجود دہشت گردی میں کمی کے بجائے ان واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ تازہ واقعات میں برطانیہ ‘ افغانستان اور ایران سمیت چند ممالک میں دہشت گرد حملے ہوئے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اب دہشت گردوں کاہدف خاص طورپر مغربی ممالک ہیں جس کا اندازہ برطانیہ میں دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافے سے لگایاجاسکتاہے۔ افغانستان میں بھی دہشت گردوں کے حملوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے جس میں حملہ آور پارلیمنٹ اور اہم سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں،ہشت گردی کے ان واقعات میں ہلاک ہونیوالوں کے جنازے کو بھی حملوں کا نشانہ بنایا گیا جس سے سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں جبکہ امریکا ،برطانیہ ،فرانس اور افغانستان کی حکومتیں اس سلسلے میں مکمل طور پر بے بس نظر آتی ہیں۔ اس دوران ایران میں پارلیمنٹ پر اور امام خمینی کے مزار پر حملے کیے گئے جس میں ایک درجن سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں ایران نے ان حملوں کا الزام براہ راست سعودی عرب پر عائد کیا ہے ، جبکہ حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی ہے۔
برطانیہ میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد وہاں پر مقیم مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہواہے اور مقامی سیکورٹی فورسز کی جانب سے مسلمانوں سے پوچھ گچھ اور تفتیش میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اگر خدانخواستہ اسی طرح دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو مستقبل میں مسلمانوں کیلئے مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ برطانیہ میں دہشت گردی وہی ملک کرارہا ہے جس کا مقصد برطانیہ کو مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا ہے اور برطانیہ میں دہشت گردی کراکر اس کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا جانا اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس سے مسلمانوں کیلئے یورپ‘ برطانیہ اور امریکا سمیت مغربی ممالک میں زمین تنگ کرنا ہے اور برطانیہ میں حالیہ حملوں کے بعد امریکا ان مقاصد میں کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔اسی طرح فرانس سمیت یورپی ممالک میں بھی حملوں کے تمام واقعات کا مقصد مسلمانوں کے خلاف عالمی اتحاد کو مزید مضبوط بنانا ہے۔
گزشتہ چندبرسوں کے دوران سعودی عرب میںجب بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں‘ سعودی حکام نے ان حملوں کا الزام ہمیشہ ایران پر عائد کیا ہے، کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کی جانب سے 43ملکی عالمی اسلامی فوج کے قیام کا اعلان کیا گیا جس کا ہیڈ کوارٹر سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض میں ہوگا،سعودی عرب کی جانب سے اسلامی فوج کے قیام کے اعلان کے بعد ہی سے اس کے مقاصد کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیاجارہاتھا کہ سعودی عرب اس خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے پیش بندی کے طورپر یہ فوج تیار کررہاہے۔ سعودی عرب کی جانب سے عالمی اسلامی فوج کی تشکیل کا اعلان سامنے آتے ہی بعض تجزیہ کاروں نے یہ بات واضح کی تھی کہ اگر عالمی اسلامی فوج کی تشکیل کا واحد مقصد مسلمانوں پر دہشت گردی کے لیبل کو ہٹانا ہے اور فرقہ واریت و تعصب سے بالاتر ہوکر پوری امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر درست طریقے سے دین اسلام کی تعلیمات اور اسلامی معاشرے کے پہلوئوں کو اجاگر کرناہے تو پھر یہ بالکل درست اور قابل تحسین فیصلہ ہے جس سے یقینی طور پر دہشتگردی سے مسلمانوں کے تعلق کو جوڑنے کی سازشوں کو بہترین طریقے سے ناکام بنایا جاسکتا ہے اور جنرل راحیل شریف اس سلسلے میں اپنا بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن اگر عالمی اسلامی فوج کے قیام کا مقصد فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایران کو تنہا کرکے عالم اسلام کو ایک نئی جنگ میں جھونکنا ہے تو پھر یہ عمل نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ پاکستان کو اس قسم کے کسی اتحاد کا نہ تو حصہ بننا چاہئے اور نہ ہی جنرل راحیل شریف کو اس کی سربراہی قبول کرنی چاہئے۔
چند روز قبل امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر منعقدہ سربراہی کانفرنس میں امریکی صدر ٹرمپ اور سعودی سربراہ مملکت کے خطاب میں مستقبل میں ان دونوں ممالک کے خطرناک عزائم کھل کر دنیا کے سامنے آگئے اور دونوں ممالک نے ایران کو خوفناک نتائج کی دھمکیاں دیں اور سعودی عرب نے تو ایران کو دنیا میں فساد کی جڑ قرار دے دیا۔ اس خطرناک صورتحال کے بعد پاکستان کو بظاہر نازک صورت حال کاسامنا ہے کیونکہ ایران کے ساتھ بھی پاکستان کے دیرینہ دوستانہ بلکہ برادرانہ تعلقات قائم ہیں اور سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔اس صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اس حوالے سے واضح موقف اختیار کرے کہ پاکستان کی مسلح افواج صرف اور صرف مقامات مقدسہ کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں اور اس کے علاوہ کسی ملک کی جنگ میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور پاکستان ہمیشہ اسلامی ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کے قیام کا حامی رہا ہے۔
ایران کی پارلیمنٹ اور امام خمینی کے مزار پر حملوں کے بعدسعودی ایران کشیدگی ایک بار پھر اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے اور امریکاکیلئے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بہترین سازگار حالات پیدا کردیے گئے ہیں۔ مصر‘ شام‘ لیبیا کے حالات اور ایران پر دہشت گرد حملوں کے بعد امریکی‘ سعودی گٹھ جوڑ سے ایک بار پھر روس کو عالمی کردار مل چکا ہے اور روس کی جانب سے قطر اور ترکی کو ہمنوا بناکر ایک نئے اتحاد کے قیام کی جانب پیشرفت کی جارہی ہے جو امریکا اور سعودیہ کے خلاف اسلامی ممالک کو استعمال کرنے کی کوشش ہے۔ تیزی سے بدلتے عالمی حالات اور اتحادوں کے قیام کا واحد مقصد طرفین کی جانب سے مسلمانوں کو ہر صورت تباہ و برباد کرنا ہی ہے۔ اور امریکا‘ بھارت اور اسرائیل ہو یا روس کی جانب سے قائم کردہ اتحاد‘ دونوں صورتوں میں طاقت کا شکار صرف مسلمان ہی ہوں گے اور اب بھی دنیا بھر میں مسلمانوں کی مسلسل تباہی جاری ہے جس کے ذمہ دار یہود و نصارٰی کے ساتھ ساتھ مسلم حکمران خود بھی ہیں۔ موجودہ تیزی سے بدلتی صورتحال میں مستقبل قریب میں پاکستان کا عالمی کردار بہت اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے۔
پاکستان کو اس تیزی سے بدلتی عالمی صورتحال میں سعودی ایران اورسعودی قطر تنازعے میں ثالث کا کردار ادا کرنا چاہئے اور دونوں ممالک پر یہ باور کرانا چاہئے کہ ان کے باہمی تصادم سے درحقیقت امت مسلمہ کوشدید نقصان پہنچے گا اور مسلم دشمن قوتیں پروان چڑھیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث عناصر کو افغان حکومت پر درست طریقے سے بے نقاب کیا جانا بہت ضروری ہے تاکہ پاکستان پر الزامات عائد کرنے کا سلسلہ بند ہوسکے۔ان حالات میں ہمیں بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہونگے اور ماضی میں روس افغان جنگ کی طرح کی کسی حماقت کے اب ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔