میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سپریم کورٹ وفاقی اور سندھ حکومت کی کار کر دگی پر برہم

سپریم کورٹ وفاقی اور سندھ حکومت کی کار کر دگی پر برہم

ویب ڈیسک
منگل, ۱۴ اپریل ۲۰۲۰

شیئر کریں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کی کار کر دگی پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کو حکومتی ٹیم نے صرف اعداد و شمار بتائے ، بریفننگ میں حکومتی ٹیم سے 5 سوال پوچھے تھے ، حکومت کی ٹیم کسی ایک سوال کا بھی جواب نہیں دے سکی،وفاقی صوبائی حکومتیں اپنے اپنے راستے اختیار کیے ہوئے ہیں، معذرت کے ساتھ ،وزیراعظم نے خود کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے ،کیا پارلیمنٹرینز پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گھبرا رہے ہیں،ہر سیاستدان اپنا علیحدہ بیان دے رہا ہے ،لوگوں کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ،ابھی تک میٹنگ میٹنگ کھیلنے اور دعوؤں کے علاوہ ہوا ہی کیا ہے ؟ سب کچھ بند کر دیا گیا یہ نہیں سوچا گیا کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے ،مشیروں اور معاونین خصوصی نے پوری کابینہ کو قابو کیا ہوا ہے ،ایک وزارت میں وفاقی وزیر، وزیرمملکت، معاون خصوصی اور مشیر سب معاملات چلا رہے ہیں، وزیراعظم کو کچھ پتہ بھی ہے کہ نہیں؟ ،لاک ڈاؤن کے باعث دوسری بیماریوں کی وجہ سے نہ جانے کتنے جنازے اٹھیں گے ،وہ وقت آ رہا ہے جب جتھے حملے کریں گے ، حکومت لوگوں کو سپورٹ کرے تو وہ بات مانیں گے ، کرونا سے ہمارے سیاسی نظام کو بھی خطرہ ہے ،،صدر مملکت ان حالات میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کیوں نہیں بلاتے ؟ ہر سیاسی جماعت دوسری پارٹی کیخلاف پریس کانفرنس کر رہی ہے ،پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ہونا چاہیے ، وزیر اعلی سندھ نے سنی سنائی باتوں پر کراچی کے کئی علاقے بند کردیئے ،کل کو پورا کراچی بند کردینگے ،وہ وقت آرہا ہے لوگ کراچی میں پولیس اور سرکاری گاڑیوں پر ہجوم حملے کرینگے ، ہمارا وزیر اعظم عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی واپسی کیلئے وقت مانگ رہا ہے ،ہماری انڈسٹری پوری طرح بیٹھ چکی ہے ،گزشتہ تیس سال سے انڈسٹری پر توجہ نہیں دی گئی، مشیروں کو وفاقی وزرا کا درجہ دے دیا گیا ہے اور مبینہ طور پر کرپٹ لوگوں کو مشیر رکھا گیا ہے ،پار لیمان کا اجلاس بلانے میں کیا ڈر ہے ؟ پارلیمان نے ہی اس مسئلے کو حل کر ناہے ، روز روز بولنے والے سیاستدان اب بالکل خاموش ہیں،قانون سازی کے حوالے سے حکومت کا کیا ارادہ ہے ؟ کیا ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے پارلیمان قانون سازی کرے گا؟ کئی ممالک ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے قانون سازی کر چکے ہیں جبکہ عدالت عظمیٰ نے حکومت سے پیر کو ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس کے فیصلوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہاہے کہ کراچی میں گیارہ یونین کونسلز سیل کرنے کی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی، یونین کونسلز میں کھانا اور طبی امداد فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں، سندھ حکومت آٹھ ارب کا راشن تقسیم کرنے کے شواہد بھی نہ پیش کر سکی،سندھ حکومت کی کارکردگی افسوسناک ہے ، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈاکٹرز کی ضروریات پوری کریں،ڈاکٹرز کو کھانا نہ ملنے کی شکایات کا فوری ازالہ کیا جائے ،اسلام آباد انتظامیہ اور پنجاب حکومت کرونا سے نمٹنے اور امدادی کام کی تفصیلات پیش کریں ۔ پیر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس پر ازخود نوٹس کیس پر سماعت کی اور اس ایشو پر حکومتی اقدامات کا جائزہ لیا۔ عدالت نے حکومتی ٹیم اور اسکی کارکردگی پر سوال اٹھا دئیے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سمجھ نہیں آ رہی کس قسم کی ٹیم کرونا پر کام کر رہی ہے ، اعلیٰ حکومتی عہدیداران پر سنجیدہ الزامات ہیں، ظفر مرزا کس حد تک شفاف ہیں کچھ نہیں کہ سکتے ، معاونین خصوصی کی پوری فوج ہے جن کے پاس وزراء کے اختیارات ہیں ، حکومتی کابینہ پچاس رکنی ہوگئی، اس کی کیا وجہ ہے ؟ کئی کابینہ ارکان پر جرائم میں ملوث کے مبینہ الزامات ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت کی آبزرویشن سے نقصان ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ریمارکس دینے میں بہت احتیاط برت رہے ہیں، عدالت کو حکومتی ٹیم نے صرف اعدادو شمار بتائے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ بریفننگ میں حکومتی ٹیم سے پانچ سوال پوچھے تھے ، حکومت کی ٹیم کسی ایک سوال کا بھی جواب نہیں دے سکی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ کوئی ملک کرونا سے لڑنے کیلئے پیشگی تیار نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قانون سازی کے حوالے سے حکومت کا کیا ارادہ ہے ؟ کیا ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے پارلیمان قانون سازی کرے گا؟ کئی ممالک ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے قانون سازی کر چکے ۔ جسٹس قاضی امین نے کہاکہ سماجی فاصلہ رکھنے کے حکومت کیا عمل کروا رہی ہے ؟ جمعہ کے اجتماع پر اسلام آباد میں جو ہوا کیا کسی کو نظر آیا؟ ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ سماجی فاصلے کیلئے عوام کو خود ذمہ داری لینا ہوگی، پولیس یا فوج 22 کروڑ عوام کو فاصلے پر کیسے زبردستی کروا سکتی ہے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ ریاستی مشینری کو اجلا سوں کے علاوہ بھی کام کرنے ہوتے ہیں ،کیا ملک بند کرنے سے پہلے اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا،حکومتی مشیران اور وزرا مملکت پر کتنی رقم خرچ کی جا رہی ہے ،ان مشیران وزرا پر اتنی رقم کیوں خرچ کی جا رہی ہے ،مشیران معاونین کابینہ پر حاوی ہوتے نظر آ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ یہ کیا ہر رہا ہے کابینہ کے فوکل پرسن بھی رکھے گئے مشیران ہیں،وزیراعظم کی کابینہ غیر موثر ہوچکی چکی ہے ، چیف جسٹس نے کہاکہ معذرت کے ساتھ لیکن وزیراعظم نے خود کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے ،کیا پارلیمنٹرینز پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گھبرا رہے ہیں،وفاقی صوبائی حکومتیں اپنے اپنے راستے اختیارکئے ہوئے ہیں،ہر سیاستدان اپنا علیحدہ بیان دے رہا ہے ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت سیاسی لوگوں کے بیانات پر نہ جائے ،وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی صلاحیت کے مطابق تدابیر اختیار کر رہی ہیں۔ جسٹس عمر عطا ء بندیال نے کہاکہ پاکستان میں اتنے بڑے مینوفیکچررز موجود ہیں کیا وہ حفاظتی کٹس نہیں بنا سکتے ،یہ ایشو عوام کی آزادی اور صحت کاہے ،ہسپتالوں میں ڈاکٹر کو غذا بھی غیر معیاری فراہم کی جا رہی ہے ، وڈیو دیکھی ڈاکٹرز کھانے کی بجائے عام ادمی سے حفاظتی کٹس ماگ رہے ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ لوگوں کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ،ابھی تک میٹنگ میٹنگ کھیلنے اور دعوؤں کے علاوہ ہوا ہی کیا ہے ؟ سب کچھ بند کر دیا گیا یہ نہیں سوچا گیا کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے ،مشیروں اور معاونین خصوصی نے پوری کابینہ کو قابو کیا ہوا ہے ،ایک وزارت میں وفاقی وزیر، وزیرمملکت، معاون خصوصی اور مشیر سب معاملات چلا رہے ہیں، وزیراعظم کو کچھ پتہ بھی ہے کہ نہیں؟ ۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہاکہ وزیراعظم آن بورڈ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وزراء کی فوج پر اتنا پیسہ کیوں خرچ ہو رہا ہے ؟ اتنی بڑی کابینہ کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ سب ملکوں کی کابینہ ہوتی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آئین کے تحت کابینہ 49 ارکان پر مشتمل ہو سکتی ہے ، ہمیں آئین کے تحت معاملات کو دیکھنا ہوگا۔ دور ان سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے معاون خصوصی ظفر مرزا کی قابلیت پر سوالات اٹھا دیئے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ معاون خصوصی ظفر مرزا کیا ہیں؟ ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو حفاظتی کٹس کی فراہمی ترجیح ہونی چاہیے ،ملک میں کرونا کی ٹیسٹ کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے ، سماجی فاصلے کے لیے لوگوں کو آگاہی کون دیگا،ملک میں معیشت کا پہیہ چلانا ہوگا، ہم لوگوں کو بھوکا مرنے نہیں دے سکتے ۔دور ان سماعت چیف جسٹس آف پاکستان سندھ حکومت پر بھی برہم ہوگئے اور کہاکہ کراچی میں گیارہ یونین کونسلز بند کردی گئیں، کیا وجہ تھی کہ ان یونین کونسلز کو بند کیا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ ان علاقوں سے کیسز رپورٹ ہوئے تھے ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ ان علاقوں سے ایک کیس بتا دیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے معذرت کرتے ہوئے کہاکہ نام نہیں دے سکتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہی تومسئلہ ہے ، وزیراعلیٰ کے کانوں میں کچھ بھی کہہ دو اور سب بند کردو۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کیا کہ کیا اس طریقے سے حکومت چلانی ہے ؟ ، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ ہم اپنا بہترین کام کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں تو ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کیا کہ آپ ایک کورونا کیس کاتو بتا نہیں سکے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ لاک ڈاؤن کے باعث دوسری بیماریوں کی وجہ سے نہ جانے کتنے جنازے اٹھیں گے ،وہ وقت آ رہا ہے جب جتھے حملے کریں گے ۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ کلفٹن، ایوان صدر اور ضیاء الدین شاہراہوں پر کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔جسٹس قاضی امین نے کہاکہ لوگوں کو گھروں پر بند کر دیا گیا ہے حکومت ان تک پہنچے ،عام بندے کو پولیس پکڑ کر جوتے مار رہی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ حکومت لوگوں کو سپورٹ کرے تو وہ بات مانیں گے ، جسٹس قاضی امین نے کہاکہ لوگ بھوک سے تلملا رہے ہیں ہم انارکی کیطرف بڑھ رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ کرونا سے ہمارے سیاسی نظام کو بھی خطرہ ہے ،صدر مملکت ان حالات میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کیوں نہیں بلاتے ؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ لوگ بھوک سے مر جائیں گے ، اس بات کا ادراک وزیر اعظم کو ہے ؟اس لئے وزیر اعظم کچھ کاروبار کھولنا چاھتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ حکومت کرونا سے تحفظ کا آرڈیننس بھی لا رہی ہے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ وزیر اعلی سندھ نے سنی سنائی باتوں پر کراچی کے کئی علاقے بند کردیئے ،کل کو پورا کراچی بند کردینگے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس سے کیا ھوگا،وہ وقت آرہا ہے لوگ کراچی میں پولیس اور سرکاری گاڑیوں پر ہجوم حملے کرینگے ۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ حکومت لوگوں کو سماجی فاصلے سے متعلق ھدایات دے سکتی ہے ۔ جسٹس قاضی امین نے کہاکہ لوگ سماجی فاصلوں پر عمل نہ کرے تو اس کا مطلب ہے کہ سرنڈر کردے ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ سندھ حکومت کے دعوئوں اور زمینی حقائق میں بہت فرق ہے ، کل لائنز ایریا کراچی میں بھی حالات بہت خراب تھے ۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ سماجی فاصلے کیلئے صرف ہدایات جاری کرسکتے ہیں۔ جسٹس قاضی امین نے کہاکہ کیا سندھ حکومت عوام کے آگے سرنڈر کر رہی ہے ؟ لائنز ایریا میں کھانا فراہم کرنے کیلئے حکومت کی کیا منصوبہ بندی ہے ؟ لوگ بھوک سے تلملا رہے ہیں کھانا نہ ملا تو خانہ جنگی ہوگی۔انہوںنے کہاکہ کرونا ہمارے سیاسی نظام کیلئے خطرہ بنتا جا رہا ہے ، ہر سیاسی جماعت دوسری پارٹی کیخلاف پریس کانفرنس کر رہی ہے ،پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ہونا چاہیے ۔ جسٹس قاضی امین نے کہاکہ محترم صدر مملکت آرٹیکل 54 کے تحت پارلیمان کا مشترکہ اجلاس کب بلائیں گے ؟ جنہیں گھروں میں بند کیا گیا ہے انہیں کھانا بھی دیں،غریب آدمی سڑک پر نکلے تو جوتے مارے جاتے ہیں۔جسٹس قاضی امین نے کہاکہ کل ایک بڑے صاحب کا جنازہ تھا لوگ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے ۔دور ان سماعت سپریم کورٹ نے حکومت کو ڈاکٹر ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کا حکم جاری کر نے کا عندیہ دیا ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ظفر مرزا سے مطمئن نہیں ہیں، ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دیں گے ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس موقع پر ظفر مرزا کو ہٹانا بڑا تباہ کن ہوگا،آدھی فلائٹ میں ظفر مرزا کو تبدیل نہ کریں،عدالت ظفر مرزا کا معاملہ حکومت پر چھوڑ دے ۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے حکومت کی اجازت سے آٹا بھیجا پھر حکومت کی اجازت سے چینی باہر بھیجی اب آپ طبی آلات حکومت کی اجازت سے درآمد کریں گے ، آپ ہر کام حکومت کی اجازت سے کرتے ہیں جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ظفر مرزا نے جو بھی کیا حکومت کی اجازت سے کیا اور اس معاملے پر انکوائری جاری ہے ۔اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ظفر مرزا کیخلاف کس معاملے کی تحقیقات جاری ہے ؟ جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایک شہری نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) میں درخواست دی کہ انھوں طبی سامان بغیر ڈیوٹی چین بھجوایاچیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ظفر مرزا نے عدالتی ہدایت پر عمل نہیں کیا، عدالت کے سابقہ حکم میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب نہیں آئے ہیں۔کابینہ میں حالیہ ردوبدل پر چیف جسٹس نے نام لیے بغیر کہاکہ وزیر اعظم کابینہ میں مہرے بدل رہے ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ ملک کی قیادت کا موجودہ حالات میں امتحان ہے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارا وزیر اعظم عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی واپسی کیلئے وقت مانگ رہا ہے ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ وزیر اعظم نے صرف قرضوں کی بات نہیں کی اور بھی معاملات اٹھائے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہماری انڈسٹری پوری طرح بیٹھ چکی ہے ،گزشتہ تیس سال سے انڈسٹری پر توجہ نہیں دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سندھ حکومت پی پی آئی کس ریٹ پر خرید رہی ہے ۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ پی پی آئی کے مختلف نرخ ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ سندھ میں مقامی سطح پر کرونا سے بچاؤ کی حفاظتی کٹس کی تیاری شروع ہو چکی، مقامی سطح پر روزانہ پانچ ہزار کٹس تیار ہو رہی ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ سندھ میں لوگوں کی مدد کے لیے حکومتی سطح پر کیا اقدامات کیے گئے ۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ سندھ میں پانچ لاکھ سے زائد لوگوں کو راشن فراہم کیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ کہاں اور کس کو راشن فراہم کیا۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ سندھ پولیس تو جے ڈی سی والوں کو لوٹ رہی ہے ،10 روپے کی چیز دیکر چار وزیر تصویر بنانے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں، سندھ گٹر کا ڈھکن لگانے چار لوگ کھڑے ہو کر تصویر بناتے ہیں، سندھ میں راشن تقسیم کرنے کا کیا طریقہ کار ہے ۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ ڈی سی کے زریعے راشن تقسیم کیا جاتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ راشن دینے کے لیا کیا کرائٹیریا مقرر ہے ۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ زیادہ تر لوگ ڈیلی ویجرز ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ کوئی کلپ ہے کہاں سے راشن خریدا کہاں دیا؟یا ایک ہاتھ سے لیا دوسرے ہاتھ سے دینے والا کام یہاں بھی کیا ۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ 5 لاکھ 4 ہزار 80 خاندانوں کو 15 دن کا راشن دیا، ہر خاندان میں افراد کا تخمینہ لگا کر راشن دیا۔ چیف جسٹس نے کہاہ پھر تو ایک من آٹے کی بوری چاہیے ہو گی ایک خاندان کے لیے ، آپ نے راشن دینے کا کہہ دیا ہم نے سن لیا،اب دیکھتے ہیں قوم مانتی ہے یا نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ سندھ میں لوگ سڑکوں پر ہیں، سندھ کے لوگ کہہ رہے حکومت نے ایک ٹکہ بھی نہیں دیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ سندھ حکومت بتائیے کہاں سے راشن خریدا کہاں دیا، یہ سوالات صرف سندھ کے لیے نہیں بلکہ چاروں صوبوں کے لیے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ کے پی تو راشن کے بجائے نقد رقم بانٹ رہا ہے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایک وقت تھا ملکی معیشت کی بنیاد صنعتوں پر تھی، اب صنعتیں گودام بن چکی ہیں، صنعتیں بند ہونے کی پرواہ پارلیمان کو ہے نہ حکومت کو، نجی سرمایہ کاری نہیں آ رہی تو حکومت خود صنعتیں لگائے ، آج وزیراعظم قرض واپسی کیلئے مہلت کی اپیل کر رہے ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ نیشنلائزیشن سے صنعتوں کو نقصان ہوا جو آج بھی بھگت رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مشیروں اور معاونین کی فوج سے کچھ نہیں ہونا، وزیراعظم کی ایمانداری پر کوئی شک و شبہ نہیں، وزیراعظم کے پاس صلاحیت ہے کہ کام کے دس بندوں کا انتخاب کر سکیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ذرا سی مشکل آتے ہی ادھر کا مہرا اْدھر لگا دیا جاتا، شاید یہ معلوم نہیں کہ اگلا مہرا پہلے ہی لگائے جانے کیلئے تیار بیٹھا ہے ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ پہلی بار پاکستان کو ایماندار وزیراعظم ملا ہے ، پاکستان کے پاس یہ آخری موقع ہے بہتری نہ آئی تو نہ جانے کیا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ خدشہ ہے ہم یہ آخری موقع بھی ضائع نہ کر دیں، پار لیمان کا اجلاس بلانے میں کیا ڈر ہے ؟ عدالت پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا حکم نہیں دے سکتی؟۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت کی آبزرویشن سے حکومت کو آگاہ کروں گاچیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمان نے ہی اس مسئلے کو حل کر ناہے ، روز روز بولنے والے سیاستدان اب بالکل خاموش ہیں۔ اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ کسی کی خاموشی پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ زیادہ لوگ اپنا کام کر رہے ہیں گندے انڈے تھوڑے ہیں ،سویلین ہو یا فورسز سب اپنی کوشش کر رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سندھ حکومت کے علاوہ سب حکومتوں کی تفصیلات ہمارے پاس ہیں، کچھ لوگ ایسے حالات میں بھی پیسہ بنا رہے ہیں،کیاکرپٹ عناصر کو لیڈ کرنے کی اجازت دی جا سکتی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ زندگی بچانے کے معاملات میں بھی پیسے کھائیں جائیں تو مقصد ختم ہو جاتا ہے ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ لاک ڈاون کے حوالے سے اہم میٹنگ ہے ،تمام تحفظات حکومت کے سامنے رکھوں گا۔دو ان سماعت سپریم کورٹ پنجاب حکومت کی جانب سے بین الاضلاعی مشروط سفری پابندی پر بھی تشویش کا اظہار کردیا۔ وکیل امان اللہ کنرانی نے کہاکہ پنجاب حکومت نے ایک ضلع سے دوسرے میں جانے کے لیے کرونا سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پنجاب حکومت یہ پابندی کیسے لگا سکتی ہے ۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے آرڈیننس 2020 کے زریعے پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کس حکم کے تحت یہ پابندی لگائی گئی، کیاآرٹیکل 15 وفاقی حکومت کا دائرہ اختیار ہے ۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی جانب سے بین الاضلاعی مشروط سفری پابندی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیدیا،بین اضلاعی سفر کیلئے کرونا سرٹیفکیٹ کی پابندی کی شرط ختم کر دی گئی ۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے حکومت سے پیر کو ہونے والے اعلی سطحی اجلاس کے فیصلوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہاکہ کراچی میں گیارہ یونین کونسلز سیل کرنے کی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی، سندھ حکومت کو سیل شدہ یونین کونسلز میں متاثرہ افراد کی تعداد کا بھی علم نہیں، سیل ہونے والی یونین کونسلز میں کھانا اور طبی امداد فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں، سندھ حکومت آٹھ ارب کا راشن تقسیم کرنے کے شواہد بھی نہ پیش کر سکی۔ سپریم کورٹ نے کہاکہ سندھ حکومت کی کارکردگی افسوسناک ہے ، سندھ بھر سے کھانا نہ ملنے کی شکایت پہنچ رہی ہیں۔عدالت نے کتنا راشن کس کو دیا ؟سندھ حکومت سے جواب طلب کرلیا اور کہا کہ بتایا جائے راشن کہاں سے اور کتنے میں خریدا گیا، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈاکٹرز کی ضروریات پوری کریں۔ عدالت عظمیٰ نے ڈاکٹرز کو کھانا نہ ملنے کی شکایات کے بھی فوری ازالے کا حکم دیتے ہوئے اسلام آباد انتظامیہ اور پنجاب حکومت سے بھی کرونا سے نمٹنے اور امدادی کام کی تفصیلات طلب کرلیں ۔ بعد ازاں سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کر دی گئی تاہم ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹانے کی ابزرویشن عدالتی حکم میں شامل نہیں کی گئی،عدالتی حکم میں ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کی کوئی بات نہیں کی گئی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں