کارونجھر پہاڑ کی کٹائی غیرقانونی قرار،عدالت کاکمپنی کومشینری فوری لے جانے کاحکم
شیئر کریں
(رپورٹ: صدام بجیر) عدالت نے ایف ڈبلیو او، کوہِ نور ماربل، حاجی عبدالقدوس راجڑ کمپنی کے کام کو غیر قانونی قرار دے دیا، کمپنیوں کو کمپئن ہمیشہ کیلئے ختم، مشینری لے جانے کا حکمنامہ جاری کردیا۔ تفصیلات کے مطابق: کارونجھر پہاڑ کی کٹائی کے سلسلے میں سول جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ ننگرپارکر پارکر کی عدالت نے سماعت کے دوران گزشتہ روز متعلقہ احکامات کی رپورٹس کے پیش نظر رکھتے فیصلہ جاری کردیا ہے، کٹائی کرنے والی کمپنیوں کے خلاف احکامات نہ ماننے اور غیر قانونی طور پتھروں کو کاٹنے کے تحت 188 پی پی سی تحت مقدمہ درج کرنے کا ایس ایس پی تھرپارکر کو حکم جاری کردیا ہے، ساتھ ساتھ ہر ماہ کی 5 تاریخ پر رپورٹس داخل کرانے کا حکم نامہ جاری کیا ہے، عدالت کے تفصیلی فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ، متعلقہ محکمات کے رپورٹس سے صاف ظاہر ہے کہ کارونجھر پہاڑ نہ صرف مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش ہے، بلکہ مال مویشیوں، جنگلی حیات کے چارے کا ذریعہ بھی ہے، کارونجھر پہاڑ کے باعث بارشوں کے دوران علاقوں میں پانی کی سطح بھی مزید بڑھتی ہے، جس سے زراعت سمیت پانی سے وابستہ مختلف ضروریات مقامی افراد پوری کرتے ہیں، نہ صرف ننگرپارکر کے باسی بلکہ دنیا بھر کے لوگ قدیمی، تاریخی اور مذہبی مقامات سے بے انتہامحبت کرتے ہیں اور کارونجھر پہاڑ جنگی حالات میں دفاع کا اہم مورچہ بھی ہے، جو کہ پاکستان اور ہندوستان کی بلکل سرحد پر واقع ہے، تاریخ گواہ ہے کہ سرحد پر کشیدگی، تنازع وقتاً فوقتاً ہوتے آ رہے ہیں نتیجتاً مقامی لوگوں کیلئے کارونجھر پہاڑ محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوا ہے، دیگر علاقوں کی نسبت ننگرپارکر باسی پہلے ہی بنیادی حقوق سے محروم ہیں، اس کے باوجود بھی مافیاز اس واحد ذریعہ معاش کو برداشت نہیں کرتیں مقامی لوگ بے بسی کا شکار ہیں، مدد کے منتظر ہیں جبکہ لیز ہولڈر اور متعلقہ محکمہ معدنیات کسی بھی قسم کی لیز کے معاہدے، سروے رپورٹس، حدود، مختلف محکمات کے اجازت نامے یا دستاویزات منظر عام پر نہیں لائے، عدالت کو پتا چلا ہے کہ عوام کو کسی بھی قسم کے قانونی اقدامات اٹھانے سے دور رہنے کیلئے سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کے تحت افواہیں پھیلائی کی گئیں ہیں، چند مضبوط اشخاص کے پہاڑ کی کٹائی کے پیچھے ہاتھ ہیں، در حقیقت کوہ نور ماربل کمپنی، ایف ڈبلیو او بڑے پیمانے پر خود کام کر رہی ہیں، جو کہ اپنی جیبیں بھر رہی ہیں پر تاثر ریاستی ادارے کے ملوث ہونے کا دکھایا جا رہا ہے، کارونجھر پہاڑ متعلق کٹائی سے ہٹ کر سوچا جائے تو ملکی معیشت کے ساتھ مقامی لوگوں کی زندگی کا سہارا ہے، ننگرپارکر کے ڈیمز کے پانی کا ذریعہ بھی کارونجھر ہے، کارونجھر پہاڑ سے نکلنے والی مختلف نہریں مقامی لوگوں کو پانی فراہم کرتی ہیں، ساتھ ساتھ کارونجھر کو ہریالی کی چادر اوڑھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں جو کہ سیاحوں کو متوجہ کرتی ہیں، کارونجھر کو کاٹنا مقامی لوگوں کو جسمانی، نفسیاتی سکون کی خلاف ورزی ہے۔ فیصلے میں سنایا گیا ہے کہ محکمہ معدنیات نے کہا ہے کہ 2007 سے گرینائٹ لیز ہمیشہ پابندی عائد کی گئی تھی تو دوسری طرف 2011 کی لیزیں دکھا رہی ہیں، اس کا مطلب کے کٹائی غیر قانونی ہے اور متعلقہ محکمہ نے کوئی کارروائی عمل میں لانے کی زحمت تک نہیں کی۔