میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چیف جسٹس کے خلاف محاذ آرائی

چیف جسٹس کے خلاف محاذ آرائی

جرات ڈیسک
پیر, ۱۰ اپریل ۲۰۲۳

شیئر کریں

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ کا تفصیلی نوٹ جاری کردیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ از خود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا، میں اس بینچ کا حصہ تھا، 27 فروری کو ججوں کے ”ٹی روم“ میں اتفاق رائے ہواتھا میں بینچ میں بیٹھوں گا، سپریم کورٹ نے تاریخ ماضی سے سبق نہیں سیکھا، سپریم کورٹ سیاسی اسٹیک ہولڈر کو عدالتی فورم فراہم کرکے پارلیمنٹ کو کمزور کررہی ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے تفصیلی نوٹ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ از خود نوٹس کیس اور پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواستیں چار، تین کی اکثریت کے تناسب سے درج ذیل وجوہات کی بناء پر مسترد کی جاتی ہیں، (اول)اس بینچ پر فل کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے استعمال سے متعلق طے شدہ بنیادی اصولوں کی پابندی لازم تھی، (دوئم) عدالت کو اپنی غیر جانبداری کیلئے سیاسی جماعتوں کے مفادات کے معاملات پر احتیاط برتنی چاہیے، (سوئم) عدالت کو سیاسی درخواست گزار کا طرز عمل اور نیک نیتی کا بھی جائزہ لینا چاہیے، جبکہ اس ازخود نوٹس کی کارروائی نے عدالت کو غیر ضروری سیاسی تنازعات سے دوچار کر دیا ہے۔تفصیلی نوٹس جس میں فاضل جج نے قرار دیاہے کہ سیاستدان تومناسب فورم کی بجائے عدالت میں تنازعات لانے سے ہاریا جیت جاتے ہیں، لیکن عدالت دونوں صورتوں میں ہار جاتی ہے، سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی انا ایک جانب رکھ کر اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے،لیکن سپریم کورٹ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ فاضل جج نے قرار دیاہے کہ ملک ایک سیاسی اور آئینی بحران کے دہانے پرکھڑا ہے،اب وقت آگیا ہے کہ تمام ذمہ دار ایک قدم پیچھے ہٹیں اور کچھ خود شناسی کا سہارا لیں، فاضل جج نے قرار دیاہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے درست کہا ہے کہ عدالت کو ازخودنوٹس کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے، سپریم کورٹ کو یکے بعد دیگرے تیسری بار سیاسی نوعیت کے تنازعات میں گھسیٹا گیا ہے،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی رائے سے متفق ہوں، سپریم کورٹ مسلسل سیاسی تنازعات کے حل کا مرکز بنی ہوئی ہے میں نے بھی اپنے مختصر نوٹ میں درخواستوں کے ناقابل سماعت ہونے کے بارے میں بلا ہچکچاہٹ رائے دی تھی، میں جسٹس سید منصورعلی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی تفصیلی وجوہات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں فاضل جج نے قراردیاہے کہ سپریم کورٹ غیرارادی طور پرسیاسی فریقین کو تنازعات کے حل کے لیے عدالتی فورم فراہم کرکے پارلیمنٹ کو کمزور کر رہی ہے،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ اس حوالے سے فل کورٹ تشکیل دینے سے متنازع صورتحال سے بچا جاسکتا تھا، ہر جج نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے، میں نے بھی فل کورٹ بنانیکی تجویز دی تھی تفصیلی نوٹ میں قراردیاگیا ہے کہ عدالت کو سیاسی جماعتوں سے متعلق مقدمات میں ازخود نوٹس اختیار کے استعمال کرنے میں بہت احتیاط برتنی چاہیے۔
جسٹس اطہرمن اللہ کے اس نوٹ سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے ججز اس وقت دو گروپس میں منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ معاملات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ ججز نے ایک دوسرے کے خلاف اپنے تاثرات کے اظہار کو فیصلوں کا حصہ بنانا شروع کر دیا؟ججوں کے درمیان اس اختلاف رائے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب انتخابات سے فرار حاصل کرنے کی خواہاں اتحادی حکومت کے ہاتھ ایک ہتھیار لگ گیا ہے اور اب تمام اتحادی ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ اس اختلافی نوٹ کے بعد چیف جسٹس کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہئے، حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جس طرح اپنے متنازع فیصلوں سے سپریم کورٹ جیسے معزز ادارے کوتقسیم کیا ہے اور اس کو ملک کے سپریم ادارے پارلیمنٹ سے محاذ آرائی کی پوزیشن پر لاکراس ملک اورریاست کو جس طرح کے بحران میں مبتلاکیا ہے اس کاواحدحل اب ان کا استعفیٰ ہے۔مسلم لیگ نون کے کیسز یافتہ قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے جن 3 ججوں نے انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا ہے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جانا چاہئے- انہوں نے کہا کہ اس بینچ میں 2 وہ جج بھی شامل ہیں جنہوں نے ان کو اقتدار سے رخصت کیا تھا-پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے۔ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ سوالیہ نشان ہے۔ نواز شریف نے ٹوئٹ کیاکہ پی ٹی آئی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والا چیف جسٹس مزید تباہی کرنے کے بجائے فی الفور مستعفی ہو جائے۔یہاں تک کہ مریم صفدر نے جنھیں قانون کے ق کا بھی پتہ نہیں کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کی حمایت کیلئے آئین کی کھلم کھلاخلاف ورزی کی،بلاول زرداری نے کہا چیف جسٹس کا فیصلہ اقلیتی ثابت ہوگیا، اے این پی کے ایمل ولی خان نے باقاعدہ دھمکی دی کہ چیف جسٹس نے استعفیٰ نہ دیا تو عید کے بعد تیار رہیں، ہم اسلام آباد آرہے ہیں۔پاکستان میں یہ روایت بڑی پختہ ہوچکی ہے کہ جب کوئی جج کسی ایک سیاسی جماعت کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تو اس کی تعریف کی جاتی ہے اور وہی جج اس جماعت کے خلاف میرٹ پر فیصلہ دے تو اس کی مذمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی- جن تین ججوں نے پنجاب میں انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا ہے یہ جج اس بینچ کا حصہ تھے جس نے عدم اعتماد کی تحریک کے دوران تحریک انصاف کے خلاف فیصلہ دے کر اتحادی جماعتوں کیلئے اقتدار میں آنے کیلئے آئینی راستہ ہموار کیا تھااس وقت ان کا یہ فیصلہ بہت اچھا اور انصاف کی بالادستی کا مظہر تھا لیکن آج کیونکہ اس فیصلے کی زد ان کے اقتدار پر پڑتی نظر آرہی ہے تو اس فیصلے میں کیڑے نکالنے اور اسے متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اورمیڈیا کے بزعم خود سرخیل ان اختلافات کو اپنے اخبارات اور چینل میں ابھارکر عوام کو ملک کی اعلیٰ عدالتوں سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں ججوں کی مجموعی تعداد 17 ہے جبکہ وفاقی شریعت کورٹ کے دو ایڈہاک ججز بھی سپریم کورٹ کا حصہ ہوتے ہیں تاہم فی الحال چیف جسٹس عمر عطا بندیال سمیت سپریم کورٹ میں موجودہ ججوں کی تعداد 15 ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان کے بعد اس وقت سپریم کورٹ میں دوسرے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں۔سپریم کورٹ کے انتظام کو چلانے کے لیے چیف جسٹس کے پاس غیر معمولی اختیارات ہیں۔ وہ پاکستان کی حدود میں کسی بھی معاملے کا نوٹس لے کر کیس شروع کر سکتے ہیں جسے از خود یا سوموٹو اختیار بھی کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ کون سا جج کس کا کیس سنے گا اور کن ججز پر مشتمل بینچ کب تشکیل دینا ہے، ان جیسے کئی انتظامی نوعیت کے فیصلے بھی چیف جسٹس ہی کرتے ہیں۔ از خود نوٹس کا اختیار آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت ہے۔ اس شق کے مطابق سپریم کورٹ کو کسی بھی ایسے واقعے سے متعلق از خود نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہے جو مفاد عامہ کا معاملہ ہو یا پھر کہیں بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہوں۔چہف جسٹس عمر عطا بندیال نے اسی اختیار کے تحت الیکشن میں غیر ضروری تاخیر کا نوٹس لیاتھا اور 9 رکنی بینچ کے 3 رکنی رہ جانے کے باوجود سماعت جاری رکھ کر فیصلہ جاری کردیاتھا، چیف جسٹس کی تشکیل کردہ بینچ کے 2 ججوں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیاتھا۔ ان ججز نے چیف جسٹس کے لیے ’ون مین شو‘ جیسے سخت الفاظ استعمال کیے، ان کے سوموٹو اختیارات پر تنقید کی اور حالیہ مقدمات کے لیے اس حق کے استعمال کو سیاسی نظام میں مداخلت سے تشبیہہ دی۔ چیف جسٹس نے 6 ججوں کی علیحدگی کے بعد رہ جانے والی بینچ کے انتخابات کرانے کے فیصلے کو3-2کا اکثریتی فیصلہ کہا مگر چند سینئر ججز نے کہا کہ نہیں، اس 9 رکنی بینچ سے پیچھے ہٹنے والے 2ججز یعنی جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے اختلافی نوٹ بھی کیس کے حکمنامے کا حصہ بنائے جائیں۔ اس طرح یہ4-3 کا فیصلہ بنے گا اور نتیجہ مختلف ہو گا۔تاہم یہ موقف اختیار کرنے والے جج یہ نہیں بتاتے کہ جن ججوں نے از خود بینچ سے علیحدگی اختیار کی اور مقدمے کی سماعت ہی نہیں کی انھوں نے نہ تو حکومت اور الیکشن کمیشن کے وکلا کا استدلا ل سنا اور نہ ہی اس کے خلاف اپوزیشن یعنی تحریک انصاف کے وکلا کا موقف سنا۔ ان کے ایک اختلاف نوٹ کو فیصلے کا حصہ کس بنیاد پر بنایا جاسکتاہے۔قانون سے شغف رکھنے والے لوگ یہ جانتے ہیں کہ عدالتوں، خاص طور پر سپریم کورٹ، میں بننے والی بینچوں کے ججز کا آپس میں اختلاف رائے عام بات ہے۔ یہ اختلاف حکمنامے کا حصہ ہوتا ہے مگر فیصلہ اکثریت کا تسلیم کیا جاتا ہے۔اسی طرح بینچ ٹوٹنا بھی عام سی بات ہے اور اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، مثلاً کوئی جج کسی بھی وجہ سے بینچ کا حصہ نہیں رہنا چاہتے تو وہ معذرت کر سکتے ہیں۔ قانونی ماہرین ہوں یا سیاسی تجزیہ کار، سب ہی اس صورتحال کو آئینی بحران قرار دے رہے ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ اگر اہم ریاستی اداروں کے سربراہان دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو ملک میں پہلے سے جاری سیاسی پولرائزیشن میں مزید شدت آ سکتی ہے جس سے عوام کا اداروں پر اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں