میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پڑوسیوں کے حقوق شریعت اسلام کی نظر میں

پڑوسیوں کے حقوق شریعت اسلام کی نظر میں

جرات ڈیسک
جمعرات, ۱۱ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

مفتی محمد وقاص رفیع

اسلام ایک سچے دین اور ایک مکمل ضابطہئ حیات کا نام ہے۔ اُس نے انسان کی معاشرتی زندگی کے لئے ایسی روشن تعلیمات اور ایسے سنہری اُصول مقرر فرما رکھے ہیں کہ دُنیا کا کوئی بھی انصاف پسند اور ذی عقل شخص یا مذہب فطری طور پر نہ اُن کو جھٹلا سکتا ہے اور نہ ہی اُن سے سر مو اختلاف کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ اسلام نے صرف مذہب اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کی رعایت و پاس داری کا سبق نہیں دیا بلکہ اُس نے مذہب اور مسلک کی آڑ سے الگ ہٹ کر انسانی فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے دُنیا بھر کے تمام دیگر ادیان و مذاہب، اُن کے پیرو کاروں اور اُن کے ماننے والوں کے حقوق کی پاس داری اور ان کی رعایت کرنے کا بھی ہمیں درس دیا ہے۔ چنانچہ اسلام کی ان روشن تعلیمات اور اُس کے ان سنہری اُصول و ضوابط پر اگر مکمل طور پر عمل در آمد کیا جائے تو یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ تمام دُنیا عافیت و سلامتی کا گہوارہ اور امن و امان کا شہ پارہ بن جائے۔مثال کے طور پر آپ انسانی معاشرتی زندگی کا صرف یہ ایک پہلو ”ہم سایہ اور پڑوس“ ہی کولے لیں اوراسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے حقوق کی رعایت و پاس داری کا مطالعہ فرمائیں اور دیکھیں کہ اس نے اپنی روشن تعلیمات اور اپنے سنہرے اُصول و قواعد کی رُوشنی میں اس کے حقوق کو کس طرح اجاگر کیا ہے؟
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اُس کو چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے اور اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور زبان سے کوئی بات نکالے تو بھلائی کی نکالے ورنہ چپ رہے“۔ (صحیح بخاری:6018، صحیح مسلم: 47)
گویا پڑوسی کے حق کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ بتلایا کہ اس کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچائے اور یہ اُس کا بہت ہی ادنیٰ درجہ کا حق ہے، ورنہ دوسری روایات میں پڑوسی اور ہم سایہ کے حق کے متعلق بہت زیادہ تاکیدیں وارد ہوئی ہیں۔چنانچہ ایک مرتبہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ: جانتے ہو کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ (اور پھر خود ہی ارشاد فرمایا کہ) اگر وہ تجھ سے مدد چاہے تو اُس کی مدد کر، اگر قرض مانگے تو اُس کو قرض دے، اگر محتاج ہو تو اُس کی اعانت کر، اگر بیمار ہو تو اُس کی عیادت کر، اگر مرجائے تو اُس کے جنازے میں شریک ہو، اگر اُس کو خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دے، اگر اُس کو مصیبت پہنچے تو تعزیت کر، بغیر اُس کی اجازت کے اُس کے مکان کے پاس اپنا مکان اُونچا نہ کر کہ جس سے اُس کی ہوا رُک جائے، اگر تو کوئی پھل خریدے تو اس کو بھی ہدیہ دے، اور اگر یہ نہ ہوسکے تو اُس پھل کو ایسی طرح پوشیدہ گھر میں لا کہ وہ نہ دیکھ سکے اور اُس کو تیری اولاد باہر لے کر نہ نکلے تا کہ پڑوسی کے بچے اس کو دیکھ کر رنجیدہ نہ ہوں، اور اپنے گھر کے دُھویں سے اُس کو تکلیف نہ پہنچا مگر اُس صورت میں کہ جو پکاوے اُس میں سے اُس کا بھی حصہ نکالے۔ (پھر فرمایا) تم جانتے ہو کہ پڑوسی کا کتنا حق ہے؟ قسم ہے اُس پاک ذات کی کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اُس کے حق کو اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا جس پر اللہ رحم کرے۔“(فتح الباری: ج 10ص446)
ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ”اللہ کی قسم مؤمن نہیں ہے، اللہ کی قسم مؤمن نہیں ہے، اللہ کی قسم مؤمن نہیں ہے۔“ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! کون؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ شخص کہ جس کا پڑوسی اُس کی مصیبتوں سے مامون نہ ہو۔“(صحیح بخاری: 6016)
ایک اور حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں وہ شخص داخل نہ ہوگا جس کا پڑوسی اُس کی مصیبتوں سے مامون نہ ہو۔“(صحیح مسلم:46)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حضرت جبریل علیہ السلام مجھے پڑوسی (کے حقوق کا خیال رکھنے)کے بارے میں اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ پڑوسی کو وارث بنا کر چھوڑیں گے۔“ (صحیح بخاری: 6014)
اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ترجمہ: تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو،اور اپنے والدین اور رشتہ داروں اور یتیموں اور غریبوں اور قریب والے پڑوسی اور دور والے پڑوسی اور اپنے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا معاملہ کرو۔“ (سورۃ النساء:36)
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:(مطلب یہ ہے کہ)ہر ایک کا حق درجہ بدرجہ تعلق کے موافق اور حاجت مندی کے مناسب ادا کرو! سب سے مقدم اللہ تعالیٰ کا حق ہے، پھر ماں باپ کا، پھر درجہ بدرجہ سب واسطہ داروں اور حاجت مندوں کا، اور ہم سایہ قریب اور غیر قریب سے مراد قرب و بعد نسبی ہے یا قرب و بعد مکانی۔ صورتِ اولیٰ میں مطلب یہ ہوگا کہ ہم سایہ قرابتی کا حق ہم سایہ اجنبی سے زیادہ ہوگا۔ اور صورتِ ثانیہ کا مدعا یہ ہوگا کہ پاس کے ہم سایہ کا حق ہم سایہ بعید (یعنی جوکہ فاصلہ سے رہتا ہے اس)سے زیادہ ہے۔اور پاس بیٹھنے والے میں رفیق سفر اور پیشہ کے اور کام کے شریک اور ایک آقا کے دو نوکر اور ایک استاد کے دو شاگرد اور دوست اور شاگرد اور مرید وغیرہ سب داخل ہیں۔ اور مسافر میں مہمان غیر مہمان دونوں آگئے۔ اور مال مملوک غلام اور لونڈی کے علاوہ دیگر حیوانات کو بھی شامل ہے۔ آخر میں فرمادیا کہ جس کے مزاج میں تکبر اور خود پسندی ہوتی ہے کہ کسی کو اپنے برابر نہ سمجھے اپنے مال پر مغرور اور عیش میں مشغول ہو وہ ان حقوق کو ادا نہیں کرتا سواس سے احتراز رکھو اور جدا رہو۔“ تفسیر عثمانی:ص 108)
جیساکہ عرض کیا گیا کہ پاس والے پڑوسی سے مراد یہ ہے کہ اُس کا مکان قریب ہو اور دُور والے پڑوسی سے مراد یہ ہے کہ اُس کا مکان دُور ہو، تو اس سلسلے میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ: ”پڑوس کہاں تک ہے؟“آپؒ نے فرمایا کہ: ”چالیس مکان آگے کی جانب اور چالیس پیچھے کی جانب، چالیس دائیں جانب اور چالیس بائیں جانب۔“ (الادب المفرد:109)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مختلف طریق سے نقل کیا گیا ہے کہ پاس کا پڑوسی وہ ہے جس سے قرابت ہو اور دُور کا پڑوسی وہ ہے جس سے قرابت نہ ہو۔“ حضرت نوف شامی رحمہ اللہ سے نقل کیا گیا ہے کہ قریب کے پڑوسی سے مراد مسلمان پڑوسی ہے اور دُور کے پڑوسی سے مراد یہود و نصاریٰ اور غیر مسلم پڑوسی ہیں۔“ (الدرالمنثور التفسیر بالماثور: ج 02ص529)
ایک حدیث میں آتا ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”پڑوسی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ پڑوسی کہ جس کے تین حق ہوں: (۱) پڑوس کا حق (۲) رشتہ داری کا حق (۳) اور اسلام کا حق۔ دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوں: (۱) پڑوس کا حق (۲) اور اسلام کا حق۔ تیسرا وہ پڑوسی کہ جس کا ایک حق ہو: (۱) وہ غیر مسلم پڑوسی ہے۔“ امام غزالی رحمہ اللہ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ: ”دیکھو! اس حدیث میں محض پڑوسی ہونے کی وجہ سے کافر کا حق بھی مسلمان پر قائم فرمایا ہے۔“ (احیاء علوم الدین: ج 02 ص 212)
ایک مرتبہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نے (آپؓ کی) ایک بکری ذبح کی۔ آپؓ نے اُس سے فرمایا کہ: ”جب اس کی کھال اُتار چکو تو سب سے پہلے اس کے گوشت میں سے میرے یہودی پڑوسی کو دینا،سب سے پہلے اس کے گوشت میں سے میرے یہودی پڑوسی کو دینا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: ”حضرت جبریل علیہ السلام مجھے پڑوسی (کے حقوق کا خیال رکھنے)کے بارے میں اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ پڑوسی کو وارث بنا کر چھوڑیں گے۔“(الادب المفرد: 105)
حضرت علقمہ بن بجالہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: ”(بھلائی وغیرہ کی ابتداء) نزدیک کے پڑوسی کو چھوڑ کر دُور کے پڑوسی سے نہیں کرنی چاہیے، بلکہ دُور کے پڑوسی کو چھوڑ کر نزدیک کے پڑوسی سے کرنی چاہیے!“ (اس لئے کہ ایسا کرنا نزدیک والے پڑوسی کے لئے (اُس کے حق میں حسن سلوک کا) دروازہ بند کرنے کے مترادف ہے) (الادب المفرد:110)
حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: ایک زمانہ یا ایک وقت ہم پر وہ بھی آیا تھا کہ ایک شخص اپنے درہم و دینا ر کا حق دار اپنے مسلمان بھائی سے زیادہ کسی اور کو نہ سمجھتا تھا، اور وہ وقت آگیا ہے کہ درہم ودینار ہمارے نزدیک مسلمان بھائی سے زیادہ محبوب ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ”بہت سے لوگ قیامت کے دن اپنے پڑوسی کی وجہ سے لٹکے رہیں گے۔ پڑوسی کہے گا: ”اے میرے پروردگار! یہ شخص میرے لئے اپنا دروازہ بند رکھتا تھا اور مجھے اپنے حسن سلوک سے محروم کردیا کرتا تھا۔(الادب المفرد:111)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ”وہ شخص مسلمان نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اُس کا پڑوسی بھوکا رہے۔“ (الادب المفرد:112)
حضرت ابوذر غِفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے محبوب حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی نصیحت فرمائی (جن میں سے ایک یہ تھی کہ) جب میں شوربہ (والا سالن) پکاؤں اور اُس میں پانی زیادہ ہوجائے تو اپنے اڑوس پڑوس کے گھروں کو دیکھ لوں اور اُن کو بھی دے دوں ……“(الادب المفرد:113)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے حق میں بہتر ہو۔“(الادب المفرد:115)
حضرت نافع بن عبد الحارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نیک پڑوسی کا مل جانا مسلمان بندے کی خوش قسمتی ہے۔“(الادب المفرد:116)
ایک اور حدیث میں آتا ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت اُس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تک کہ لوگ اپنے پڑوسی کو قتل نہ کرنا شروع کردیں گے……“ (الادب المفرد:118)
مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ بغداد میں ابودلف شاعرکے ایک پڑوسی پر گراں بار قرض آپڑا جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر کوبیچنے پر مجبور ہوگیا،لوگوں نے اس سے مکان کا بھاؤ کیاتو اس نے دوہزار اشرفیاں مانگیں،لوگوں نے اس سے کہا کہ:”تیرامکان صرف پانچ سو اشرفیوں کی قیمت کاہے“ تو اس نے کہا:”ابودلف کا پڑوس ایک ہزار پانچ سو شرفیوں کے برابر ہے“ ابودلف کوجب یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے اس کے قرض چکادینے کاحکم دیااور کہاکہ نہ تواپناگھر فروخت کر اور نہ ہی ہمارے پڑوس سے منتقل ہو۔(العقد الفرید لابن عبد ربہ: ج 01 ص 72)
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں