وزیر اعظم عدلیہ کی تذلیل کے بجائے اس کی ساکھ بڑھانے کی ذمہ داری پوری کریں
شیئر کریں
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز سندھ میں نسواں جتوئی کے مقام پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جمہوریت کو پاکستان کی ترقی کی علامت قرار دیتے ہوئے شکوہ کیاہے کہ یہاں عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔میثاق جمہوریت یا چارٹر آف ڈیموکریسی پرویزمشرف کے دور میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نوازشریف اور پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے درمیان ان دونوں رہنمائوں کی جلاوطنی کے دوران لندن میں طے پایا تھا۔ اس کی تہہ میں کارفرما مقاصد کے پیش نظر اسے جمہوریت کے لیے نیک فال سمجھا گیا تھا۔بے نظیر خود تو میثاق جمہوریت سے استفادہ نہیں کرسکیں اور پہلے ہی راہی ملک عدم ہو گئیں۔ البتہ اس کا فائدہ ان کے شوہر آصف علی زرداری نے اٹھایا اور پانچ سالہ عہد صدارت پورا کیا اور ان کی سرپرستی میں پیپلزپارٹی نے بھی اپنی5 سالہ آئینی مدت پہلی بار مکمل کی۔ اس دوران دونوں جماعتیں میثاق جمہوریت کا راگ الاپتی رہیں‘ لیکن دونوں نے میثاق جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا۔ خصوصاً پیپلزپارٹی کو (ن) لیگ سے زیادہ شکایات تھیں۔ بلاشبہ یہ ایک اچھی دستاویز تھی بلکہ ہے اور اس میں جو باتیں کہی گئی ہیں‘ ان میں سے کوئی بھی خلاف آئین نہیں۔ مگر اس کے باوجود اسے آئین کا رتبہ نہیں دیا جا سکتا۔ آئین سب ضابطوں اور دستاویزات سے بالاتر ہے۔ اگر وزیراعظم پیپلزپارٹی یا دیگر حریف جماعتوں کو آئین پر عمل کی دعوت دیں تو یہ ملک و قوم اور جمہوریت کے حق میں بہتر ہوگا۔ آئین چھوڑ کر اگر ہم دوسری دستاویزات سے امیدیں وابستہ کر لیں گے تو پھر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے‘ اگر وزیراعظم یہ شکوہ کرنے لگیں کہ عوامی مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت خود آئین پر سختی سے کاربند ہو جائے تو کسی ادارے کی مجال نہیں ہوگی کہ وہ حکومت سے تعاون سے گریز یا انکار کرے۔ اس وقت جو صورتحال اور خرابیاں پیدا ہوئی ہیں‘ ان کا باعث آئین سے انحراف ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز یہ بھی دعویٰ کیا کہ میں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتا،لیکن اس کے ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کرلیا ہے کہ ملک میں دو پالیسیاں نہیں چل سکتیں۔ وزیراعظم نے دو پالیسیوں والی بات شاید مسلم لیگ کی حکومت اور نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلوں اور تحقیقات کے تناظر میں کہی ہے۔ اسی لیے انہوں نے یہ بھی کہاکہ حکومت کے خلاف سازش ہوئی تو مقابلہ کریں گے، گویا یہی وہ دو پالیسیاں ہیں جن کا وہ ذکر کررہے تھے۔ لیکن پاکستانی قوم تو برسہا برس سے2پالیسیوں کو ایک ہی ملک میں چلتا دیکھ رہی ہے۔ وزیراعظم نے فرمایا کہ کسی ملک میں دو پالیسیاں نہیں چل سکتیں، ان کا فرمانا بجا ہے لیکن پاکستان کسی ملک کی تعریف سے مبرا ہے۔ ایک پالیسی یہ ہے کہ مسجد سے جوتے یا گھڑی چرانے یا دو روٹی کے لیے کسی کی معمولی چیز چرانے والے کو مار مار کر لہو لہان کردیا جاتا ہے۔ پولیس اس کے خلاف چوکس عدالتیں مستعد اور میڈیا کا منجن بن جاتا ہے لیکن اربوں روپے لوٹنے والے کو سیاست دان بڑی ڈھٹائی سے پارلیمنٹ کا محترم رکن ، وزیر، حتیٰ کہ وزیر خزانہ جیسے اہم اور اعلیٰ ترین منصب پر بھی قابض رہتا ہے۔ ایک پالیسی یہ ہے کہ قتل کے الزام میں ماخوذ غداری کے مقدمے میں ملوث قتل کے حوالے سے ناقابل ضمانت وارنٹ والے جنرل پرویز مشرف ملک سے چلے جاتے ہیں۔ دو ارب روپے گھر سے برآمد ہونے کے باوجود صوبائی وزیر کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا، آصف زرداری کے خلاف ریفرنس میں 17 برس بعد پتہ چلاکہ فوٹو کاپی پر ریفرنس نہیں بنتا۔ دوسری پالیسی یہ ہے کہ ایک آدمی کے فون پر افغانستان سے کال آتی تھی اسے اٹھاکر غائب کردیا جاتاتھا۔
پاکستان میں دو پالیسیاں اس طرح چل رہی ہیں کہ عدالتیں پندرہ پندرہ برس بعد بے گناہوں کو رہا کرنے کا حکم دیتی ہیں۔ بسا اوقات زندگی کی قید سے رہا ہوچکنے والوں کو بھی بری کیا گیا ہے۔ ایک پالیسی یہ کہ سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوگیا ہے تو اس کے خلاف جو لڑے گا مجاہد کہلائے گا۔ دوسری پالیسی یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں داخل ہوگیا ہے اس کے خلاف جو لڑے گا وہ دہشت گرد کہلائے گا۔ دونوں پالیسیاں بلا امتیاز مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور فوجی آمر جنرل پرویز نے جاری رکھیں آج بھی یہی دہری پالیسی جاری ہے۔ وزیراعظم نے پتہ نہیں کس خیال میں یہ کہہ دیا تھا کہ کسی ملک میں دو پالیسیاں نہیں چل سکتیں۔ شاید ان کو اپنے ملک کے حالات کا اتنا بھی علم نہیں کہ جب کوئی وی وی آئی پی سڑک پر نکلتا ہے تو اس کے لیے عام آدمیوں کا راستہ بند کردیا جاتا ہے۔ وی آئی پی کے بچوں کے لیے بھی اسی طرح راستے بند ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک وی آئی پی کے بچوں کے لیے پروٹوکول کی ویڈیو بنانے پر پولیس والے نے گالیاں دیں اور ویڈیو بنانے والے پر تشدد کیا۔ اس کا کہناتھا کہ آگے تیرا باپ جارہاہے۔ گویا جو وی آئی پی ہیں وہ قوم کے باپ ہیں ، وزیراعظم نے دو پالیسیاں چلنے کی بات اگر عدالت کے فیصلوں میں میاں نواز شریف کے خدشات کی بنیاد پر کی ہے تو انہیں اب کھل کر کہنا چاہیے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اس ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیںہے،اور وہ کسی نہ کسی طرح ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کوکمتر اور ملک کی دولت لوٹنے والوں کو اعلیٰ ترین عدلیہ سے زیادہ بااحترام ثابت کرنا چاہتے ہیں، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی جب یہ کہتے ہیں کہ وہ نواز شریف کے ایجنڈے کوآگے بڑھارہے ہیں تو دراصل ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کی تذلیل کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں جس شخص کے بارے میں ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے یہ ریمارکس دئے ہیں کہ وہ صادق اورامین کی تعریف پر پورے نہیں اترتے، جو عدالت کی جانب سے بار بار وقت دئے جانے کے باوجود یہ ثابت نہیں کرسکے کہ ان کے بیٹوں کے پاس اچانک کہاں سے آگئی اور کیا وجہ ہے کہ جب وہ پاکستان میں برسراقتدار ہوتے ہیں تو ان کے بیٹوں کی کمپنیاں تیزی سے ترقی کرتی اور بھاری منافع کمانے لگتی ہیں لیکن پاکستان میں اقتدار سے الگ ہوتے ہی ان کے بیٹوں کی کمپنیاں خسارے کاشکار ہونے لگتی ہے ،کیا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جو خود بھی ایل این جی کے ٹھیکوں میں مبینہ گڑبڑ کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات سے ابھی تک اپنا دامن نہیں چھڑا سکے ہیں یہ نہیں جانتے اوریہ نہیں سمجھتے کہ وزیراعظم کے بیٹوں کی کمپنیوں کے ان کے اقتدار کے دور میں عروج پر جانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ نواز شریف اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں ان کمپنیوں کو منی لانڈرنگ اورمختلف منصوبوں کے لیے حاصل ہونے والی کک بیکس کی وصولی کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں ،اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کی کمپنیوں کی کوئی منی ٹریل دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ جہاں تک حکومت کے خلاف سازش کے مقابلے کی بات ہے تو میاں نواز شریف ان کا خاندان اور شاہد خاقان عباسی وزیراعظم کی حیثیت سے اسی سازش کے خلاف تو مسلسل سرگرم ہیں ،لیکن معلوم یہ ہوتاہے کہ وہ حکومت کی سازش کے خلاف برسرپیکار ہونے کے بجائے ملک کی عدلیہ اور عدالتی نظام کے خلاف برسرپیکار ہوگئے ہیں۔اس صورت حال میں دانش مندی کاتقاضہ یہی ہے کہ وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی پاکستان کے بااختیار وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے اور امور مملکت انجام دینے کی کوشش کریں اور نواز شریف کا چپراسی بن کر ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے بجائے ان کے دور کی غلط کاریوں کو روکنے اور کرپٹ افسران ، ارکان اسمبلی اورخود اپنی کابینہ کے وزرا کا احتساب کرنے پر توجہ دیں اور خود اپنے آپ کو بھی ایل این جی اسکینڈل کے حوالے سے رضاکارانہ طورپر احتساب کے لیے پیش کریں تاکہ دودھ کادودھ اور پانی کا پانی سامنے آسکے اور مخالفین کامنہ بند ہوسکے۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نااہل قرار دئے گئے نواز شریف کے آنسو پونچھنے کی کوشش میں عدلیہ کو مطعون کرنے کے بجائے عدلیہ کا وقار بحال اور بلند کرنے اور عدالتی فیصلوں کو ہر چیز پر بالاتر رکھنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے۔