میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بلوچستان کی صورت حال خصوصی احتیاط کی متقاضی ہے

بلوچستان کی صورت حال خصوصی احتیاط کی متقاضی ہے

منتظم
هفته, ۱۳ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

آخر کارطویل غیر یقینی صورتحال کے بعد بلوچستان کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ گیا مگر بڑے بے ڈھب انداز سے۔اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے مشورے سے ثنا اللہ زہری تحریک عدم اعتماد سے قبل مستعفی ہوگئے لیکن اس کے ساتھ ہی نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے مسئلے پرجوڑ توڑ کے ایک نئے دور کاآغاز ہوگیاہے ۔ اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کی وجہ ترقیاتی فنڈز میں بے قاعدگیوں اورصرف ایک پارٹی کو جو نواز شریف کی چہیتی پارٹی کہلاتی ہے جس کے سربراہ ابھی تک نواز شریف کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور جن کے بھائی بلوچستان کے گورنر کا عہدہ سنبھالے بیٹھے ہیں سامنے نہیں لائی گئی نوازنے کے خلاف احتجاج قرار دی گئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد لانے والوں کی طرف سے کہا گیا کہ تحریک لانا ان کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ اس تحریک کا حصہ حکومتی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے ارکان بھی تھے۔

بلوچستان کی حد تک واضح یہ بات واضح ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا پارٹی پر کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ کئی ارکان نے وزیراعظم سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ معاملہ مولانا فضل الرحمن اور ان کی پارٹی کی طرف سے زیادہ اچھالا گیا جو مرکز میں مسلم لیگی حکومت کی اتحادی ہے۔ بلوچستان میں جو کھچڑی پک رہی ہے اگر سیاستدانوں نے سوجھ بوجھ سے کام نہ لیا تو معاملہ اسمبلی کی تحلیل تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ اب جبکہ انتخابات میں محض تین چار ماہ باقی تھے اپوزیشن اور حکومتی ارکان پر عدم اعتماد کا حق استعمال کرنا خالی از علت قرار نہیں دیاجاسکتا۔اس امر میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ بلوچستان حساس ترین صوبہ ہے۔ دشمن کی گوادر پورٹ اور سی پیک پر نظر ہے‘ کل ہی بلوچستان اسمبلی کے قریب خودکش دھماکہ ہوا جس میں 4 پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد شہید اور 26 زخمی ہوگئے۔ سنجیدہ حلقوں خصوصی طور پر سیاستدانوں کو ان حالات پر نظر رکھنا چاہئے اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان کے انتخاب کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سیاسی حالات کنٹرول میں نہیں رہتے تو سینیٹ کے انتخابات کا مستقبل بھی کوئی روشن نظر نہیں آتا۔ کچھ حلقے سینیٹ کے انتخابات سے قبل اسمبلیوں کے خاتمے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کے لیے فضا ہموار اور کاریگری کررہے ہیں۔

بلوچستان میں نواب ثنا اللہ زہری کے استعفے کے بعد بھی صورتحال ا بھی واضح نہیں ہے اور کسی بھی وقت کوئی نیا بحران سر اْٹھا سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے نامزد کردہ وزیر اعلیٰ بلوچستان ثنا اللہ زہری جو آخر وقت تک اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کامقابلہ کرنے کااعلان کررہے تھے یہ حقیقت سامنے آنے کے بعد اب ایک تہائی ارکان اسمبلی بھی ان کے ساتھ نہیں ہے مجبوراً اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا اور اس طرح صوبائی کابینہ تحلیل ہو گئی۔ثنا اللہ زہری کا کہنا ہے کہ وہ زبر دستی مسلط نہیں رہنا چاہتے۔ یہ اچھی بات ہے کہ جب بھی کوئی اعتماد کھو بیٹھے تو خاموشی سے الگ ہو جائے۔ تاہم بلوچستان کی صورت حال دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ بلوچستان میں خاموشی نہیں رہے گی اور نیاشورشرابہ ہوگا۔ ابھی نئے وزیر اعلیٰ کے تعین کا مرحلہ باقی ہے اور اس کے لیے جوڑ توڑ شروع ہو گیا ہے۔اس حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن نے حکومت میں کوئی عہدہ سنبھالنے سے انکارکردیاہے۔ نواز شریف اور ان کی قائم کردہ حکومت کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے حالات کو سنبھالنے کی آخری وقت تک کوشش کی،لیکن انھیں اس وقت شدید دھچکہ لگا جب نواز شریف کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کااعلان کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن نے بھی ان کی مدد کرنے سے انکار کردیا یہی نہیں بلکہ اطلاعات کے مطابق اس معاملے کو سب سے زیادہ مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی ہی نے اچھالا،میاں نواز شریف نے اپنے وزیر اعظم کو کوئٹہ بھیجا تھا مگر بات نہیں بنی۔ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ ملاقات کے دوران ثنا اللہ زہری نے عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا چنانچہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے سے بچانے کے لیے میاں نواز شریف کو مداخلت کرنا پڑی اور اس طرح نواب زہری با عزت طور پر رْخصت ہو گئے۔

ایک خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اگربلوچستان اسمبلی تحلیل ہو گئی تو اس سے ایوان بالا کے انتخابات متاثر ہوں گے جو مارچ میں ہونے والے ہیں۔ اب ایسا کچھ نہیں ہو گا لیکن اس سوال کا جواب مستقبل کے پردے میں چھپا ہوا ہے کہ کیا مسلم لیگ ن ایوان بالا کے انتخابات میں اکثریت حاصل کر سکے گی۔ اس وقت تو وہاں پیپلز پارٹی کا غلبہ ہے۔ اس وقت ن لیگ کے صالح بھوتانی ، جان جمالی اور چنگیز مری بھی وزارت اعلیٰ کے مضبوط امید وار سمجھے جا رہے ہیں۔ تاہم جمعیت علما اسلام یہ کہہ کر اس دوڑ میں شرکت سے کتراگئی کہ ہم تو پہلے بھی حزب اختلاف میں تھے اور آئندہ بھی وہیں رہیں گے۔ جان جمالی ڈپٹی اسپیکر رہ چکے ہیں اور انہیں بھی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تھا چنانچہ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنا انتقام لیا ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق صالح بھوتانی کے وزیر اعلیٰ بننے کا امکان ہے۔ بلوچستان کی حکومت کئی جماعتوں کے اتحاد سے چل رہی ہے اور آئندہ بھی یہ کھچڑی پکتی رہے گی۔ جان محمد جمالی اور صالح بھوتانی دونوں ہی کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔ بھوتانی کو اس وقت ارکان اسمبلی کی اکثریت کی تائید حاصل ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی تیاری کے دوران بلوچستان کی ایک سیاسی جماعت نے یہ الزام بھی لگایا کہ مخصوص غیر منتخب قوتیں ارکین اسمبلی کو دھمکی دے رہی ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی حمایت نہ کی تو سنگین نتائج بھگتنا ہو ں گے۔ یہ محض ایک الزام بھی ہو سکتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ان مخصوص قوتوں کو بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ بلوچستان کافی عرصے سے دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی زد میں ہے اور گزشتہ روزہی بلوچستان اسمبلی کے قریب خود کش حملہ ہوا ہے جس میں لیویز کے6اہلکاروں سمیت7 افراد جاں بحق ہو گئے۔صوبہ بلوچستان کئی حوالوں سے بڑا حساس ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ کی تعمیر نے اس کی حساسیت میں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان کے دشمن بھی اس صوبے میں متحرک ہیں۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن بھی اس صوبے میں عمل پیرا تھا۔ ایسی صورتحال میں اس صوبے میں سیاسی بحران یا عدم استحکام خطرناک ہو گا۔

امید کی جاتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما بلوچستان کی حساس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حوالے سے کوئی حکمت عملی تیار کریں گے ، اور کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے سے گریز کریں گے دشمن جس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں