اشرف غنی کے الزامات کے باجودہمارارویہ مثبت ہے ، وزیرخارجہ
شیئر کریں
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اشرف غنی کے الزامات بھی جاری ہیں پھربھی ہمارارویہ مثبت ہے،پاکستان کا مثبت کردار اور قیام امن کیلئے کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں،افغانستان کے حالات کی ذمہ داری پاکستان پرڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے،ہم عالمی اتفاق رائے کا حصہ ہیں، ہمارے مقاصد یکساں ہیں،خطے میں کچھ قوتیں امن کے مخالف کام کررہی ہیں،جن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ، ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے،افغانستان کا اگر فوجی حل ہوتا تو وہ نکل چکا ہوتا، سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں بھارت کا رویہ افسوسناک تھا، عالمی برادری اور سلامتی کونسل کواس کانوٹس لیناچاہیے تھا،، اگر خدانخواستہ افغانستان میں حالات مزید خراب ہوتے ہیں تو سب سے پہلے متاثر پاکستان ہو گا۔ افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے اپنے بیان میں وزیر خارجہ نے کہاکہ اشرف غنی کے الزامات بھی جاری ہیں پھربھی ہمارارویہ مثبت ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم افغانستان میں بہتری چاہتے ہیں وہاں کے عوام امن چاہتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ افغان امن عمل میں ہمارا کردار مثبت رہا ہے،آج بھی دوحہ میں امن مذاکرات میں پاکستانی وفد شامل ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کا مثبت کردار اور قیام امن کیلئے کوششیں، کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ آج دنیا افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کی مصالحانہ کوششوں کو سراہ رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان کے حالات کی ذمہ داری پاکستان پرڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے،افغانستان سے باہرایک طبقہ اسپائیلر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہ کہہ دینا کہ پاکستان نے ڈیڑھ انچ کی مسجدبنارکھی ہے یہ درست نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ہم عالمی اتفاق رائے کا حصہ ہیں، ہمارے مقاصد یکساں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ خطے میں کچھ قوتیں امن کے مخالف کام کررہی ہیں،جن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ وزیرخارجہ نے کہاکہ دوحہ میں ہمارا وفد آج بھی موجود ہے اور امن کیلئے ہماری کوششیں ہمیشہ جاری رہیں گی۔ انہوںنے کہاکہ ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے،افغانستان کا اگر فوجی حل ہوتا تو وہ نکل چکا ہوتا۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان میں جتنا امن کا عمل بڑھاہیوہ ہماری کوششوں سے بڑھا ہے،ہم افغانستان کے تمام ہمسائیوں سیرابطے میں ہیں،ہم مل کر ایک مربوط حکمت عملی بنانا چاہتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ خطے میں تمام ممالک کو مل کر قیام امن کیلئے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانا ہوں گی ۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان میں تشدد میں اضافے پر ہمیں تشویش ہے ،ہم نہیں چاہتے کہ کوئی بازور _بازو افغانستان میں مسلط ہو۔ انہوںنے کہاکہ ہم افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہیں چاہتے،اچھے ہمسائیکا کردار ادا کرنے کیلئے تیارتھے اور تیار ہیں،ہم نے باڈر فینسنگ اس لیے کی کہ ناپسندیدہ عناصر کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔ انہوںنے کہاکہ ہم بارڈر کی نقل و حرکت ریگولیٹ کرنا چاہتے ہیں،25سے30ہزارلوگ روزانہ بارڈرکراس کرتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں تشویش ہے کہ ایسے عناصر داخل نہ ہوں جو حالات خراب کریں،ہمیں یہ بھی ادراک ہے کہ افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں اس کیلئے درمیانہ راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں بھارت کا رویہ افسوسناک تھا، عالمی برادری اور سلامتی کونسل کواس کانوٹس لیناچاہیے تھا۔