مردم شماری کے نتائج کو الیکشن میں تاخیر کابہانا نہیں بننا چاہئے
شیئر کریں
ایم کیو ایم پاکستان نے گزشتہ روز لیاقت آباد میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش جس کے لیے تیاریاںطریقے سے کی جارہی تھیں لیکن ایم کیو ایم کے رہنمااپنی تمام تر کوششوں کے باوجود جلسے کے لیے منتخب کی گئی چھوٹی سی جگہ کو بھی بھرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے ان کی جانب سے دیاجانے والا یہ تاثر زائل ہوگیا کہ ایم کیو ایم اب بھی اس شہر کی ایک بڑی اور منظم قوت ہے،اس طرح یہ کہا جاسکتاہے کہ ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے ایک اہم مسئلے پر جلسہ کرکے اپنے غبارے سے خود ہی ہوا نکال دی ہے ، اور اس جلسے کی ناکامی نہ صرف یہ کہ ان کے اگلے پروگراموں پر بری طرح اثر انداز ہوگی بلکہ اس جلسے کی وجہ سے اب تک کسی نہ کسی وجہ سے فاروق ستار کی قیادت میں جمع متعدد رہنما بھی شاید اپنا آشیانہ تبدیل کرنے ہی میں اپنی عافیت خیال کرتے ہوئے پارٹی کو خیر باد کہنے میں اب دیر نہیں لگائیں گے ۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے اس جلسہ کااہتمام مردم شماری کے دوران کراچی کے ساتھ کیے جانے والے مبینہ امتیازی سلوک اور بقول ان کے کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کرنے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانے کیلیے کیاتھا اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری میں اتنا ظلم ہوا مگرکسی جماعت نے نہ کوئی جلسہ کیا نہ جلوس نکالا، کراچی کی آبادی درست گنی جائے تو500 یو سیز بنیں گی لیکن اس زیادتی کے خلاف کسی سیاسی جماعت نے کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی اور صرف مگرمچھ کے آنسو بہانے پر اکتفا کیا ۔
جہاں تک مردم شماری کے بعد آبادی کے حوالے سے سامنے آنے والے اعدادوشمار پر اعتراض کا تعلق ہے تو یہ اعتراض صرف سندھ اور کراچی کے لوگوں کو نہیں ہے بلکہ تخت لاہور کے مکین بھی مردم شماری کے بعد پیش کیے گئے اعدادوشمار پر چین بہ چیں ہورہے ہیں،مردم شماری کے نتائج میں ایک حیران کن بات یہ سامنے آئی ہے کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کی آبادی میں بھی اضافہ کے بجائے کمی دکھائی گئی ہے جس کے نتیجے میں پنجاب کی سیٹوں کی تعداد کم ہو گئی ہے، اسی طرح کا معاملہ سندھ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ یہ بات نہ ہضم ہونے والی ہے کہ کئی برسوں کے بعد ہونے والی مردم شماری کے نتائج میں اس قدر بھیانک غلطیاں کی گئی ہیں کہ آبادی بڑھنے کے بجائے کم ہو گئی جب کہ ہم روزانہ شہروں میں آبادی کے بے تحاشہ اضافے کے نتائج بھگت رہے ہیں، سڑکوں پر گاڑیاں چلانے تو کجا بعض سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کی بھی جگہ نہیں۔آبادیوں میں اس طرح اضافہ ہوا ہے کہ صرف کراچی ہی نہیں لاہور شہر کا بھی طول و عرض ہی بگڑ گیا ہے اور یہ معلوم ہی نہیں پاتا کہ شہر شروع کہاں سے ہوتا ہے اس کا آخری سرا کون سا ہے لیکن اس کے باوجود مردم شماری کرنے والوں کا کہناہے کہ شہروں کی آبادی میں اضافہ تو ہوا ہی نہیں ،دلچسپ امر یہ ہے ہمارے سیاستدانوں نے ان نتائج کو نہ صرف یہ کہ تسلیم بھی کر لیا ہے بلکہ ان پر لبیک بھی کہا ہے، یہ بھی ان سیاستدانوں کی کوئی حکمت اور مصلحت ہی ہو گی جس میں ان کا مفاد ہی وابستہ ہو گا۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک کی سیاست اور شہروں کی منصوبہ بندیوں میں مردم شماری بنیادی کردار ادا کرتی ہے،مردم شماری کے مطابق آبادی کے تناسب سے صوبوں کا وفاق سے حاصل ہونے محصولات میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور آبادی کے مطابق صوبوں میں وسائل کی تقسیم بھی ہوتی ہے، نئی حلقہ بندیاں ہوتی ہیں اور اسی تناسب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں کمی بیشی کی جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ اس پر سیاسی پارٹیوںکے درمیان جتنی جلد اتفاق رائے ہو جائے اتنی ہی جلدی عام انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کی جانب مثبت پیش رفت ہو سکے گی ورنہ ایک افواہ یہ بھی زیر گردش ہے کہ مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیوں میں تاخیر کو جواز بنا کر آئندہ انتخابات کو موخر کرنے کی درخواست بھی کی جا سکتی ہے۔
عوام تو اس منطق کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں کیونکہ عوام تو ان نمائندوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے منتخب کر کے اسمبلیوں میں بجھواتے ہیں لیکن وہاں پر یہ نمائندہ عوام کے بجائے اپنے مسائل کو حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے مردم شماری کے نتائج میں منتخب نمائندوں کی تعداد بڑھ جائے یا اس میں کمی ہو اس کا حاصل حصول کچھ نظر نہیں آتااور عوام کو تو اپنے نصیب کو روتے ہی رہنا ہے۔موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی اور عوامی مسائل سے لاتعلقی کے رویئے کے پیش نظر اب عوام تو یہ چاہتے ہیں کہ جمہوری نظام کا تسلسل برقراررہے یااس کی بساط لپیٹ دی جائے ان کے مسائل حل کردئے جائیں ان کے بچوں کو دو وقت نہ سہی ایک وقت ہی پیٹ بھر روٹی کا یقین ہوجائے ،ان کے علاج معالجے کا مناسب انتظام ہوجائے ،انھیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کاانتظام ہوجائے اور ان کے بچوں کو تعلیم کے حصول کاموقع مل سکے۔
جہاں تک جمہوریت کاتعلق ہے تو یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ہماری موجودہ حکومت اگلے سال اپنی جمہوری آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہے۔ عام انتخابات کا طبل بجنے والا ہے اور سیاسی جماعتوں نے ابھی سے الیکشن کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اس حوالے سے جلسے جلوس جاری ہیں جن کا مقصد آئندہ انتخابات کے لیے اپنے ووٹرز کوسرگرم کرنا ہے۔اس کے ساتھ ہی سیاستدانوں کی جانب سے عام انتخابات کو دھاندلی سے بچانے کیلیے اقدامات کا واویلا ابھی سے شروع کردیاگیاہے۔ جہاں تک انتخابات میں دھاندلی کاتعلق ہے تو ضمنی انتخابات میں بھی دھاندلی اور جانبداری کا الزام لگایا جاتا رہا ہے، اس کا پہلا نشانہ متعلقہ حکومت کے علاوہ الیکشن کمیشن ہی ہوتا ہے جو براہ راست حکومت کے ماتحت کام کرتا ہے، اس لیے ہر بار الیکشن کمیشن کو ہی الیکشن میں خرابیوں کے بارے میں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ ملک میں انتخابات کے تمام مراحل اسی الیکشن کمیشن کی چھلنی سے ہو کر گزرتے ہیں، اب یہ اس کمیشن پر منحصر ہے کہ وہ اس چھلنی سے امیدواروں کو کیسے گزارتا ہے۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ غیر جانبدار الیکشن کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کا غیر جانبدار، خود مختار اور فعال ہونا ضروری ہے۔ ماضی میں ہمارے سیاسی حکمران الیکشن کمیشن کو نظریہ ضرورت کے تحت استعمال کیا کرتے تھے جس کاثبوت یہ ہے کہ یہی الیکشن کمیشن تھا جس نے مادر ملت کے مقابلے میں ایوب خان کی کامیابی کا اعلان کردیاتھا الیکشن کمیشن کی یا کارستانی صرف ایوبی دور تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کے بعد بھی ہونے والے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری مشکوک ہی رہی اور الزامات کا ایک نہ ہونے ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔
گزشتہ انتخابات جس کے نتیجہ میں نواز لیگ کی حکومت وجود میں آئی ہے، ان انتخابات کو بھی دو بڑی پارٹیوں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے دھاندلی زدہ قرار دیا ہے اور تحریک انصاف تو ان میں سے کچھ حلقوں میں دھاندلی کے بارے میں عدالت میں بھی گئی اور اس کے بعد اب تک جوکچھ ہواہے وہ پوری پاکستانی قوم کے سامنے ہے اور عوام اسے غور سے دیکھ رہے ہیں۔
اب اگلے انتخابات بھی اسی مردم شماری کے متنازعہ نتائج کے تحت کرانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے لیکن تمام سیاسی پارٹیاں اس پر متفق نہیں ہیں اس حوالے سے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کی یہ تجویز زیادہ قابل عمل معلوم ہوتی ہے کہ نئی حلقہ بندیوں اور مردم شماری کے نتائج پر سامنے آنے والے اختلافات کو بنیاد پر بنا کر الیکشن ملتوی کرنے کے بجائے سابقہ مردم شماری اور ووٹرز لسٹوں کی بنیاد پر ہی الیکشن کرادیئے جائیںاور مردم شماری کے نتائج کی درستگی اور نئی حلقہ بندیوں کامعاملہ آنے والی منتخب حکومت پر چھوڑ دیاجائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتیں اوررہنما خورشید شاہ کی اس تجویز کی حمایت کرکے عام انتخابات ملتوی کرنے کی سازشوں کو ناکام بناکر بروقت عام انتخابات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔