3خواتین افسران کے گرد نیب کا گھیرا تنگ
شیئر کریں
عقیل احمد راجپوت
وزیراعظم نواز شریف نے 1997ء میں جب حکومت سنبھالی تواس وقت احتساب بیوروبنایا، اس کا پہلا سربراہ سینیٹر سیف الرحمان کوبنایا۔ جب پرویز مشرف نے اقتدار حاصل کیاتوانہوں نے اس احتساب بیوروکوقومی ادارۂ احتساب (نیب)کا نام دیا۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ نیب کا ادارہ صرف ایگزیکٹو آرڈر کی بنیاد پر قائم کیاگیا تھا اوراس کوتاحال پارلیمنٹ سے منظور نہیں کرایاگیا۔ پہلے تونیب کے سربراہ فوجی افسران بنے اورپھرکئی ایسے اسکینڈل سامنے آئے کہ جس پر دنیاحیران ہوگئی، خاص طورپر جنرل (ر) شاہد عزیز نے نیب کواپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی جنرل (ر)پرویز مشرف کی کوششوں کا بھانڈاپھوڑدیا۔ ـ2008ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اس وقت جسٹس(ر)دیدارحسین شاہ کو چیئرمین نیب بنایاگیا لیکن بعدازاں سپریم کورٹ نے ان کوہٹادیا۔موجودہ حکومت کے دورمیں نیب چیئرمین بننے والے وفاقی سیکریٹری داخلہ چوہدری قمرالزماں پہلے چیئرمین تھے جوسویلین تھے اوران کا تقرر متفقہ طورپرکیاگیاتھا۔ نیب نے سب سے زیادہ کارروائیاں وفاقی حکومت اورپھرحکومت سندھ میں کیں ، شرجیل میمن، میر منورتالپر،علی مردان شاہ سمیت سینکڑوں افسران اورسیاسی رہنمائوں کے خلاف تحقیقات شروع کی۔ـ لیکن دلچسپ امریہ ہے کہ ان میں تین ایسی خواتین افسران بھی ہیں جن کے گردنیب نے شکنجا کس دیاہے اورتینوں خواتین افسران بری طرح پھنس گئی ہیں ۔
ان میں سے ایک سابق سیکریٹری بلدیات شازیہ رضوی ہیں جن پرالزام ہے کہ انہوں نے اس وقت کے وزیر بلدیات آغا سراج درانی کے ساتھ مل کر محکمہ بلدیات میں جعلی بھرتیاں کیں اور یہ کیس اس وقت نیب نے تیار کرلیاہے اوراب کسی بھی وقت ریفرنس احتساب عدالت میں پیش کردیا جائے گا۔ نیب نے شازیہ رضوی کومتعدد بار بلایااوران سے تحریری بیانات بھی لیے۔ اب اس ریفرنس میں شازیہ رضوی بھی بطور ملزم نامزد ہوں گی ۔اس کے علاوہ دوسری خاتون افسر لبنیٰ صلاح الدین ہیں جن کوسابق حکومت میں جب ایم ڈی سائٹ لگایا گیا توانہوں نے نہ صرف غیرقانونی بھرتیاں کیں بلکہ انہوں نے مالی وسائل کابھی غلط استعمال کیا۔ اس پران کے خلاف نیب میں باقاعدہ ریفرنس دائر کیاگیاہے جس میں ان کو بطور ملزم نامزد کیاگیاہے اس طرح وہ بھی نیب کی تحقیقات میں پھنس گئی ہیں ۔جبکہ تیسری خاتون افسرانیتا بلوچ ہیں جومحکمہ اطلاعات میں افسر تھیں اور شرجیل انعام میمن کے ساتھ مل کر7 ارب روپے کے اشتہارات میں بے قاعدگیاں کیں اورمحکمہ اطلاعات کو مالی طورپرنقصان پہنچایا۔نیب نے جوریفرنس تیار کیاہے اس میں انیتا بلوچ کوبھی شریک ملزمہ بنایا گیا ہے۔اب وہ اس ریفرنس کے بعدملازمت سے غائب ہوگئی ہیں ۔ ان کے خلاف بھی نیب ریفرنس میں مضبوط ثبوت موجود ہیں ، نیب کی ان تحقیقات میں 20 سے زائددیگر افسران وسیاستدان شریک ملزم ہیں لیکن خواتین افسران کے لیے یہ عمل مصیبت سے کم نہیں ۔
اس سے پہلے شرمیلا فاروقی اوران کی والدہ انیسہ فاروقی کے خلاف بھی نیب ریفرنس دائر ہوچکا ہے جس میں ان کوسزائیں بھی ہوئی تھیں اورانہیں 14سال کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔ بینظیربھٹو،بیگم نصرت بھٹو پربھی نیب ریفرنس زیر سماعت رہ چکے ہیں ،اکثر خواتین افسران کی شہرت اچھی ہوتی ہے اوروہ مالی بے قاعدگیوں اوراختیارات کے ناجائز استعمال سے گریز کرتی ہیں ، کیونکہ ان کوپتہ ہوتاہے کہ ان کے خلاف نیب یا محکمہ اینٹی کرپشن میں تحقیقات ہوئی تو ا ن کے لیے مصیبت کھڑی ہوجائے گی لیکن یہ تینوں خواتین افسران نیب ریفرنس میں پھنس گئی ہیں اور اب احتساب عدالت کے فیصلے تک وہ عدالتوں کے چکر کاٹتی رہیں گی۔
لبنی صلاح الدین اورانیتا بلوچ نے توضمانت کروا رکھی ہے لیکن شازیہ رضوی نے تاحال ضمانت نہیں کروائی۔ سندھ پولیس کی ایک خاتون ایس ایس پی نسیم آراء پنہور پربھی ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی رپورٹ میں الزام لگ چکا ہے کہ انہوں نے 700 سے زائد پولیس اہلکاروں کی بھرتیاں کیں اوراس میں انہوں نے رشوت وصول کی اوربھرتیوں میں قواعد وضوابط نظرانداز کردیئے لیکن تاحال ان کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر نہیں ہوسکا ہے۔
خواتین افسران کے خلاف اس طرح کے مقدمات سے دیگرخواتین افسران خوف زدہ ہوگئی ہیں اوروہ اب اہم عہدے لینے سے گریز کررہی ہیں کیونکہ وہ نیب یا محکمہ اینٹی کرپشن کی تحقیقات سے خود کوبچانا چاہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت صرف ایک خاتون ڈاکٹر شیریں مصطفی ہیں جومحکمہ سوشل و یلفیئر کی سیکریٹری ہیں جبکہ دیگرخواتین افسران اہم عہدے لینے میں دلچسپی نہیں لے رہیں بلکہ اب سائڈ پوسٹیں لے کرخاموشی سے نوکری کی خواہاں ہیں یا پھر وہ گھربیٹھنے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں ۔ خاص طورپر موجودہ حالات میں جب نیب اورمحکمہ اینٹی کرپشن متحرک ہے توایسے میں خواتین افسران خود کواس تنازع میں ڈالنے سے اجتناب کررہی ہیں کہ ایک طرف حکومت کے غیرقانونی احکامات پرعمل کریں تو مقدمات بنیں گے اور اگرانکارکریں توحکومتی عتاب کا شکار ہوجائیں اس لیے وہ ایک کونے میں خاموش ہوکربیٹھ گئی ہیں ۔