فنڈز کھانا آتے ہیں کتا پکڑا اور مارا نہیں جاتا، ہائیکورٹ سندھ
شیئر کریں
سندھ ہائی کورٹ نے کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں کمی نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیںکہ فنڈز کھانا آتے ہیں کتا پکڑا اور مارا نہیں جاتا،گائوں میں کتا کاٹنے تو کہیں ڈاکٹر نہیں توکہیں ویکیسن نہیں۔جمعرات کوسندھ ہائی کورٹ میں آوارہ کتوں کی روک تھام اور ویکیسن کی عدم دستیابی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ سیکرٹری بلدیات سندھ عدالت میں پیش ہوئے۔دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ واقعات بہت بڑھ چکے، کوئی کنٹرول نہیں ہو رہا۔ ٹاسک فورس کو واقعات کم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ بتائیں، آپ کے لوگ کر کیا رہے ہیں؟ سیکرٹری بلدیات نے بتایا کہ ویکیسن کی فراہم اور نس بندی سے متعلق منصوبے پر کام جاری ہے۔جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ اس کا حل موجود ہے۔ جیسے کتا کاٹے، سرکاری افسران کی جیب سے 10 ہزار روپے جرمانہ لگا دیں۔ کسی کو پرواہ ہی نہیں، واقعات رک ہی نہیں رہے۔ آپ منصوبے پر کام ضرور کریں مگر واقعات تو روکیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کنٹونمنٹ بورڈز اپنے حدود میں کیا کر رہے ہیں؟ کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل نے کہا کہ کام شروع کردیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ بتائیں، واقعات کم ہوئے یا نہیں؟جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ سیکرٹری صاحب، معلوم ہے کوئی کام نہیں کرے گا۔ 50 ہزار ہرجانہ لگا دیں افسران پر دیکھو کیسے کام ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی کہاں ہیں؟ کیوں نہیں آئے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کو توہین عدالت کے نوٹس بھیجیں؟سیکریٹری بلدیات نے کہا کہ کتوں کو کاٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کتا کاٹے گا مگر ہمارے محکمے کو کام کرنا ہوگا۔ کتا کاٹنے پر 1600 ملازمین ہیں، سب فارغ ہو جائیں گے۔ ایسے تو سارے افسران گھر چلے جائیں گے۔جس پر جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ یہ جواب کوئی نہیں سیکرٹری صاحب، ان سے پوچھیں، فنڈز کیسے کھانے ہیں تو فوری مشورہ دیں گے۔ فنڈز کھانا آتے ہیں کتا پکڑا اور مارا نہیں جاتا۔ گاں میں کتا کاٹنے تو کہیں ڈاکٹر نہیں کہیں ویکیسن نہیں۔ کسی گاوں میں کتا کاٹے تو حیدر آباد تک پہنچتے پہنچتے بچہ مر جاتا ہے۔جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ ڈی ایم سیز میں 350 ملازمین ہیں کیا کرتے ہیں؟ اہلیت اور کام نہ کرنے کا مسئلہ ہے۔ کبھی سنا ہے ڈی ایم سیز میں 350 ملازمین ؟عدالت نے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے وضاحت طلب کرلی۔ عدالت نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹر پیش ہوں بتائیں، فیصلے پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا۔عدالت نے سیکرٹری بلدیات کو کتوں کے واقعات روکنے کے ذاتی حیثیت میں معاملہ دیکھنے کی ہدایت بھی دی۔ تمام ڈی ایم سیز کو ہفتہ وار رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت بھی دی گئی۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ڈیفنس کے رہائشی کتوں کے کاٹنے سے بہت زیادہ پریشان ہیں۔ پارکوں میں بزرگ شہری واک تک نہیں کر پاتے۔ جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ پارکوں میں تو کتوں کا کچھ کریں سیکریٹری صاحب۔سیکریٹری بلدیات نے کہا کہ میں عدالت کے سامنے سرخرو ہونا چاہتا ہوں۔ مگر عدالت بتائے، پیش رفت سے کیا مراد ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ واقعات کو کم کریں یہی پیش رفت اور اچھی کارکردگی کا پیمانہ ہے۔عدالت نے سماعت 2 جون کے لیے ملتوی کردی۔