امریکا میں پاکستان مخالف تھنک ٹینکس متحرک
شیئر کریں
ٹرمپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان پر بھروسہ نہ کیاجائے،فوجی امداد روکنے کی بھی تجویز
درجن بھر تھنک ٹینک اور جامعات کی جانب سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی حمایت میں ملوث ہونے کا انٹیلی جنس جائزہ لینے کے لیے سفارشات
تہمینہ حیات
امریکی انتظامیہ کا ایک بااثر طبقہ اور پاکستان مخالف تھنک ٹینکس کے ایک گروپ نے پاک امریکا تعلقات خراب کرنے اور پاکستان کو عالمی برادری میںتنہا کرنے کی بھارتی سازش کو کامیاب بنانے کے لیے جوڑ توڑ شروع کردیا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان پر بھروسہ نہ کیاجائے اور اس جنگ میں پاکستان کو شامل رکھنے کے لیے اس کو مسلسل دباﺅ میں رکھنے کی پالیسی پر عمل کے ساتھ سابقہ حکومتوں کی طرح اس سے ہر مرحلے پر ڈومور کا مطالبہ دہرایاجائے تاکہ پاکستان کے حکمراں اپنے مفادات کے تحت امریکا کے ہر جائز وناجائز حکم کی بجاآوری پر مجبور رہیں۔اطلاعات کے مطابق امریکا کے کم وبیش ایک درجن تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں کی جانب سے مرتب کی گئی ایک رپورٹ میں ٹرمپ انتظامیہ کو مشورہ دیا گیا کہ ‘وہ اس بات کا اظہار کرے کہ وہ سابق انتظامیہ کے مقابلے میں پاکستان کے دہشت گردی کی حمایت میں ملوث ہونے کا انٹیلی جنس جائزہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹوں کی کلیئرنس کے بعد ہی پاک امریکا تعلقات کی نئی جہت کا تعین کیاجائے گا۔
اطلاعات کے مطابق ایشین اسٹڈیز سینٹر، دی ہیریٹیج فاونڈیشن، جارج ٹاﺅن یونیورسٹی، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، نیو امریکا ہڈسن انسٹی ٹیوٹ، بروکنگز انسٹی ٹیوشن، سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز اور مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کی گئی اس رپورٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مشورہ دیاگیاہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات، ملک کی پالیسیوں اور امنگوں کے ایک حقیقت پسندانہ تشخص کی بناپر ہونے چاہئیں۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ ‘امریکا کو پاکستان کی اسٹریٹیجک سمت میں تبدیلی لانے کے سراب کا پیچھا کرنے کے لیے اسے اضافی سازو سامان یا فوجی امداد کی فراہمی روکنا ہوگی، اس بات کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ صرف فوائد کے لالچ کے ذریعے پاکستان کی موجودہ پالیسیوں کو تبدیل کرانے میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔رپورٹ میںصدر ٹرمپ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کریں کہ پاکستان کی فوج کو مضبوط کرنے کی ساری کوششوں سے صرف ان عناصر کو تقویت ملے گی جنھیں امید ہے کہ ‘ایک دن وہ طاقت کے بل پر بھارت سے جنگ لڑکر کشمیر کو حاصل کرلیں گے۔اس گروپ نے یہ بھی خیال ظاہر کیا کہ ایسی کوئی چاندی کی گولی نہیں ہے جو پاکستانی پالیسیوں کو تبدیل کرسکے، لیکن ایک مضبوط موقف پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کردے گا۔رپورٹ میں ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستان کو ایک اتحادی کے طور پر سمجھنے اور دکھانے سے گریز کرے اور اس سے ایک ایسے غیر اتحادی ملک کی طرح ڈیل کیا جائے جو افغان طالبان کی مدد میں مصروف ہے۔
تاہم بعض تھنکرز نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ پاکستان ایک اہم ملک ہے اور وقتا فوقتاً اور جزوی طور پر امریکا کے ساتھ تعاون کے لیے تیار رہتا ہے، ‘اس سے اس طرح نہیں نمٹا جاسکتا، جس طرح امریکا شمالی کوریا سے نمٹتا ہے۔رپورٹ میں نئی انتظامیہ کو اس حوالے سے بھی مشورہ دیا گیا کہ پاکستان کے ساتھ نمٹنے کے لیے پہلے قدم کے طور پر پاکستان کو خبردار کرنا چاہیے کہ غیر نیٹو اتحادی کے طور پر اس کی حیثیت خطرے میں ہے اور جب تک پاکستان مکمل طور پر اس بات کا مظاہرہ نہ کردے کہ وہ امریکا کے انسداد دہشت گردی مقاصد میں شریک ہے، امریکا6 ماہ کے اندر اس کی حیثیت منسوخ کردے گا۔ رپورٹ کے مطابق اسی دوران انتظامیہ پاکستان کے لیے یہ آپشن بھی رکھے گی کہ وہ مستقبل میں امریکا کا اتحادی بن سکتا ہے۔اور اگر پاکستان نے مطلوبہ خواہش کے مطابق برتاﺅ کیا تو اسے نئے اتحاد کے لیے تجارتی اور سرمایہ کاری تعاون کے پیکج کی پیشکش کی جائے گی۔رپورٹ میں انتظامیہ سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ پاکستان کی سیاسی قیادت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی ترجیحات کا تعین کرے، مزید کہا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کی سویلین حکومت ملک کی سمت درست کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق نواز شریف کے اقدامات کو عالمی برادری کی جانب سے تسلیم اور حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔تھنکرز کا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو چین اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ بھی کام کرنا چاہیے تاکہ پاکستان پر دباﺅ ڈالا جائے کہ وہ دہشت گرد گروپوں اور افراد کی حمایت بند کردے۔ رپورٹ میں کہا گیا، امریکا کو چین کے ساتھ کام کرنا چاہیے جو خطے میں دہشت گردوں کی موجودگی کی وجہ سے تحفظات کا شکار ہے اور اس خطرے سے بھی جو یہ دہشت گرد پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک ) کے لیے ثابت ہو سکتے ہیں۔
ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی جانب سے غیر ملکی سفیروں کے اعزاز میں دیئے گئے عشایئے کے موقع پر انھوں نے کہا کہ وہ پاک-امریکا تعلقات میں بہتری دیکھنا چاہتے ہیں۔جیلانی نے بتایا کہ ٹرمپ نے گزشتہ برس نومبر میں وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کا بھی نہایت خوشگوار انداز میں حوالہ دیا۔انھوں نے پاکستانی سفیر سے ہونے والی گفتگو کے دوران پاکستان کے لیے نیک خواہشات کا بھی اظہار کیا۔یاد رہے کہ نواز شریف اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو ا±س وقت متنازع ہوگئی تھی جب وزیراعظم ہاﺅس کی جانب سے اس گفتگو کا تحریری متن جاری کیا گیا تھا۔ٹرمپ کی ٹیم نے نواز ٹرمپ بات چیت کے حوالے سے جاری کئے گئے پاکستانی ورژن پر اعتراض کیاتھا اور بعد میں ٹرمپ کی ٹیم نے بھی اس فون کال کا اپنا ورژن جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ دونوں رہنماﺅں کے درمیان مثبت گفتگو ہوئی لیکن پاکستانی ورژن میں بہت خوشنما زبان استعمال کی گئی تھی۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور سید طارق فاطمی کا کہنا ہے کہ خطے کے مسائل کے حل کے لیے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا ہموار رہنا ضروری ہیں۔امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز کو دیئے گئے انٹرویو میں طارق فاطمی نے کہا کہ امریکا کی کامیابی کے لیے پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی، لہٰذا امریکا کو کچھ کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ خطے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’دہشت گردی میں ملوث افراد کے لیے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں، دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے نظریات ایک جیسے ہیں جبکہ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان آکر وہ علاقے دیکھے جو دہشت گردوں سے خالی کرائے گئے۔