میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کراچی کی سڑک پھر لہو رنگ ہوگئی۔۔ ذمہ دار کون؟

کراچی کی سڑک پھر لہو رنگ ہوگئی۔۔ ذمہ دار کون؟

منتظم
هفته, ۱۱ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں یونیورسٹی روڈ پر بیت المکرم مسجد کے قریب گزشتہ روزمسافر بس الٹنے کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور 11 زخمی ہوگئے۔ابتدائی رپورٹ کے مطابق تیز رفتار بس ڈرائیور سے بے قابو ہوکر بیت المکرم مسجد کے قریب بس اسٹاپ پر کھڑے لوگوں پر چڑھ گئی،حادثہ تیز رفتاری کی وجہ سے پیش آیا، حادثے کے بعد ڈرائیور اور کنڈیکٹرمعمول کے مطابق موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جبکہ پولیس نے بس کو اپنے قبضے میں لے لیا۔وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے حادثے کے ذمے دار ڈرائیور کی گرفتاری کا حکم دے دیاجبکہ ڈی آئی جی ٹریفک نے ڈرائیور کو گرفتار کرنے کے عزم کااظہار کیا ہے ،وزیر ٹرانسپورٹ سندھ ناصر حسین شاہ کا استدلا ل ہے کہ ٹریفک حادثات ترقیاتی کاموں کے باعث نہیں بلکہ ڈرائیورکی غفلت اور تیز رفتاری کے باعث ہوتے ہیں۔میئر کراچی وسیم اختر نے بھی حادثے کی وجہ تیز رفتاری اور اوور لوڈنگ قرار دی ہے۔
گلشن اقبا ل کے علاقے میں یہ خونچکاں حادثہ اپنی نوعیت کا پہلا حادثہ نہیں ہے، کراچی کی سڑکوںپر حادثات روزمرہ کامعمول ہیں، کبھی کوئی تیز رفتار بس کسی راہگیر کو کچلتے ہوئے گزرجاتی ہے اور کبھی مسافر کو منزل پر اترنے کی مہلت دیے بغیر اسے سڑک پر پھینک کر کچلتے ہوئے گزرجاتی ہے ،کہنے کو تو کراچی کی ہر سڑک بلکہ ہر چوراہے پر ٹریفک اہلکار موجود ہوتے ہیں لیکن آج تک کسی اہلکارکو کسی بس ڈرائیور پر تیزرفتاری، غلط جگہ گاڑی کھڑی کرنے ،گنجائش سے زیادہ مسافر بٹھانے اور بلند آواز میں ٹیپ بجانے یا روٹ کی خلاف ورزی کرنے پر چالان کرنے یا گاڑی کوضبط کرتے نہیں دیکھاگیا۔جب کوئی جان لیوا حادثہ ہوتاہے، جب اس شہر کی سڑکیں کسی کے خون سے رنگین ہوتی ہیں ،ٹریفک کے اعلیٰ حکام کوہوش آتاہے اور وہ حادثے کے ذمہ دار ڈرائیور کو گرفتار کرکے سخت سزا دینے کی کہانی سنا کر شہریوں کے جذبات سرد کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عملاً شاید ہی کبھی ایسا ہوتا ہو۔
کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک پولیس کی ملی بھگت سے نوآموز ڈرائیوروں کی ستم کا نشانہ بننے والے شہریوں کی صورت حال کا اندازہ کراچی میں ٹریفک حادثات کے حوالے سے گزشتہ برس منظر عام پر آنے والی اس رپورٹ سے لگایاجاسکتاہے جس کے مطابق 2016 کے ابتدائی 4 مہینوں میں جنوری سے اپریل کے دوران ہر2 دن میں 5 جان لیوا حادثات ہوتے رہے۔اس رپورٹ کو پیش کرتے ہوئے ڈی آئی جی ٹریفک آصف اعجاز شیخ نے بتایا تھا کہ کراچی میں ہر سال 30 ہزار حادثات رپورٹ ہوتے ہیں۔ انھوں نے یہ اعتراف کیاتھا کہ 90 فیصد حادثات میں ہلاکتیں ہوتی ہیں جبکہ قصورواروں کو کوئی سزا نہیں مل پاتی۔انہوں نے تیز رفتاری کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ انتباہ جاری کرنے کے باوجود لوگ تیز رفتاری پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ڈی آئی جی نے ان حادثات کے 3 بڑے عوامل بتائے تھے جن میں ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر ناتجربہ کار ڈرائیورز کا گا ڑیاں چلانا، تیز رفتاری اور بغیر اشارہ دیئے اوورٹیکنگ کرنا شامل ہیں۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈی آئی جی ٹریفک نے سڑکوں پر ہونے والے حادثات کے جو اسباب بتائے ہیں وہ حقیقت کے قریب تر ہیں،اعداد و شمار کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کے 60 فیصد ڈرائیوروں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے، اسی وجہ سے ٹریفک کے کنٹرول کے ساتھ ساتھ ‘لاپروا ڈرائیورز’ کو قابو کرنے میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر ڈی آئی جی ٹریفک حادثات کے اسباب سے واقف ہیں تو اس کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے سے کیوں گریزاں ہیں ،اور وہ ٹریفک اہلکاروں کوبھتا جمع کرنا بند کرکے ڈرائیوروں کو قانون پر عملدرآمد پر مجبور کرنے کی ہدایت کیوں نہیں دیتے اور ٹریفک اہلکاروں کی کارکردگی کابذات خود جائزہ لینے کے لیے رش کے اوقات میں سڑکوںپر نکل کر نگرانی کے فرائض کیوں انجام نہیں دیتے۔کیا ان کی ذمہ داری صرف دفتر میں بیٹھ کر احکامات جاری کرنے تک ہی محدود ہے؟کیا ٹریفک اہلکاروں اور افسران کی رشوت خوری پر کنٹرول کرنا ان کے فرائض میں شامل نہیں ہے؟کیا کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں رکھنے اور شہریوں کو بحفاظت منزل تک پہنچنے کی سہولت فراہم کرنا ان کے فرائض سے باہر کی بات ہے؟یقینا یہ تمام فرائض ان پر عاید ہوتے ہیں لیکن وہ محض عام ڈرائیوروں اور معمولی پولیس اہلکاروں کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر خود کو اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ذمہ قرار دینا چاہتے ہیں،لیکن ان کایہ رویہ درست نہیں ہے۔ ہوسکتاہے کہ ایوان اقتدار میں ان کے کچھ ہمدرد موجود ہوں جو ان کو وقتی طورپر احتساب سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوجائیں لیکن انھیں یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ اس طرح کی صورتحال کے تسلسل کی وجہ سے عوام کے صبر کاپیمانہ لبریز ہورہاہے اور اگر ایک دفعہ عوام نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کافیصلہ کرلیا جو کہ انتہائی فیصلہ ہوسکتاہے اور جو کسی بھی صورت میں نہیں ہونا چاہئے ،تو ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ڈی آئی جی ٹریفک اور آئی جی سندھ کے ہمدرد اوربہی خواہ بھی انھیں عوام کے غیض وغضب سے نہیں بچاسکیں گے۔
یہ ایک عام فہم بات ہے کہ اگر ڈی آئی جی ٹریفک خود اپنے فرائض احسن طورپر انجام دینے پر تیارنہیں ہیں تو پھر وہ عام اہلکاروں سے اس کی توقع کیونکر کر سکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سڑکوں پر اس طرح کے جان لیوا حادثات پر متعلقہ ڈرائیوروں کے ساتھ ہی اس علاقے میں تعینات پولیس اہلکاروں کو بھی سزائیں دی جانی چاہئیں ٹریفک کی خلاف ورزیاں روکنے میں ناکامی پر خو د ڈی آئی جی ٹریفک کے خلاف بھی فرائض سے غفلت برتنے کے الزام میں کارروائی کی جانی چاہئے ،جب تک سزا وجزا کا یہ نظام قائم نہیں کیاجاتا کراچی کی سڑکیںیوں ہی لہو رنگ ہوتی رہیں گی اور اعلیٰ حکام نت نئے بہانے تراش کر عوام کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہیں گے۔
امید کی جاتی ہے کہ ارباب اختیار اپنے فرائض کی ادائیگی پر توجہ دیں گے، اور عوام کے صبر کاپیمانہ لبریز ہونے سے قبل ہی اپنا قبلہ درست کرنے اور شہر کی سڑکوںپر انسانی لہو سے ہولی کھیلنے والے منہ زور ڈرائیوروں کو نکیل ڈالنے کے لیے موثر لائحہ عمل اختیار کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں