عزم استحکام پر کل جماعتی کانفرنس اور حکومت کا رویہ
شیئر کریں
وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور ان کی اتحادی جماعتوں نے آپریشن عزم استحکام کے بارے میں کسی حتمی فیصلے سے قبل تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے کل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے پر اتفاق کیا ہے،جس میں وزیر اعظم آپریشن عزم استحکام اور نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں ایپکس کمیٹی میں ہونے والے فیصلوں سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔اس امر میں کوئی رائے نہیں کہ جنرل ضیا کے منحوس دور حکومت میں امریکہ سے ڈالر لے کر اپنے بینک اکاؤنٹ بھرنے کی خواہش کے تحت دنیا بھر کے جنگجوؤں کو پاکستان بلاکر تربیت دی گئی اور پاک فوج کے تربیت یافتہ یہ جنگجو روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد دہشت گردوں کا روپ دھار گئے،جس سے پاکستان میں منشیات، اسلحہ اور دہشت گردی کو فروغ ملا اور اسی وقت سے پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے،اور اب دہشت گردی کا یہ سلسلہ ایک ناسور بنتا جارہاہے جسے جتنی جلدی اکھاڑ پھینکا جائے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان اور بحیثیت مجموعی پوری دنیا کیلئے اچھا ہوگا،حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کوپرامن جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے صرف دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف نہیں بلکہ انتہا پسندی کے کینسر کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان کو دنیا میں بطور ایک مہذب اور پرامن ملک بنانے کے لیے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ لازم ہو چکا ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے بھی کہا ہے ہماری جماعت وزیراعظم کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرے گی کیونکہ عزم استحکام آپریشن ملکی معاملہ ہے،البتہ آل پارٹیز کانفرنس میں صرف سننے کی حیثیت میں شرکت کریں گے، اے پی سی میں شرکت کا فیصلہ صرف پاکستان کی خاطر کیا ہے۔انھوں نے اس کے ساتھ ہی یہ واضح کردیاہے کہ افغانستان سے تعلقات مضبوط نہ ہونے تک ہم ٹی ٹی پی سے جنگ نہیں جیت سکتے،ہم طالبان کے خلاف آپریشن کریں گے وہ افغانستان بھاگ جائیں گے۔ پی ٹی آئی کے بانی کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہونے کا عندیہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ دہشت گردی کے ناسور کے خلاف ہیں اور اس کو ختم کرنے کی کوششوں میں غیر مشروط طورپر ساتھ دینے کو تیار ہیں۔تحریک انصاف کے سربراہ کی جانب سے حکومت کی جانب سے بلائی جانے والی کل جماعتی کانفرنس میں شرکت پر رضامندی سے ظاہرہوتاہے کہ تحریک انصاف کے بانی مسلسل بلا جواز اسیری کے باوجود ملک کی سلامتی اور بقا کے مسئلہ پر سیاست چمکانا نہیں چاہتے، ان کے اس فیصلے کا ملک کے محب وطن اور سنجیدہ حلقوں کی طرف سے یقینا خیر مقدم کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ ایک اہم قومی مقصد کے حصول کی خاطر مثبت سمت میں خوش آئند اقدام ہے، تاہم ہمارے خیال میں اس کانفرنس کو آپریشن، عزم استحکام بارے یک طرفہ بریفنگ تک محدود نہیں رکھاجانا چاہئے بلکہ اس موقع پر ایک بامقصد مشاورت کو یقینی بنایا جانا چاہئے اور اس مشاورت ہی کی روشنی میں آپریشن کے رد و قبول یا ترمیم کا فیصلہ اختلافی نقطہ نظر کو بھی توجہ سے سننے کے بعد کیا جانا چاہئے کیونکہ حکومت نے جب سے اس آپریشن عزم استحکام کے آغاز کا عزم ظاہر کیا ہے ملک کی بہت سی سیاسی جماعتوں اور سنجیدہ قومی حلقوں کی جانب سے آپریشن سے متعلق تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اہم قومی سیاسی جماعتوں جماعت اسلامی،پاکستان تحریک انصاف، جمعیت العلما اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی نے آپریشن کے خیال سے اختلاف کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول اور قومی مفاد کے منافی قرار دیا ہے۔ اس پس منظر میں حکومت کا کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اس کانفرنس میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی تمام قومی جماعتوں کو مدعو کیا جائے اور سب کی رائے کو سنا بھی جائے اور انھیں اہمیت بھی دی جائے اور معاملے کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی غور و فکر کے بعد وہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے جو قومی امنگوں سے ہم آہنگ بھی ہو اور جسے پوری قوم کی تائید و حمایت بھی حاصل ہو کیونکہ عوام کی حمایت اور پشت پناہی کے بغیر ایسے کسی آپریشن کی کامیابی اور مطلوبہ مقاصد کا حصول مشکل ہو گا یہ بات یقینا خوش آئند ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے حکومت کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملکی مسئلہ ہے، ملک کی خاطر وہ اس میں شرکت کریں گے۔ وزیراعظم کو بذات خود اس کی پزیرائی کرنی چاہئے اور اپنے مسخرے وزیر اطلاعات کو اس حوالے سے طنزیہ گفتگو کرنے سے سختی سے روک دینا چاہئے۔ مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کو شدت پسندی کے خلاف فوجی آپریشن عزم استحکام پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپسی پر کرنا تھا۔ تاہم وزیراعظم کی واپسی کے بعد ابھی تک سرکاری میڈیا یا حکومت کے کسی نمائندے کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے جس سے آل پارٹیز کے بارے میں خود وزیراعظم کی نیت پر شکوک وشہبات پیداہورہے ہیں۔ جبکہ امر واقع یہ ہے کہ عسکریت پسند پھیلتے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے گزشتہ ماہ خیبر پختون خوا کے 9اضلاع میں دہشت گردی کے حملے ہوئے۔ اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز(پی آئی پی ایس)کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جون میں پاکستان میں 27دہشت گرد حملے ریکارڈ کیے گئے، ان حملوں میں سے31خیبرپختونخوا اور6 بلوچستان میں رپورٹ ہوئے، جبکہ پچھلے ماہ ان حملوں کی تعداد36تھی۔خیبرپختونخوا میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملے عسکریت پسند گروپوں کا سب سے بڑا ہدف رہے ہیں۔پی آئی پی ایس نے جون کے لیے اپنی ماہانہ سیکورٹی جائزے رپورٹ میں بتایا کہ جون میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر مقامی طالبان گروپوں نے خیبرپختونخوا میں 21دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی، اور یہ تعداد پچھلے مہینے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جون 2024 کے دوران، بلوچستان میں دہشت گردی کے کل 6واقعات ہوئے۔ان حالات میں اگرچہ دہشت گردوں کے خلاف ایک مربوط وتکمیلی مہم کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں تاہم ماضی کے بعض تلخ تجربات اور رویوں کے باعث اس کی عوامی نمائندوں اور متاثرہ اضلاع کے عوام کی جانب سے مخالفت دور کرنا اور کانفرنس کے انعقاد کے لئے راہ ہموار کرنے کی ذمہ داری حکومت کو احسن طریقے سے پوری کرنی چاہئے لیکن بجائے اس کے کہ پی ٹی آئی کے اسیر رہنما کی جانب سے ملکی مفاد کی خاطر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کی جماعت کی اس میں شمولیت کے عندیہ کا خیر مقدم کیا جاتا وفاقی وزیر اطلاعات کا منفی بیان حیران کن ہے جس سے یہی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کو پی ٹی آئی کے اسیر قائد کے مثبت طرز عمل کی نہ صرف قدر نہیں بلکہ وہ طنز بھرے بیان سے بالواسطہ طورپر تحریک انصاف کے وفد کی
شمولیت کو بھی خطرے میں ڈالنے کیلئے کوشاں ہیں جبکہ وسیع تر قومی مفاد میں تحریک انصاف کی آمادگی کے اعلان پر اطمینان کا اظہار کرنا اور اس کا خوش دلی سے خیر مقدم کرنا ہی ماحول کو ساز گار بنانے کا تقاضا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں بانی پی ٹی آئی کی جانب سے کسی حکومتی مشاورتی عمل میں شرکت کا اعلان ملکی سیاسی صورتحال میں اہمیت کا حامل ہے جسے ممکنہ پیشر فت سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے اس سے کسی کو انکار نہیں کہ حکومت اور حزب اختلاف میں اختلافات کی جو خلیج حائل ہے ملکی صورتحال پر ہر لحاظ سے اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں سیاسی بے یقینی اور جمہوری نظام پر پڑنے والی پرچھائیوں سے مجموعی ملکی صورتحال ہی متاثر نہیں ہو رہی ہے بلکہ بین الاقوامی دنیا سے معاملات میں بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے چین کی طرف سے تو اسے باقاعدہ الفاظ کی شکل دی گئی اور گھر کے معاملات کی درستگی کا مشورہ بھی دیا گیا بہرحال بانی پی ٹی آئی کی جانب سے حسب روایت سخت موقف اختیار کرنے کی بجائے اے پی سی میں شمولیت پر آمادگی کا اظہار ایک اچھا اور مثبت طرز عمل کا مظاہرہ ہے ضروری ہے کہ حکومت بھی اس حوالے سے اپنے حصے کا کردار دوقدم آگے بڑھ کر ادا کرے اور مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس کا جلد اعلان کرکے اس کا انعقاد یقینی بنائے۔اس کے ساتھ ہی افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ با معنی بات چیت کرنا بھی ضروری ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کو بھی اس حقیقت کا احساس و ادراک ہونا چاہئے کہ خود افغانستان کے بھی مفاد میں ہے کہ دہشت گرد گروہ افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنائیں، وہاں سے ہمسایہ اسلامی مملکت کے اندر تخریب کاری کے مرتکب ہوں اور پھر واپس افغانستان پہنچ کر اپنے مراکز میں پناہ حاصل نہ کر یں ٹی ٹی پی راتوں رات پیدا نہیں ہوئی۔ افغانستان میں شورش 40سال سے زیادہ تک جاری رہی اور ٹی ٹی پی افغانستان کی مجموعی صورتحال کا ایک شاخسانہ ہے۔ ٹی ٹی پی کے لوگ طالبان کی ایک ذیلی شاخ کے طور پر امریکہ مخالف جہاد میں متحرک رہے۔ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ طالبان آج ٹی ٹی پی کو بے یارومددگار چھوڑ دیں۔ انگریزی میں اصطلاح ہے ”کامریڈ اِن آرمز“ (Comrade in arms)۔ طالبان اور ٹی ٹی پی کا یہ رشتہ رہا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ راتوں رات یہ رشتہ تبدیل ہو جائے۔
افغانستان کے پہاڑ اور وادیاں ٹی ٹی پی کیلئے ایک سیف ہیون کا درجہ رکھتے ہیں۔عمران خان نے کون سی غلط بات کی کہ طالبان سے تعلقات خراب کرکے ٹی ٹی پی کو شکست دینا آسان کام نہ ہوگا؟ یہ توسب کونظر آرہاہے کہ حملے یہاں ہو رہے ہیں اور پھر پناہ کیلئے افغانستان کی سرزمین ٹی ٹی پی کیلئے میسر ہے۔ خواجہ آصف کا تو بہت ہی غیرذمہ دارانہ بیان تھا کہ ضرورت پڑی توپاکستان ٹی ٹی پی ٹھکانوں پر کراس بارڈر حملے کرسکتا ہے۔ طالبان کا جواب بھی ایسا ہی تھا کہ یہ کارروائی ہوئی تونتائج کا ذمہ دار پاکستان ہو گا۔ اور کچھ ہو نہ ہو‘عام فہم عقل کا تقاضا ہے کہ ایسی بڑھکوں سے اجتناب کیا جائے۔ہمیں اپنے اندرونی حالات دیکھنے چاہئیں۔ یہ جو اندرونی محاذ ملک کی سیاست میں کھلا ہوا ہے یہ کسی ٹی ٹی پی مخالف آپریشن کیلئے حوصلہ افزا فیکٹر نہیں ہے۔ یہ کوئی پٹاخوں کی جنگ تو ہو نہیں رہی کہ ہم اسے ہلکا لیں۔ ہم یکسو ہوں گے‘ تمام قومی توانائیاں اس آپریشن یا جنگ پر مرکوز ہوں گی تو پھر کامیابی کا راستہ کھلے گا۔ لیکن افسوس اتنے نازک مسئلے پر بھی قومی سطح پر کوئی یکسوئی نظر نہیں آتی؟ کسی کو نظر نہیں آ رہا کہ فروری کے الیکشن میں قوم نے کیا رائے دی تھی؟ کیا اُس رائے کو نظرانداز کرکے دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے؟ قوم ساتھ ہو تب ہی کوئی ایسی کامیابی ممکن ہو سکتی ہے نہیں تو کھینچا تانی رہے گی۔ اہلِ اقتدار ایک طرف کھینچ رہے ہوں گے اور سیاسی لیڈر کچھ اور کہہ رہے ہوں گے۔قومی اتحاد اور یکسوئی کے بغیر کے پی کے کے پہاڑوں اور وادیوں میں کامیابی آسانی سے مل سکتی ہے؟ وہ علاقہ پختونوں کا ہے اور 47ء سے لے کر آج تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ اُس مغربی سرحد کی محافظ پختون قوم ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ضروری ہے کہ اُن علاقوں میں آج کس قسم کی سوچ کارفرما ہے۔ ہتھیاروں کے استعمال سے پہلے قومی سوچ میں ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے۔آل پارٹیز کانفرنس ضرور بلائیں لیکن اُسے ایک فضول کی نمائش اور کالج لیول کے تقریری مقابلہ میں تبدیل ہونے سے بچائیں۔ماضی کے ہمارے جن افلاطونوں نے پاکستان کو افغانستان کی آگ میں پورا زور لگا کر دھکیلا اُن میں کچھ ویژن ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی کہ کل کے مجاہدین آج کے دہشت گرد بن جاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔