وزیراعظم کادس بہترین وزراء کے ناموں کااعلان
شیئر کریں
نااہل ایوارڈلے اڑے،حق دارمحروم رہے
ناراض وزراء
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کوئی دنیا کا نظام جس میں سزااورجزانہیں ہے وہ کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ جب میں آیا تھا تو میرے پاس بڑے انقلابی آئیڈیاز تھے لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ جو ہمارا نظام ہے اس میں اچانک دھچکے کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ ہم مراعات دے کر ہی اپنی وزارتوں اور بیوروکرسی میں مثبت تبدیلیاں لے کر آئیں گے ۔ میں مرادسعید کی وزارت کو میں خاص طورپر مبارکباددیتا ہوں کہ یہ پہلے نمبر پر آئے ہیں، یہ سب سے نوجوان وزیر ہیں اوران کی سب سے اچھی کاکردگی ہے۔ان خیالات کااظہار وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کے روز اپنی وزارتوں میں بہترین کاکردگی کا مظاہرہ کرنے والے 10وفاقی وزرائ، مشیروں اور معاونین خصوصی میں تعریفی سرٹیفکیٹس تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ معاون خصوصی برائے اسٹیلشمنٹ محمد شہزاد ارباب کی جانب سے اعلان کردہ فہرست میں وزارت مواصلات پہلے نمبرپر، وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات دوسرے نمبر پر،تخفیف غربت و سماجی تحفظ ڈویژن تیسرے نمبر پر، وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت چوتھے نمبر پر،وزارت انسانی حقوق پانچویں نمبر پر، وزارت صنعت وپیداوار چھٹے نمبر پر، نیشنل سکیورٹی ڈویژن ساتویں نمبر پر، وزارت تجارت آٹھویں نمبر پر، وزارت داخلہ نویں نمبر پر اور وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اور ریسرچ 10ویں نمبرپر ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ سارے وزراء بیٹھے ہوں اور سب کو پتا ہو کہ کس نے کتنا کام کیا ہے۔ ہم اس کام کی تشہیر بھی کریں گے اوراس کے وزارتوں کو فوائد بھی ملیں گے۔ ہم وزراء کو کہتے رہتے ہیں کہ محنت کرو لیکن فرق نہیں پڑتا، جب سب کے سامنے نمبر ز پڑھے جائیں گے اور سزااور جزا ہوگی تو جو باقی ہماری مدت ہے اس میں مجھے پوری امید ہے کہ ہماراگورننس سسٹم بہترہو گا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی دنیا کا نظام جس میں سزااورجزانہیں ہے وہ کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر نجی شعبہ میں ہسپتال ہے وہاں تنخواہیں بھی زیادہ نہیں ہیں لیکن وہ سرکاری شعبہ سے بہت اچھی کارکردگی دکھاتا ہے۔ سرکاری ہسپتال میں لوگ جاتے نہیں ہیںجن کے پاس پیسہ ہے وہ نجی ہسپتال میں جاتے ہیں اوروہ اس لئے جاتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں سزااورجزا کاکوئی نظام ہی نہیں ہے۔ نجی شعبہ میں سنیارٹی کی ایک پہچان ہے لیکن سنیارٹی کی وجہ سے ترقی، پیسے اور بونسز نہیں ملتے بلکہ کارکردگی پر ملتے ہیں۔ پاکستان میں چار ہسپتال ہیں جو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہیں جن میں آغا خان، شفاء ہسپتال اوردوشوکت خانم پشاور اورلاہور شامل ہیں۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ اگر آپ وہاں کارکردگی نہیں دکھاتے تو آپ کی وہاں ترقی نہیں ہوتی بلکہ وارننگ کے بعد نکال دیا جاتا ہے اورجو کارکردگی دکھاتا ہے اس کو بونسز ملتے ہیں اور تنخواہیں بڑھتی ہیں۔ یہ ہمارا سب سے بڑاایشو بنا ہوا ہے کہ ہماری حکومت اور ملک کے مفادات کے درمیان کنیکشن نہیں آیا کہ وزارت اپنے ملک کو پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے کیسے کارکردگی دکھائے گی، ہماری ایکسپورٹس کیسے بڑھیں گی اور امپورٹس کیسے کم ہوں گی اورگورننس سسٹم کا مطلب کہ عوام کی زندگی کیسے بہتر کرے گی، لوگوں کو غربت سے نکالنا ہمارا جو برا چیلنج ہے وہ وزارت کیا قدم اٹھا رہی ہے، آئوٹ آف دی باکس ان کے پاس کتنے حل ہیں۔ مراعات دے کر آئوٹ آف دی باکس حل لے کر آئیں کہ کون ، کون سی چیز کریں تو ہم اپنے قومی مفاد کی طرف جاسکیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہم بونسز بڑھاتے رہیں گے ۔ مجھے احساس ہوا کہ جن، جن وزراء کے نام نہیں ہیں وہ یہاں مجھے نظر ہی نہیں آرہے۔ ہمیں آئی ایم ایف کی جانب سے دی گئی پابندیوں کے درمیان میں چلنا پڑتا ہے لیکن اس کے بیچ میں بھی قابلیت ہے کہ ہم کس طرح اپنے لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں ، آج ساری دنیا میں اشیاء کی قیمتیں اوپر گئی ہوئی ہیں اور مہنگائی ہے توہم کیسے لوگوں کی زندگی آسان کرسکتے ہیں یہاں ہیومن جینیس آتاہے کہ کون آئوٹ آف دی باکس سوچتا ہے۔ پہلے تو نیب کی وجہ سے بیوروکریٹس کوئی چانس ہی نہیں لیتے تھے کہ اگر کسی وجہ سے تھوڑا سا مسئلہ آسکتا تھا تووہ بیٹھ جاتے تھے اوراس سے ہماری حکومت کو بہت بڑا نقصان ہوتا ہے، اب تو ہم نے وہ رکاوٹ بھی دور کردی ور نیب کا جو لوپ تھا اس میں اصلاحات کردی ہیں تواب تو کوئی توجیہ نہیں ہے۔ اس چیز کے لئے سزا ئیں لے کرآئیں کہ کوئی چیز وزارت میں پھنس گئی ہے اوراس سے ملک کو نقصان ہو، اس سے بھی بڑا نقصان ہوتا ہے کہ آپ فائل ہی آگے نہیں چلارہے۔ شہزاد ارباب وزارتوں کی کارکردگی کے معیار کو مزید بہتر بنانے کے اپنے طریقہ کار کو فائن ٹیون کریں اور جب ہم تین ماہ بعد اپنی ٹیم کی کاکرکردگی کا جائزہ لیں تو مزید کارکردگی بہتر ہو گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد(بیورورپورٹ) وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ جو وزرا ء اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے، ایوارڈ کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔وزیراعظم کی طرف سے بعض وزرا ء کو کارکردگی ایوارڈ دینے پر حکومتی بینجوں میں بھی چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں اور بعض وزرا ء زیر لب گلہ کرنے لگ گئے۔ وزیر پارلیمانی امور بھی شکوہ گروپ میں شامل ہوگئے اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے حکومتی یقین دہانیاں میں اظہار کرگئے ۔علی محمد خان نے کہا کہ جو وزرا ء اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے، متعلقہ قائمہ کمیٹیز میں نہیں آتے، ایوارڈ کے حق دار ٹھہرتے ہیں، چیئرمین یقین دہانی کمیٹی کی جانب سے ایجنڈے کے مطابق متعلقہ وزرا، سیکرٹریز بلانے کی حمایت کرتا ہوں، بطور پارلیمانی امور وزیر حکومتی وزرا ء کی طرف سے ان کی وزارتوں سے متعلق یقین دہانی کراتا ہوں، بعض وزرا ء ان یقین دہانیوں سے ایوان میں اظہار لاتعلقی کردیتے ہیں مگر ایوارڈ کے حق دار بھی وہی ہیں۔دوسری جانب فواد چوہدری نے بھی دبے لفظوں میں کہا کہ ہم اس لیے جگہ نہیں بناسکے کہ کارکردگی ان پروجیکٹس پرعملدرآمد سے جانچی جاتی ہے جو وزارت وزیراعظم آفس کودیتی ہے۔