ریلوے حادثہ ۔ ۔حکمرانوں کی بے حسی کی ایک اور تصویر
شیئر کریں
نعشیں پون گھنٹے تک جناح اسپتال کے مردہ خانے کے باہر پڑی رہیں، اسپتال کے مردہ خانے کے مین گیٹ کی چابی کسی کے پاس نہیں تھی،سماجی کارکن
جناح اسپتال میں نعشوں کے حوالے سے کوئی انتظام ہے اور نہ ہی انتظامیہ کوئی مدد کرتی ہے،لواحقین کا شکوہ۔پولیس اور لٹیرے لوٹ کھسوٹ میں مصروف رہے
تین نومبر2016 ریلوے کی تاریخ کا سیاہ دن ثابت ہوا ہے، ایک ہی دن میں ٹرین کے تین حادثات پیش آئے ہیں۔ شہر قائد میں ایک ہی دن میں دوسرا اور پاکستان میں تیسرا ٹرین حادثہ پیش آ یا۔ کراچی میں کینٹ اسٹیشن کے قریب خوشحال خان خٹک ٹرین کی 2 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی تھی قبل ازیں علی الصبح بہاوالدین زکریااور فرید ایکسپریس میں ہولناک تصادم کے نتیجے میں 22 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے، جبکہ رات کو خانیوال میں جعفر ایکسپریس کا انجن پٹڑی سے اتر گیا تھا۔
جمعرات 3نومبرکی صبح کراچی میں لانڈھی ریلوے اسٹیشن کے قریب فرید ایکسپریس اور زکریا ایکسپریس کے تصادم نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا،22افراد کی ہلاکت اور 60سے زیادہ کے زخمی ہونے کی اطلاع نے عوام کو غمزدہ کردیا۔واقعہ علی الصبح ساڑھے سات بجے پیش آیا جب لاہور سے آنے والی فرید ایکسپریس لانڈھی ریلوے اسٹیشن سے پہلے کھڑی تھی کہ ملتان سے آنے والی زکریا ایکسپریس غلط سگنل ملنے کی وجہ سے اسی پٹری پر پیچھے سے آ گئی اور پوری رفتار کے ساتھ فرید ایکسپریس سے ٹکرا گئی۔ دونوں ریل گاڑیوں میں ایک ہزار سے زیادہ مسافر سوار تھے۔ٹکراو¿ کے نتیجے میں زکریا ایکسپریس کا انجن اور فرید ایکسپریس کی پچھلی دو بوگیاں تباہ ہوگئیں اور کراچی اور پورے پاکستان سے ملانے والی ریلوے لائن کئی گھنٹوں کے لیے بند ہوگئی۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ زکریا ایکسپریس کو پیلا سگنل دیا گیا تھا تاکہ وہ اپنی رفتار کم کرے، لیکن اسے نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔
اسٹیشن پر خوشی خوشی استقبال کی تیاریاں آنسوو¿ں میں ڈوب گئیں جنہیں ہنستے بستے گھر وں میں آنا تھا، وہ ویران قبرستانوں میں جاپہنچے،کراچی کے ریل حادثے نے کئی خاندانوں میں صفِ ماتم بچھادی۔تھمتے تھمتے ، تھمیں گے آنسو،کہ یہ رونا ہے ان لوگوں کا، جو بس گھر آیا ہی چاہتے تھے کہ اچانک وہاں جاپہنچے، جہاں سے انہیں کوئی صدا واپس لاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی فریاد۔مرنے والوں میں کراچی کی رشیدہ بی بی، ان کا بیٹا مدثر بھی شامل ہیں۔معجزانہ طور پر بچ جانے والی ننھی فریحہ حادثے کے وقت اپنی ماں کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی،ماں نے جانے کیا کیا ہوگا کہ بچی تو بالکل محفوظ رہی مگر وہ خود زخموں سے چور چور، جان کی بازی ہار گئی،تاہم فریحہ اس المیے سے بے خبر ہے، کہتی ہے، ماما کو چوٹ لگی ہے، اسپتال سے پٹی کراکے کچھ دیر بعد اس کے پاس آنے والی ہیں۔مسئلہ صرف فریحہ کا نہیں، اس حادثے نے کتنے خاندانوں کو برباد کردیا ہے۔ان بدنصیبوں میں کراچی کے علاقے محمود آبادہی کا ایک اور خاندان بھی شامل ہے جس کے دو فرد اس سانحے کی نذر ہوئے۔
کراچی میں فرید ایکسپریس اور زکریا ایکسپریس کے تصادم کے نتیجے میں میلسی کا ایک بدقسمت خاندان بسلسلہ روزگار کراچی جاتے ہوئے لقمہ اجل بن گیا۔ محلہ احمد رضا کالونی کا رہائشی مظہر حسین اپنی فیملی سمیت کراچی کے علاقہ قیوم آباد میں روزگار کے سلسلے میں مقیم تھاجو میلسی اپنے والدین کے پاس ملنے کیلیے آیا ہوا تھا اور گزشتہ روز فرید ایکسپریس میں اپنی بیوی کوثر مائی اور 2کمسن بیٹیوں 5سالہ زہرہ اور 4سالہ سکینہ کے ہمراہ سوار ہو ا اور کراچی میں ہونے والے حادثے میں پوری فیملی ہی جاں بحق ہو گئی جبکہ میلسی کے نواحی موضع مراد پور کا رہائشی محمد اقبال ولد محمد عظیم بھی اسی بد قسمت ٹرین میں سوار تھا جو بسلسلہ مزدوری کراچی جا رہا تھا جو اس حادثے کا نشانہ بن کر دم توڑ گیا۔
سماجی کارکن رمضان چھیپا ٹرین حادثے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ مجھے جیسے ہی اس واقعے کے حوالے سے اطلاع ملی تو میں جائے حادثہ پر پہنچ گیا اور تمام امدادی سرگرمیوں کی جو چھیپا کے رضاکار سرانجام دے رہے تھے خود نگرانی کرتا رہا پھر مجھے چند رضاکاروں نے جناح اسپتال کے حوالے سے اطلاعات فراہم کیں تو میں جائے حادثہ سے جناح اسپتال چلا گیا وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ٹرین حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کی نعشیں پون گھنٹے تک جناح اسپتال کے مردہ خانے کے باہر صرف اس لیے ایمبولینسوں میں پڑی رہیں کہ اسپتال کے مردہ خانے کے مین گیٹ کی چابی کسی کے پاس نہیں تھی، بعد ازاں چھیپا کے ایک رضا کار نے چابی لاکر دی تو نعشوں کو اندر مردہ خانے منتقل کیا گیا،رمضان چھیپا نے بتایا کہ ٹرین حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کاشکوہ تھا کہ جناح اسپتال میں نہ تو نعشوں کے حوالے سے کوئی انتظام ہے اور نہ ہی انتظامیہ کوئی مدد یا رہنمائی کررہی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ مرنے والوں کی نعشوں کو ان کے آبائی علاقوں میں منتقل کرنا ہے، جس پر چھیپا ویلفئیر کی ایمبولینسوں میں ان میتوں کو غسل اور کفن دیا گیا اور اس کے بعد ان میتوں کو بذریعہ جہاز رات ڈیڑھ بجے انکے آبائی علاقوں کو روانہ کیا گیاجسکے کوئی اخراجات لواحقین سے نہیں لیے گئے۔
لانڈھی میں ٹرین حادثے کے بعدامدادی کاموں کے ساتھ بعض پولیس والے اورنامعلوم افرادزخمیوں اورمرنے والوں کی جیبوں کی صفائی کرنے میں مصروف نظرآئے ،لانڈھی میں ہونے والے ٹرین حادثے کے بعدسنگدل افرادمرنےو الوں اورزخمیوں کے موبائل فون اورنقدی لوٹتے ہوئے نظرآئے ۔صرف یہی نہیں بلکہ پولیس والے بوگیوں سے مردہ اورزخمی حالت میں نکلنے والی خواتین کازیوربھی لوٹتے رہے ۔
پاکستان ریلوے بم ڈسپوزل اسکواڈ کے افسر یاسین ابڑو کا کہنا ہے کہ تین نومبر کو لانڈھی کے قریب ہونے والے ٹرین حادثے میں دہشت گردی خارج از امکان ہے یہ حادثہ انسانی غلطی معلوم ہوتا ہے۔ یاسین ابڑو کا کہنا تھا کہ جس جگہ یہ واقعہ رونما ہوا ہے اس کے اطراف کے علاقوں میں ماضی قریب میں کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی کی متعدد کوششیں کی جا چکی ہیں اور ریلوے ٹریک پر دھماکے کیے گئے ہیں لیکن اس مرتبہ ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ کے آس پاس ریلوے ٹریک صحیح حالت میں تھا۔
کراچی کے علاقے لانڈھی جمعہ گوٹھ میں جمعرات کی صبح ہونے والے ٹرین حادثے کا مقدمہ تھانہ قائد آباد میں درج کرلیا گیا ہے ۔مقدمہ ٹرین کے گارڈ محمد حسین کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ٹرین حادثے میں 22 افراد جاں بحق اور 62 زخمی ہوئے تھے۔مقدمہ نمبر 316 ریلوے ایکٹ کے تحت درج کیا گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق حادثے کا ذمہ دار ٹرین ڈرائیور کو قرار دیا گیا تھا۔
ریلوے حکام اور انشورنس کمپنی کے مابین مسافروں کی انشورنس پالیسی میں تبدیلی پر اتفاق رائے ہو گیا ، دوران سفر ٹرین حادثے میں مرنے والوں کی انشورنس کی رقم بڑھا دی گئی ۔ریلوے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جاوید انور نے بتایا کہ ٹرینوں کا ہر مسافر دوران سفر انشورڈ ہو گا،آئندہ دوران سفر جاں بحق ہونے والے مسافروں کے لواحقین کو 10کے بجائے 15لاکھ روپے ملیں گے جبکہ زخمی مسافروں کو پانچ کی بجائے ساڑھے تین لاکھ روپے دینے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔جاوید انور کا کہنا تھا کہ پریمیم کی رقم ٹکٹ پر معمولی اضافے کے ذریعے وصول کی جارہی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے دور میں ٹرینوں کے 530حادثات ہو چکے ہیں لیکن ہربار معمولی اہلکار ذمہ دار قرار دیدیے گئے ۔ان واقعات میں 14 بڑے اور خطرناک ٹرین حادثات شامل ہیں جن میں102سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار گئے اور سینکڑوں مسافر زخمی ہوئے لیکن ریلوے کی طرف سے ٹرین حادثات پر قابو پانے کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے گئے ۔ ٹرین ڈرائیور، فائر مین اور گارڈ کو ذمہ دار قرار دے کر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے جبکہ شعبہ سگنل اور سول انجینئرنگ کے کسی افسر یا ملازم کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی ۔ریلوے انتظامیہ نے ٹرین کے سفر کو محفوظ بنانے کیلیے چند سال قبل 12ارب روپے سے آٹو میٹک ٹرین پروٹیکشن سسٹم کی بھی منظوری دی تاہم یہ آج تک مکمل نہیں کیا جا سکا۔
لانڈھی حادثے سے متعلق وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ دو آدمیوں کی غلطی نے 22قیمتی جانوں کا ضیاع کیا ۔محکمے کی بدنامی اور رسوائی ہوئی۔انہوں نے کہا کہ ڈرائیورز اور معاون ڈرائیورز کی تربیت کے معیار کو بہتر کر رہے ہیں ،ابھی کھل کر بات نہیں کروں گا،ہم کچھ ایکشن کرنے والے ہیں ۔کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ انہیں سزا ملے گی تو وہ ہڑتال کردیں گے اور انتظامیہ خوف زدہ ہوگی ۔ وفاقی وزیر نے ریلوے نظام کی فرسودگی کا بھی اعتراف کیا۔ انہوں نے ملازمین کی بڑی تعداد کے گھر بیٹھ کر تنخواہیں لینے کا انکشاف بھی کیا ۔