میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وعدہ کی اہمیت…قرآن و حدیث کی روشنی میں

وعدہ کی اہمیت…قرآن و حدیث کی روشنی میں

جرات ڈیسک
جمعه, ۱۰ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی

دین اسلام میں وعدہ کی اہمیت کو قرآن و حدیث میں انتہائی فصاحت و بلاغت سے بیان کیا گیا ہے،وعدہ خلافی ہمارے معاشرہ میں سرایت کرچکا ہے،ہمیں اس طرف توجہ کر نے کی ضرورت ہے،اسلام نے ہمیں ہر طرح کی زندگی گزارنے کا درس دیتا ہے، اسلام کی بے شمار بہترین صفات میں سے ایک صفت ایفائے عہد یا وعدے کی پابندی بھی ہے۔ وعدہ کی پابندی ایک مسلمان کے دیگر فرائض میں سے ایک بڑا فرض ہے۔اگر کوئی انسان وعدہ کی پابندی کی صفت سے خالی ہے تووہ انسانیت کے شرف سے ہی عاری سمجھا جاتا ہے۔ایفاء کے معنی ہیں پوراکرنا،مکمل کرنا،عہدایسے قول اورمعاملے کوکہاجاتاہے جوکہ طے ہویعنی کہ ایفائے عہد‘‘وعدہ پورا کرنا’’اپنے قول کونبھانا، اس پرقائم رہناہے۔وعدہ اورعہدکی پابندی کرناایفائے عہدمیں شامل ہے،وعدہ کی تکمیل نہ کرنے سے آدمی کااعتباراُٹھ جاتاہے اعتباراور اعتماد کے بغیرخوش گوارمعاشرتی زندگی گزارنا محال ہے۔ آج ہمارے انسانی معاشرے میں جو خرابیاں رواج پا رہی ہیں، ان میں ایک بڑی خرابی جس نے معاشرے کو بے سکونی اور بے اطمینانی کی کیفیت سے دوچار کیا ہوا ہے،وہ وعدہ خلافی ہے لوگ معاہدوں کو اہمیت نہیں دیتے، وعدہ خلافی عام معمول بن چکا ہے،تمام باہمی معاملات بالخصوص تجارت میں بدعہدی کی وبا اس قدر پھیل چکی ہے کہ ہر شخص اس میں مبتلا نظر آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں تنازعات اور لڑائی جھگڑے بڑھ رہے ہیں، باہمی میل جول اور محبت و الفت کی جگہ رنجشیں کدورتیں اور عداوتیں جنم لی رہی ہیں۔آج کی دنیا میں تجارت و معیشت میں ایفائے عہد، وعدے کی تکمیل کو پورا کرنا ایک بنیادی ضرورت اور تجارت و معیشت کے استحکام کی ضمانت ہے کاروباری معاہدوں پر گویا تجارت و معیشت کی کامیابی کا انحصار سمجھا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس لحاظ سے انسانیت کی اسلام نے سب سے زیادہ رہنمائی کی ہے، اسلام کی تعلیمات اورحضورﷺ کا اُسوہ حسنہ ہمارے لیے نمونہ ہے، آپﷺ کی سیرتِ طیبہ کا ایک روشن و درخشاں باب دیانت و امانت ہے،آپﷺ نے اسلام سے قبل ایک دیانت دار تاجر کی حیثیت سے خوب شہرت حاصل کی۔ قریش مکہ میں آپﷺ صادق و امین کے طور پر مشہور تھے۔ اللہ تعالیٰ اشاد فرماتے ہیں اور اپنے عہد کو جب وہ عہد کرلیں پورا کرنے والے ہیں (سورۃالبقرہ)۔ ایک مقام پر فرمایا گیا‘‘اور جو اپنی امانتوں اور عہد کا پاس رکھنے والے ہیں’’ (سورۃالمعارج) ‘‘سُورۃ النحل’’ میں انتہائی وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا اور اللہ کا نام لے کر جب تم باہم عہد کرلو تو اسے پورا کرو، اور قسموں کو پکی کرکے توڑا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ کو تم نے اپنے اوپر ضامن ٹھہرایا ہے۔ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ جانتا ہے خود اللہ تعالیٰ نے اپنی نسبت پر یہ فرمایا ہے ‘‘بے شک اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا(سورہ آل عمران)۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا ‘‘سچا اور امانت دار تاجر انبیاؑء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا’’(ابن ماجہ/السنن)حضرت زید بن ارقم ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا جب کوئی شخص اپنے بھائی سے وعدہ کر لے اور اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا، مگر نہ کر سکے اور وعدے پر نہ پہنچ سکا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں(سنن ابی داؤد) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص وعدے کی پاس داری نہیں کرتا،وہ دین داری کے اعتبار سے بہت کمزور ہے۔(سنن الکبریٰ للبیہقی)حضرت عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا چار (عادات و صفات) جس شخص میں ہوں،وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان صفات میں سے ایک صفت ہوتو اس میں نفاق اسی کے بقدر ہے، یہاں تک کہ وہ اس (عادت) کو چھوڑ دے۔جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کریاور جب کوئی جھگڑا وغیرہ ہوجائے تو گالی گلوچ پر اتر آئے(صحیح بخاری) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔دیگر متعدد احادیث میں بھی وعدہ پورا کرنے کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور وعدہ خلافی کو سخت گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت انسؓ کی یہ روایت بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ نبی اکر م ﷺنے خطبہ دیا ہو اور یہ نہ فرمایا ہو،اس کا دین دین نہیں جسے عہد کا پاس و لحاظ نہ ہو’’ (احمد ابن حسین البیہقی، السنن الکبریٰ، الکتب العلمیہ، بیروت 1999 ، ج 6 ، ص 471) حقیقت یہ کہ ایفاے عہد کے باب میں بھی نبی کریم ﷺکا اسوہ مبارکہ مثالی رہا ہے۔ آپؐ پوری زندگی سچا ئی، ایفاے عہد اور امانت داری کا مظاہرہ بلاکسی امتیاز سب کے ساتھ کرتے رہے۔
غزو ہ بدر کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے مسلم فوجیوں کی تعداد میں کمی گوارا کر لی لیکن کفار مکہ(جنھوں نے دوصحابیوں کو پکڑنے کے بعد اس شرط پر رہا کیا تھا کہ وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد جنگ میں شریک نہ ہوں گے) سے کیے گئے وعدے کو توڑنا گوارا نہ کیا۔ ان دونوں صحابہ ؓ کو غزوہ میں شرکت کی اجازت نہ دی اور یہ کہہ کر انھیں واپس بھیج دیا کہ ہم کو صرف اللہ کی مدد درکا رہے (بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حراً) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد تھے جب آپ ﷺ نے فتنہ کا ذکر کیا۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا جب تم لوگوں کو دیکھو ان کے عہد، وعدے خراب ہوگئے ہیں ان کی امانتیں کم ہوگئی ہیں اور وہ اس طرح ہوجائیں آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کیا یعنی ان کے معاملات خلط ملط ہوجائیں گے (عبداللہ بن عمرو) بیان کرتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا تو عرض کی، اللہ تعالیٰ مجھے آپ ﷺ پر قربان کرے، ان حالات میں کیا کروں؟ فرمایا اپنے گھر میں رہو، زبان کو قابو میں رکھو، جو جانتے ہو لے لو اور جو احکام نہیں جانتے ہو اسے چھوڑ دو اور تم خصوصی طور پر اپنے ذمہ دار ہو اور عام لوگوں کے معاملہ کو اپنے ذمہ نہ لو(سنن ابی داؤد، جلد سوئم کتاب الملاحم:4343)اللہ تعالیٰ ہمیں وعدہ کی تکمیل کر نے کی توفیق نصیب فرمائے اور جناب نبی کریمﷺکے بتائے گئے احکامات پر عمل کر نے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں