نہار منہ پانی پینا:طب نبوی ﷺ کیا کہتی ہے؟؟مفتی محمدعمران ممتاز
شیئر کریں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اصل مقصد انسانیت کی رہنمائی اورخالق سے اس کو جوڑنا اور ملانا تھا، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی کے مختلف شعبہ جات کے لیے ایسی ایسی تعلیمات اور ہدایات بیان فرمائی ہیں کہ عقل حیران اور بڑے بڑے دانشور انگشت بدنداں ہیں۔ مثال کے طور پر طب و معالجہ کو لیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جزئیات اور کلیات کو بھی بیان کیا ہے۔ علماءنے”طب نبوی“ کے عنوان سے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، لیکن طب کے سلسلے میں یہ ہدایات وجوب اور لزوم کا درجہ نہیں رکھتیں ، اس میں ہر شخص کے علاقہ اور ماحول کو مدنظر رکھا جائے گا۔ مریض کے اپنے مزاج اور طبیعت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اورسب سے اہم اس طریقہ¿ علاج کو صحیح انداز سے پورا کرنا ہے۔
آج کل یہ بات زبان زد عام ہے کہ نہار منہ پانی پینا جائز نہیں، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مضرات اور نقصانات کی جانب نشاندہی کی ہے، جو شخص نہارمنہ پانی پیتا ہے، وہ حدیث کے خلاف عمل کرتاہے،لہٰذا اس عمل کو جواز اور عدم جواز کے پیمانے میں تولا اور حلال حرام کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے، اس سلسلے میں چند سوالات ذہن میں بیدار ہوتے ہیں:
کیا ذخیرہ¿ احادیث میں ایسی کوئی حدیث موجودہے جس میں نہار منہ پانی پینے کی ممانعت یا اس کے نقصانات کا تذکرہ ہو؟اگرایسی کوئی حدیث موجود ہے توسنداً اس کی کیا حیثیت ہے؟ محدثینِ عظام کے ہاں یہ روایت قابل قبول اور لائق اعتبار ہے یا نہیں؟ کیا اس حدیث مبارک کو مدار بناکر نہار منہ پانی پینے کو ناجائز قرار دیا جاسکتا ہے؟
حدیث شریف میں موجود یہ ممانعت” وجوبی“ ہے یا یہ” نہی“ ارشاد کے قبیل سے ہے ؟ معنی یہ کہ اس حدیث کے خلاف عمل کرنا ناجائز ہے یا یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ایک ترغیب اور مشورہ ہے، جس پر عمل کرنے نہ کرنے کا اختیار ہر انسان کی صواب دید پرمنحصر ہے؟ان روایات کے مدمقابل روایات موجود ہیں یا نہیں؟اگر موجود ہیں تو ان کی سندمضبوط ہے یا کمزور؟
یہ اور اس نوعیت کے سوالات ہر اس شخص کے ذہن میں گردش کرتے ہیں جس کا سامنا اس طرح کے پیغامات سے ہوتا ہے، ان سوالات اور مشکلات کو مدنظر رکھ کر ذیل میں کچھ عنوانات قائم کیے گئے ہیں:
نہار منہ پانی پینے کے نقصان دہ ہونے کے دلائل:
کتبِ حدیث میں نہار منہ پانی پینے کی ممانعت کے سلسلے میں روایات موجود ہیں،روایات اور ان پر تبصرہ ذیل میں ملاحظہ ہو:
۱:…. ” المعجم الاوسط“ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ:” جو شخص نہار منہ پانی پیتا ہے، اس کی قوت کم ہوجاتی ہے۔“
تبصرہ: امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی رحمہ اللہ نے”المعجم الاوسط“ میں اس روایت کو عبد الاول معلم کے تفردات میں سے شمار کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو اس سند کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف عبد الاول معلم نے نقل کیا ہے۔
حافظ نور الدین علی بن ابی بکر ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کے ایک سے زائد راویوں کی جہالت کی بنا پر ان کی پہچان سے انکاری ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں ایسے مجہول راوی ہیں ،جنہیں میں نہیں جانتا۔
حافظ ابن عساکر علی بن حسن رحمہ اللہ نے اس روایت کی غرابت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: اس روایت کا متن اور سند دونوں غریب ہیں۔
علامہ اسماعیل بن محمد عجلونی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”کشف الخفائ“ میں لکھتے ہیں کہ اس روایت کی سند کمزور ہے۔
۲:…. امام طبرانی رحمہ اللہ کی”المعجم الاوسط“ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت انہی الفاظ کے ساتھ منقول ہے۔
تبصرہ: امام طبرانی رحمہ اللہ نے اس روایت پریہ تبصرہ کیا ہے کہ اس حدیث کو زید بن اسلم سے صرف ان کے بیٹے عبدالرحمن نے نقل کیا ہے۔
حافظ نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کومحمد بن مخلد الرعینی کی وجہ سے ضعیف قرار دیاہے۔
علامہ عجلونی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
۳:….علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ:” نہار منہ پانی پینا چربی بڑھاتا ہے۔“
تبصرہ: یہ روایت موضوع ہے،علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے سند بیان کرنے کے ضمن میں اس کے راوی عاصم بن سلیمان عبدی کے متعلق فرمایا ہے کہ:” یہ حدیثیں گھڑتا تھا، میں نے اس جیسا شخص کبھی نہیں دیکھا ،یہ ایسی ایسی حدیثیں بیان کرتا ہے جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی۔“
اس روایت کو گھڑنے کی ممکنہ وجہ اور سبب پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں کہ : ”مجھے اس بات کا بہت ڈر ہے کہ اس حدیث کو گھڑنے والے شخص کا مقصد شریعت کے ساتھ برائی کا ارادہ ہے، ورنہ پانی میں کیا خصوصیت ہے جو وہ چربی بڑھائے!“
علامہ ابو الفضل محمدبن طاہر مقدسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:” اس روایت میں عاصم بن سلیمان کوزی ہے، جو موضوع روایتیں بیان کرتا ہے، اس کی حدیث لکھنا حلال نہیں۔“
۴:…. امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: چار چیزیں بدن کو کمزور کرتی ہیں: کثرتِ جماع، غموں کی زیادتی، نہار منہ پانی پینے کی کثرت اور کھٹی چیزیں زیادہ کھانا۔
۵:…. مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ”بہشتی زیور“ میں لکھتے ہیں کہ: ”سوتے اُٹھ کر فوراً پانی نہ پیو اور نہ یکلخت ہوا میں نکلو، اگر بہت ہی پیاس ہے تو عمدہ تدبیر یہ ہے کہ ناک پکڑ کر پانی پیو اور ایک ایک گھونٹ کرکے پیو اور پانی پی کر ذرا دیر تک ناک پکڑے رہو، سانس ناک سے مت لو، اسی طرح نہار منہ نہ پینا چاہیے۔“
نہار منہ پانی پینے کے بے ضرر ہونے پر دلائل
۱:…. امام طبرانی رحمہ اللہ نے”کتاب الدعائ” میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ: ” جس شخص کو اس بات سے خوشی ہو کہ اللہ تعالیٰ اُسے قرآن کریم اور دیگر مختلف علوم یاد کرانے کے قابل بنائے، اُسے چاہیے کہ وہ یہ دعا ایک صاف برتن یا شیشے کی پلیٹ میں شہد ، زعفران اور بارش کے پانی سے لکھ کر اُسے نہار منہ پئے، تین دن روزہ رکھے اور اسی پانی سے افطار کرے، ان شاءاللہ! وہ قرآن اور دیگر علوم یاد کرلے گا، اور یہ دعا ہر فرض نماز کے بعد پڑھے، وہ دعا یہ ہے :” ا¿للّٰہم Êنی ا¿سا¿لک با¿نک مسﺅل لم یسا¿ل مثلک ولا یسا¿ل الخ۔“
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ”اللآلی المصنوعة“ میں اور حافظ ابن عراق نے”تنزیہ الشریعة“ میں اسے موضوع قرار دیا ہے۔
۲:…. نہار منہ شہد ملا پانی پینے کی روایت:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہار منہ شہد ملا پانی پیتے تھے۔
حافظ ا بن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:” شہد کو نہار منہ پینا اور چاٹنا بلغم ختم کرتا ہے، معدہ کے اندرونی حصہ کو صاف کرتا ہے ، اس کی چکنائی کو تازگی بخشتا ہے اور اس سے فضلات کو دور کرتا ہے۔“۳:…. وضو کا بچا ہوا پانی پینے والی روایت:صحیح بخاری اور دیگر حدیث کی کتب میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایتیں موجود ہیں کہ نبی کریم وضو کے بعد بچے ہوئے پانی کو پی لیتے تھے۔ان احادیث میں تہجد اور فجر کی نماز کے لیے وضو کرتے وقت بچے ہوئے پانی کو نہ پینے کی قید یا ممانعت موجود نہیں، اس وقت انسان نہار منہ ہوتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ نہار منہ پانی پینے میں کوئی قباحت نہیں۔۴:…. اطباءکا موقف:دورِ حاضر کے کئی طبیبوں اور ڈاکٹروں نے نہار منہ پانی پینے کے کئی فوائد گنوائے ہیں۔
ضعیف روایت کا حکم:ضعیف روایت کا حکم یہ ہے کہ اس سے شریعت کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا، تاہم یہ فضائل کے ابواب میں قابل قبول ہے، البتہ اس پر عمل کرنے کی تین شرائط ہیں۔۱:…. اس روایت کا ضعف شدید اور انتہائی درجہ کا نہ ہو، اسی وجہ سے اگر کسی روایت میں جھوٹا ، متہم بالکذب یا واضح غلطیاں کرنے والا راوی منفرد ہو تو وہ روایت اس حکم سے خارج ہے۔۲:…. وہ حکم شریعت کے کسی مسلمہ کلی اصل کے تحت داخل ہو، لہٰذا اگرکوئی روایت ایسی ہے جس کی کوئی اصل نہ ہو تواسے فضائل کے ابواب میں بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔۳:…. فضائل کے ابواب میں ضعیف روایت کو قبول کرنے کے باوجود احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عمل کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھا جائے، کیوں کہ اس روایت کے ثبوت میں ایک قسم کا شبہ ہے، ممکن ہے کہ یہ حدیث ثابت نہ ہو، اب اگر یقینی طور پر یہ اعتقاد رکھا گیا کہ یہ عمل ثابت ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ایک ایسا عمل منسوب ہوجانے کا خطرہ ہے جو انہوں نے نہیں کیا۔
خلاصہ:
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نہار منہ پانی پینے کی ممانعت سے متعلق روایات سنداًضعیف یا موضوع ہیں، احتیاطاً اس حکم کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھے۔ بعض عمومی روایات سے نہار منہ پانی پینے کا ثبوت ملتا ہے،اس لیے اس مسئلے کوجائز و ناجائز اور حلال و حرام سے جوڑنا درست نہیں، بلکہ یہ ایک طبی مسئلہ ہے، جس میں اطباءکی آراءبھی متضاد نظر آتی ہیں، لہٰذا جس شخص کو پیاس لگی ہو اور اُسے نہار منہ پانی پینے کی ضرورت ہو تو وہ پی لے، لیکن اگر ڈاکٹر یا طبیب نے اُسے نہار منہ پانی پینے سے منع کیا ہے تو وہ نہ پئے۔