میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ارکان سندھ اسمبلی نے نئی ملازمتوں کو دھندا بنا دیا!!!

ارکان سندھ اسمبلی نے نئی ملازمتوں کو دھندا بنا دیا!!!

ویب ڈیسک
پیر, ۷ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

عام انتخابات سے قبل نوکریوں کی فروخت اور نئے ٹھیکوںسے اگلے انتخابات کاخرچہ نکالنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی
ہر ایم پی اے کو200نوکریاں‘ ایم این اے کو80 اور سینیٹر کو50نوکریاں ملیں گی،پیپلز پارٹی کے صوبائی عہدیدار بھی مستفید ہوں گے
الیاس احمد
جیسے ہی عام الیکشن کی طرف حالات جارہے ہیں حکومت سندھ ایسے فیصلے کررہی ہے جس سے عوام کو کم‘ حکومت سندھ اور پیپلزپارٹی کو زیادہ فائدہ ملے۔ ترقیاتی منصوبے بھی ایسے بنائے جارہے ہیں جس سے ارکان سندھ اسمبلی کو ٹھیکیداروں سے کمیشن بٹورنے کے مواقع زیادہ ملے اور وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکیں اور ترقیاتی منصوبے بھی ایسے بن رہے ہیں جو صرف اپنوں کے فائدے کے ہوں مخالفین کے لیے کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں بنایاگیا۔
سندھ حکومت نے اب تازہ اطلاعات کے مطابق عام انتخابات سے قبل نئی ملازمتیں دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بے روزگار نوجوان تو ویسے خوش ہورہے تھے کہ اب ان کی سن لی گئی ہے اور جلد ہی ان کو نوکری ملے گی ۔ مگر فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ تمام نوکریاں ارکان سندھ اسمبلی‘ سندھ سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ارکان قومی اسمبلی اورسندھ کے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز ہی بانٹ سکتے ہیں۔ اس میں میرٹ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ ذہانت‘ قابلیت اور محنت کی کوئی قدر نہیں کی جائے گی بس صرف وہ لوگ نوکری لے سکیں گے جن کے پاس پیسہ ہوگا غریب نوجوان بے روزگاری ہی کاٹیں گے۔ ان کے لیے کوئی نوکری نہیں ان کی شنوائی کہیں بھی نہیں ہونے والی ہے۔ اس سلسلے میں ’’جرأت‘‘ نے جو تحقیقات کی ہے اس کے مطابق ہر ایم پی اے کو 200 نوکریاں‘ ایم این اے کو 80 اور سینیٹر کو 50 نوکریاں ملیں گی۔ پیپلزپارٹی سندھ کے صوبائی عہدیداروں میں سے ہر ایک کو20‘25 ڈویژنل عہدیدار کو 15،ضلعی عہدیداروں کو10اورٹائون‘ تحصیل عہدیدار کو5نوکریاں ملیں گی ۔ ذرائع کے مطابق ان نوکریوں کے ریٹ ابھی سے نکلنا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر ایک نوکری ایک لاکھ روپے میں فروخت ہوگی تو ایک ایم پی اے کو دو کروڑ روپے ملیں گے اور اس سے ان کا الیکشن کا خرچ بھی نکل جائے گا۔ بے روزگار نوجوانوں سے ابھی سے پیشگی رقومات لینے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور ان سے وعدہ کیاگیا ہے کہ انہیں تین ماہ میں نئی ملازمت دے دی جائے گی۔ و زیراعلیٰ ہائوس اور بلاول ہائوس میں خصوصی سیل قائم کردیے گئے ہیں،ہر ایم پی اے سے کہاگیا ہے کہ وہ اپنی لسٹیں پہلے بلاول ہائوس میں جمع کرائیں پھر وہاں سے لسٹیں سی ایم ہائوس میں جائیں گی اور پھر وہاں سے آرڈر جاری کیے جائیں گے۔ مختلف محکموں کے افسران سے کہاگیا ہے کہ وہ بلینک (سادہ) آرڈر پر دستخط کردیں تاکہ ان پر سی ایم ہائوس اور بلاول ہائوس میں نام لکھ کر یہ آرڈر ایم پی ایز‘ ایم این ایز‘ اور سینیٹرز کوتھمائیں جاسکیں۔ محکمہ ایکسائز‘ محکمہ ریونیو‘ محکمہ خزانہ اور محکمہ پولیس کے آرڈرز میں زیادہ رقومات طلب کی جارہی ہیں جو پانچ لاکھ روپے سے شروع ہوکر دس لاکھ روپے تک ہوجاتی ہے اور بے چارے بے روزگار نوجوان یہ رقم دینے پر مجبور ہیں۔ ایم پی ایز‘ ایم این ایز اور سینیٹرز کے ایجنٹ کھلے عام نوجوانوں سے پیسے بٹوررہے ہیں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ۔
ذرائع کے مطابق اس ضمن میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ حتمی لسٹیں آصف زرداری اور فریال تالپر کو منظوری کے لیے پیش کی جائیں گی۔ صوبہ بھر کے بے روزگار نوجوان ان دنوں سودپرقرضے لے رہے ہیں یا پھر اپنی زمینیں فروخت کررہے ہیں۔ اپنے گھر کے مال مویشی فروخت کررہے ہیں اپنے گھر کے زیور فروخت بیچ رہے ہیںتاکہ وہ مطلوبہ رقم جمع کرکے اپنی نوکری حاصل کرسکیں۔
بے روزگاروں کے لیے یہ امید کی آخری کرن ہے کہ وہ عام انتخابات سے قبل وہ نوکری حاصل کریں، اگر اس مرتبہ بھی وہ نوکری حاصل نہ کرسکے تو پھر ان کے لیے نوکری لینا دشوار ہوگا۔ اب سی ایم ہائوس‘ بلاول ہائوس میں ایم پی ایز کا رش بڑھ گیا ہے اور وہ روزانہ بے روزگار نوجوانوں سے لین دین کرکے حتمی طور پر ان سے نوکری کا ریٹ طے کرکے نوکری کے لیے فہرستیں دے رہے ہیں تاکہ جب نوکری ملے تو اس کی کاپی حاصل کرسکیں۔ بلاول ہائوس اورسی ایم ہائوس نے یہ پالیسی بنائی ہے کہ ملازمت کی فہرستیں لے کر آرڈر ایم پی ای‘ ایم این ایز‘ اور سینیٹرز کے حوالے کی جائیں گی تاکہ اگر کوئی بے روزگار نوجوان آرڈر لیتے وقت مطلوبہ رقم ایم پی ایز‘ ایم این ایز اور سینیٹرز کو نہ دے سکیں تو وہ اس کا آرڈر منسوخ کرواکر کسی دوسرے بے روزگار نوجوان کو دے سکیں‘ اور ایسے معاملات کے لیے ایم پی ایز‘ ایم این ایز اور سینیٹرز نے نئی منطق بھی تیار کرلی ہے۔ وہ بلاول ہائوس اور سی ایم ہائوس کو بتائیں گے کہ مذکورہ نوجوان کووفاق میں نوکری مل گئی ہے یا وہ بیرون ملک چلاگیا ہے۔ اس لیے ان کی جگہ کسی اور کاآرڈر جاری کیا جائے۔ اس منطق پر سی ایم ہائوس اور بلاول ہائوس آرڈر جاری کریں گے تاکہ ایم پی ایز اور ایم این ایز یہ آرڈرجاکر دوبارہ فروخت کریں اور الیکشن میں یہ رقم خرچ کریں اور کامیابی کی کوشش کریں۔اس طرح عام الیکشن سے قبل امیدواروں کو بھی بلاول ہائوس میں پارٹی فنڈ کے لیے بھی بھاری رقومات جمع کرانا ہوگی ۔اس رقم سے الیکشن میں بعض ریٹرننگ افسران اور پریزائیڈنگ افسران کی ’’خدمت‘‘ حاصل کی جائے گی اور اس کے لیے2013ء کے عام انتخابات کی مثال سامنے رکھی جائے گی۔ عام الیکشن سے قبل ایم پی ایز‘ ایم این ایز‘ سینیٹرز کو نوکریاں دے کر سندھ میں میرٹ کا جنازہ نکال دیاگیا ہے اور ذہانت‘ قابلیت‘ محنت اور شوق کو تہس نہس کردیاگیا ہے۔ ایک ایسی پارٹی جو خود کو عوامی پارٹی کہتے ہوئے نہیں تھکتی، اس کی یہ پالیسی تو آمروں سے بھی آگے چلی گئی ہے کہ وہ نئی نوکریاں فروخت کررہی ہے اور کھلے عام نوکریوں کی منڈی لگادی ہے اور پھر جب کہیں انکوائری ہوتی ہے تو شام غریباں برپا کی جاتی ہے او اگر قانون حرکت میں آتا ہے تو انتقام کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیںاور اگر سزا ہوتی ہے تو ماتم شروع کردیا جاتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں