میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ملک کی بقاکیلئے جمہوریت کا تسلسل ضروری ہے

ملک کی بقاکیلئے جمہوریت کا تسلسل ضروری ہے

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۶ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

وطن عزیز کے اصل مسائل کیا ہیں ،ہمیں درپیش چیلنجز کا مقابلہ کس طرح کرنا چاہئے اور دنیا نے اپنے مسائل پر کیسے قابو پایا ؟یہ اور اس جیسے بیسیوں سوالات ہیںلیکن ہمارے حکمرانوں اورسیاستدانوں کو اس کی کوئی پروا نہیںاس صورت میں عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال پیداہونا فطریہے کہ ہم کیسی قوم ہیں جنہیں اپنے اصل مسائل کا بھی ادراک نہیں حکمرانوں اور سیاستدانوں کی موجودہ روش سے ایسا معلومہے کہ ہم قوم نہیںبلکہ ہجوم ہیں جو پانی کے بہائوکی طرح حالات کے رحم و کرم پر چلتے جا رہے ہیں ۔چند سیاستدانوں کے ’’کالے کرتوتوں ‘‘ کو جواز بنا کر سیاسی عمل پر تبرابازی کے بانی جنرل ایوب خان تھے۔ ان کے بعد آنے والے ہرفوجی آمر نے پروپیگنڈے کا طوفان اٹھایا ہر وہ گالی سیاسی عمل کو دی اور دلوائی جو مارکیٹ میں دستیاب تھی۔ مگر اس سادہ سے سوال کا کبھی کوئی جواب نہیں کہ اگر زندگی کے کسی بھی دوسرے شعبے کے ایک یا چند کرپٹ افراد کی کرپشن پر بحیثیت مجموعی اس ادارے کو مطعون نہیں کیا جا سکتا توچند سیاست دانوں کی لوٹ مار پر پورے سیاسی نظام کو گالی کیوں بنا دیا جاتا ہے ؟۔ نواز شریف ہوں ، زرداری یا پھر چند دوسرے ان کے بعض معاملات کی آڑلے کر سیاسی نظام پر دشنام طرازی نئی بات ہرگز نہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک سادہ سا سوال ہے کہ بعض نوواردان سیاست یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ان کا فرمایا معتبر ہے اور ان سے اختلاف کرنے والا ہر قسم کی بد ترین گالی کا حقدار؟ طبقاتی نظام کے کوچے سے عوامی جمہوریت کی راہ نکل سکتی ہے مگر کسی بھی قسم کے دوسرے نظام سے یہ ممکن نہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جمہوریت کاتسلسل قائم رکھا جائے کیونکہ گزشتہ70برس کے دوران جمہوریت سے ہٹ کر جتنے بھی تجربات کیے گئے ان کانتیجہ افراتفری کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوا،اور اب ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ابمزید تجربوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ پچھلے تجربوں کے گھائو بہت گہرے ہیں مگر مسئلہ یہی ہے کہ جنہیں حقیقت سمجھنا چاہئے وہ سمجھتے نہیں۔ ان کاخیال ہے کہ خدا کی زمین پر بنے پاکستان کی قیادت و سیادت اور فیصلہ سازی کے سارے حقوق ان کے لیے مختص ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ وہ اپنے لانوں اور گملوں میں جو پنیری لگائیں انہیں رعایا متبادل قیادت کے طور پر قبول کرلے۔ عجیب بات یہ ہے کہ70 برس کی تاریخ کے ماہ و سال اور دوسرے معاملات کا تجزیہ کرتے وقت ہم سب سیاسی عمل کو منہ بھر کے گالی دینے کا شوق پورا کرتے ہیں۔ ویسے اب انہیں ہم جیسے شوقین مزاجوں کی بھی ضرورت نہیں رہی انھوں نے اپنا لشکر تیار کر لیا ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ صحافت و سیاست کے میدانوں میں اترے چھاتہ برداروں نے آزادی صحافت اور سیاسی عمل کی کتنی خدمت کی؟ سادہ سا جواب ہے رتی برابر بھی نہیں کیونکہ ان کے اور ان کے آقائوں کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ ایوب خان لاکھ کوششوں کے باوجود حسین شہید سہر وردی پر کرپشن ثابت نہیں کرپائے تھے اور پھر سہر وردی بیروت کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔ جنرل ضیاالحق نے اوپر نیچے تین تحقیقاتی ٹیمیں بنائیں مگر ذوالفقار علی بھٹو پر ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہ کرسکے۔ بالآخر وہ قتل کے ایک مقدمے میںنظریہ ضرورت کے تحت پھانسی پر چڑھائے گئے۔ کتنے لوگوں کو یاد ہے کہ سیاسی عمل میں کرپشن 1985کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے اس وقت داخل ہوئی جب85کی اسمبلیوں کے ارکان کو ترقیاتی فنڈز دیے گئے۔ اکا دکا چند سر پھروں نے اس وقت سوال کیا تھاکہ بلدیاتی اداروں کی موجودگی میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کیوں؟ سوال کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ جانے دیجئے اس پرانے رونے کا پھر سے رونا کیا فائدہ دے گا۔جب بھی کوئی حوصلہ کرکے یہ کہتا ہے کہ جن سیاست دانوں کے معاملات کی وجہ سے سیاسی عمل کو گالی بنایا جا رہا ہے ان سیاست دانوں کو لایا کون؟ تو جواب کی بجائے گالم گلوچ بریگیڈ اپنی زبان دانی کے مظاہرے کرتا ہے۔ لیکن کیا گالیوں اور فتوئوں کے ڈر سے سوال کرنا چھوڑ دیا جائے؟ ایسا ممکن نہیں۔ سوال ہوں گے اور ہوتے رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں‘ تجربوں اور شوق حکمرانی نے اس ملک کو کیا دیا؟۔ اس امر میںکوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سیاست نظریات کی بجائے شخصیت پرستی سے عبارت ہے۔تاہم قابل غور بات یہ ہے کہ سیاسی عمل سے نظریات کو بے دخل کیوں اور کس نے کیا؟جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ اب ہم تجربوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ٹیکنوکریٹ یا قومی حکومت کیوں۔ فوری طور پر اسمبلیاں کس لیے توڑی جائیں؟ نظام کو چلنے دیجئے۔ نواز شریف اپنے معاملات کے حوالے سے عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ عدلیہ وہی ہے جسے خود جناب نواز شریف نے بحال کروایا اور اسے آزاد عدلیہ کہتے نہیں تھکتے تھے۔ انہیں بھی سیدھے سبھائو قانونی عمل کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔ جن لوگوں کو ’’بہت جلدی‘‘ ہے انہیں ہوش سے کام لینا ہوگا۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے مشروط ہے۔
نواز شریف نے مئی 2013کے عام انتخابات میںکامیابی حاصل کرنے کے لیے عوام سے جو وعدے کیے تھے ان میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے اور کشکول توڑنے کے وعدے سرفہرست تھے، بلکہ نواز شریف کے برادر خورد نے توعام جلسوں میں کرپشن کے ذریعے ملکی دولت بیرون ملک منتقل کرنے والے کے پیٹ پھاڑ کر قوم کی دولت واپس وصول کرنے اور لوٹ مار کرنے والوں کو چوراہوں پر پھانسیاں دینے کا اعلان کیاتھا اور وہ پوری انتخابی مہم کے دوران تسلسل کے ساتھ یہ اعلان کرتے رہے ہیں لیکن الیکشن جیتنے کے بعد انھوں نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے نام پر جس طرح بجلی تیار کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کونوازنے کے لیے عوام پر پے درپے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے مہنگائی کے بم گرائے اور اس کے باوجود ساڑھے 4سال کی طویل دور حکمرانی میں عوام کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکے اس کی وضاحت ضروری نہیں ، جہاں تک کشکول توڑنے کا سوال ہے تو یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ موجودہ حکومت نے عوام کو جس طرح قرضوں میں جکڑا ہے ہماری موجودہ نسل تو کجا اگلی نسل بھی اس بوجھ سے شاید چھٹکارا حاصل نہ کرسکے اور جہاں تک ملک کی دولت لوٹنے والوں کے پیٹ پھاڑنے کاسوال ہے تو بھلا ہو پانامہ پیپرز کاجن کے لیک ہوتے ہی یہ انکشاف ہوا کہ لوٹ مار کرنے والوں میں خود وہ اور ان کا خاندان سرفہرست ہے اس طرح وہ دوسروں کے پیٹ تو بعد میں پھاڑیں گے فی الوقت وہ خود اپنے پیٹ بچانے کی فکر میں غلطاں نظر آتے ہیں اور ہر ایک سے معصوم بن کریہ سوال کرکے بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا ؟
اب جبکہ شریف برادران بلکہ شریف فیملی کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے بعض عناصر جن میں بعض نووارد سیاستداں اور سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں ملک سے جمہوریت کی بساط ہی لپیٹنے پر آمادہ نظر آرہی ہیں ،اور کبھی ٹیکنو کریٹ حکومت اور کبھی عبوری حکومت کے نام پر کوئی نئی طرز کی حکومت قائم کیے جانے کی باتیں تسلسل سے کی جارہی ہیں اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جمہوریت کے ذریعے پاکستان کو درپیش مسائل سے نجات دلانا ممکن نہیں ہوتا اور ایوب خان کے قول کے مطابق پاکستان کے عوام ابھی اتنے بالغ النظر نہیں ہوئے کہ وہ واقعی اہل لوگوں کومنتخب کرسکیں اس لیے عوام کو بھلے برے کی پہچان کرانے کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت کی اشد ضرورت ہے دراصل یہ تاثر عام کرنے والی جمہوریت دشمن قوتیں یہ بات بخوبی جانتی ہیں کہ اگر پاکستان میں چند سال تک جمہوریت کا تسلسل رہا تو چند سال میں ہی نہ صرف یہ کہ پاکستان کے مسائل ختم ہو جائیں گے بلکہ بہت جلد یہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیاستدانوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے اور چونکہ نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی تمام آف شور کمپنیاں ان کے دور اقتدار ہی میں اس وقت قائم ہوئیں جبکہ ان کے بیٹے اوربیٹی ان کی زیرکفالت تھیں اس لیے نواز شریف کو اس بات کاجواب دیناچاہئے کہ انھوں نے یہ دولت کیسے حاصل کی اور اسے بیرون ملک کس طرح منتقل کیاگیا؟۔ لہٰذا نواز شریف کو عوام کو بیوقوف بنانے اوریہ سوال کرنے کہ مجھے کیوں نکالاگیا اس بات کاجواب دینے پر توجہ دینی چاہئے کہ انھوں نے اتنی بھاری دولت کس طرح حاصل کی اور اسے بیرون ملک کس طرح منتقل کیا؟کیونکہ احتساب جب تک بے لاگ اور بلاتفریق نہیں ہوگا پاکستان اور پاکستان کے عوام کو اس کے فوائد حاصل نہیں ہوں گے ۔
ہمارے خیال میں ملک کو اس وقت نازک صورت حال کا سامنا ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بے لاگ احتساب کے عمل کوجلد ازجلد پایہ تکمیل تک پہنچاکر ملکی دولت لوٹنے والوں کو جیل بھیجنے میں مزید تاخیر نہ کی جائے تاکہ عام انتخابات میں قوم کی دولت لوٹنے والے یہ بہروپیئے کوئی نیا منجن بیچنے کے لیے میدان میں موجود نہ ہوں ، اس کے ساتھ ہی جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے بھی کوشش کی جائے تاکہ ہمارے مسائل ختم ہوں اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں