جوکرنی ہے جہانگیری محمد کی غلامی کر
شیئر کریں
ندیم الرشید
”درحقیقت تم لوگوں کے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ہر اس شخص کے لیے جو خدا اور آخرت کے دن کا امید وار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔“
برادران اسلام! خدائے پاک کے کلام ِلاریب سے سورة احزاب کی 21 ویں آیت کا ترجمہ ٓاپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے ۔اس آیت مبارکہ میں خالق کائنات نے جناب خیرالوریٰ ﷺ کی زندگی کو ہمارے لیے بہترین نمونہ،آئیڈیل لائف اور رول ماڈل قرار دیا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ مسلمانوں کے لیے ان کے پیغمبر کی رہنمائی سے بڑھ کر کامیابی کی اور کوئی کلید نہیں ہے۔
جب تک مسلمانوں نے اپنے تمام مسائل ،مصائب اور مشکل حالات میں اس کلید پر بھروسہ کیا دنیا میں انہیں عزت ملی، شہرت ملی اور قیادت ملی، جب ہم 100 فیصدآقا علیہ السلام کی زندگی کو رول ماڈل سمجھتے تھے تودنیا کی سیادت وقیادت بھی ہمارے پاس تھی اور قوت واقتدار کے بھی ہم مالک تھے۔ اس وقت دنیا ہماری زبان بولتی تھی ،طرززندگی میںہماری نقل کرتی تھی ہمارا لباس پہنتی تھی اور ہمارے علوم پڑھتی تھی۔
اس وقت دنیا کی تصویر کیا تھی؟اندلس کے بشپ ”الوارد“کی زبان سے سنیے اور ملاحظہ فرمائیے جو 854 عیسوی میں اپنے ہم وطن ،ہم مسلک اور ہم مذہب لوگوں کی شکایت کچھ اس طرح کرتا ہے۔
”اب عیسائی لوگوں میں ایسے ذی علم کہاں جو مقدس کتابیں پڑھتے ہوں یا لاطینی زبان میں لکھی گئی عیسائی علماءکی کتابوں پر نگاہ ڈالنے کی پروا کرتے ہوں، ہمارے عیسائی نوجوان جو آج کل چرب زبانی سے متصف ہیں اور اپنے لباس اور چال ڈھال کی نمائش کرتے ہیںوہ مسلمانوںکے علوم میں شہرت رکھتے ہیں ،وہ عربی زبان کی بلاغت کے نشے میں سرشار ہیں ،وہ مسلمانوں کی کتابوں کو اٹھاتے ہیںاور بڑے ذوق وشوق سے پڑھتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں بلکہ خوب چرچا کرتے ہیں۔ لیکن وہ کلیسا کی کتابوں کی خوبیوں سے واقف نہیں ،وہ انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، آج عیسائی امت میں ہزاروں آدمیوںمیں سے بمشکل ایک آدمی ملے گا جو لاطینی زبان میں اپنے کسی دوست کو خیر خیریت کا ایک خط بھی لکھ سکے۔ البتہ ایسے بے شمار عیسائی ہیں جو عربی زبان کے رنگین جملے بڑے طمطراق سے لکھتے ہیں اور بولتے ہیں ۔وہ عربی زبان میں نہ صرف نظم لکھ سکتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے اپنے حسن خیال کی اعلیٰ پرواز کا اظہار بھی کرسکتے ہیں جبکہ قافیے،ردیف،وزن اور بحرکا بھی انہیں پورا شعور حاصل ہے۔Arnold: The Preaching of Islam P.139))
جب مسلمان اپنے پیغمبرکی سیرت پر پوری طرح عمل پیراتھے اور ذہنی وفکری طور پر بھی محمد کے غلام تھے ،دنیا پر ان کا سکہ چلتا تھا لیکن جب وہ فکری طور پر مغرب سے مرعوب ہوگئے ،اور اپنے آقا علیہ السلام کو چھوڑ کر یورپ اور امریکا کی غلامی کو ترجیح دینے لگے اور کفر کے اماموں کو رول ماڈل سمجھنے لگے تو پھر پورا نظام ہی الٹا ہوگیا۔ ہم اپنی زبان اپنی تہذیب،اپنا لباس چھوڑ کر ان کی زبان، ان کی تہذیب اور ان کا لباس پہننے لگے،ہم ان کی نقل کرنے لگے جو کبھی ہماری نقل کرتے تھے۔
کیا ایسا نہیں کہ آج ہم بھی عربی زبان سے ویسے ہی ناواقف ہوگئے ہیں جیسے اندلس کے عیسائی لاطینی زبان سے ناواقف ہوگئے تھے۔
کیا آج ایسا نہیں کہ جس طرح ان کے نوجوان کلیساسے تو غافل تھے لیکن چرب زبانی سے متصف تھے ،اپنے لباس اور چال ڈھال کی نمائش کرتے تھے اور عربی زبان کے رنگین جملے بڑے طمطراق سے بولتے تھے ۔آج ہمارے نوجوان بھی مسجد ومدرسے سے غافل ہیں ،بہت روانی سے انگریزی بولتے ہیں ،تھری پیس سوٹ میں ملبوس اپنی چال ڈھال کی نمائش کرتے ہیں اور انگریزی زبان کے رنگین جملے بڑے فخر سے بولتے ہیں ۔کیا آج ایسا نہیں کہ جس طرح وہ لوگ عیسائی پادریوں کی کتابوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کے علوم وفنون کو ذوق وشوق سے پڑھتے تھے ،آج ہم بھی مسلمان علماءکی کتابوں کو چھوڑ کر عیسائیوں کے علوم وفنون کو بڑے ذوق وشوق اور محبت سے پڑھتے ہیں۔
آج ہمارے بچوں کو بھی آیةالکرسی،چھ کلمے اور چاروں قل تو یاد نہیں البتہ ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار اور آکسفورڈ کا نصاب اچھی طرح نوک زبان پر ہے، غلامی کی یہ رات کیسے ڈھلے گی؟ مسلمانوں کی اقبال مندی اور آبرو کی صبح کیسے طلوع ہوگی؟ امت کو عروج کیسے نصیب ہوگا؟ اس کا طریقہ صرف یہی ہے کہ آقا علیہ اسلام کی ذات کو ہی رول ماڈل بناکر اپنے تعلیمی نظام اور فکری مقام کی بنیاد رکھی جائے۔ اس کے بغیر کامیابی نہیں ملے گی۔
جوکرنی ہے جہانگیری محمد کی غلامی کر
عرب کا تاج سرپر رکھ خدا وند عجم ہوجا