میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناما پیپرز۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر22)

پاناما پیپرز۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر22)

منتظم
جمعه, ۲۱ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

نواز شریف نے شیل کمپنیوں کے ذریعے ہی پرتعیش املاک خریدی تھیں
ہمارے پاس بااثر افراد کا اتنا زیادہ ڈیٹا جمع ہوگیاتھا کہ ہمارے لیے بیشمار امرا، ڈکٹیٹرز ،شہزادوں،شہزادیوں اور شیخوں کے ناموں کو الگ کرنا ناممکن معلوم ہورہاتھا
ان میں سے بیشتر ایسے ممالک کے حکمراں تھے جہاں عدم مساوات کی بدترین صورتحال تھی ،یہ لوگ شاہانہ زندگی گزار رہے تھے اورانکی عوام نان جویں کی محتاج تھی
تلخیص وترجمہ : ایچ اے نقوی
اب ہمارے سامنے جو اہم نام تھے ان میں متحدہ عرب امارات کے صدر، اردن کے سابق وزیر اعظم ،جنوبی امریکا کے سابق ڈکٹیٹر، فلسطین کے نائب وزیر اعظم اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کا نام سرفہرست تھا۔ورلڈ بینک نے برٹش ورجن آئی لینڈ میں قائم دو کمپنیوں کا ذکر کیاتھا، نواز شریف پر جنھیںپراسرار تجارتی ڈیلز کے لیے استعمال کرنے کاالزام تھا۔نیسکول اور نیلسن نامی یہ دونوں کمپنیاں نواز شریف کی ملکیت تصور کی جاتی تھیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ نواز شریف نے ان ہی کمپنیوں کے ذریعے لندن اور دیگر مقامات پر پرتعیش محلات خریدے تھے، ڈاکومنٹس کے مطابق ریاستی فنڈز پلک جھپکتے محل میں تبدیل ہوجاتے تھے، ہم نے اس حوالے سے ڈیٹا کی مزید چھان بین کی تو یہ بات سامنے آئی کہ کم از کم 2012 تک نواز شریف کی بیٹی مریم نواز صفدر اس کی مالک تھیں۔
ہم نے دیگر معاملات کی بھی چھان بین شروع کی تاکہ یہ اندازہ لگایاجاسکے کہ آیا ہم اس معاملے کو آگے بڑھاسکتے ہیں اور ہمیں اس کو آگے بڑھانا چاہیے یا نہیں؟اب ہم نے کاغذ اٹھایا اور اپنے سامنے موجود ڈیٹا میں سامنے آنے والے ملکوں اور ان کے کرتادھرتا ﺅںکے ناموں کے حوالے سے فہرست مرتب کرنا شروع کردی۔
ہم پہلے ملک کانام لکھتے اور اس کے بعد اس سے تعلق رکھنے والی شخصیت اور اس کامنصب، مثلاً پاکستان اور اس کے موجودہ وزیر اعظم، آئس لینڈ اور اس کے موجودہ وزیر اعظم ،شام اور اس کے صدر کے کزن،اس طرح ہماری فہرست میں ایک درجن سے زیادہ افراد کے نام سامنے آگئے۔ہمارے پاس فہرست میں سربراہ مملکت اور سربراہان حکومت کے نام تو تھے ہی لیکن ہمیں ایسا نام بھی مل گیا جس کی توقع نہیںتھی اوروہ نام تھا سی آئی اے کے دفاعی کنٹریکٹر کا وہ آف شور کمپنیوں کامالک تھا جو ایران کی حکومت کے لیے تیل کی خریدوفروخت کے معاہدے کرتی تھیں اورامریکا کے صدارتی امیدوار کے دولت مند حمایتی تھے۔اگرچہ یہ واضح نہیں ہوسکاکہ موسفون کا عملہ اس بات سے پوری طرح واقف تھا کہ یہ رقم کہاں سے آرہی ہے لیکن ان کے کاروبار کے طریقہ کار سے یہ بات واضح ہوتی تھی کہ اس کی پشت پرکوئی بھی ہو اسے ان کی معاونت حاصل تھی۔
ہمارے پاس جو ڈیٹا تھا اس میں سسلی کی مافیا کے ارکان ،روسی مافیا سے منسلک ارکان کے علاوہ میکسیکو کی منشیات کی سینولا کارٹل کے ارکان ، انٹیلی جنس افسران، جوئے خانے کے فراڈیوں،سفید پوش جرائم پیشہ ارکان ،بینک لوٹنے والوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے نام شامل تھے۔ہمارے سامنے روزانہ نئے نام آرہے تھے۔ جیک رول اس کام میں ہماری معاونت کررہاتھا۔اس نے کم وبیش نصف مشرق وسطیٰ کھنگال ڈالا تھا۔اب اس نے ایاز علوی کانام نکالا یہ15 -2014 میں عراق کے نائب صدر تھے۔
ایاز علوی کے نام پر برٹش ورجن آئی لینڈز میں دو کمپنیاں تھیں جبکہ مزید 2کمپنیاں پاناما میں تھیں۔جو اس وقت تک ختم کردی گئی تھیں، ہمیں علوی کے پاسپورٹ کی کاپی بھی مل گئی ،ایاز علوی عراق کے ایک مالدار شیعہ تاجر کے بیٹے تھے وہ پہلے عراق کے صدر صدام حسین کی بعث پارٹی میں شامل تھے لیکن 1970 میں عراق چھوڑ گئے تھے اور حزب اختلاف کی جلاوطن تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے۔وہ صدام حسین کا تختہ الٹے جانے سے قبل امریکا اوربرطانیہ میں تعلقات عامہ کے معروف مشیروں کی خدمات حاصل کرنے اور اہم سیاستدانوں اور صحافیوں سے رابطہ قائم کرنے کے ماہر کے طورپر پہچانے جانے لگے تھے۔رقم ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھی۔
یہاں ایک بات اہم تھی کہ ان کی زیر ملکیت ایک کمپنی جو بعد میں ختم کردی گئی تھی میں لبنان کے ایک سابق وزیراعظم کے بچے بھی ان کے شراکت دار تھے۔یہ ایک عجیب بات تھی کہ عراق کے سابق وزیراعظم لبنان کے سابق وزیر اعظم کے بچوں کاشراکت دار تھا۔2005 میں جب یہ کمپنی قائم کی گئی ایاز علوی اس دوران تھوڑے عرصے کے لیے عراق کے عبوری وزیر اعظم کے طورپر بھی کام کرتے رہے تھے۔اب ہم اردن، کویت، فلسطین ،پاکستان اور قطر کے سابق سربراہان مملکت اور حکومت کے بارے میں تفصیلات حاصل کرچکے تھے۔
یہ بڑی اہم بات تھی کہ مشرق وسطیٰ کے اتنے سربراہان مملکت نے اپنی دولت بیرون ملک منتقل کررکھی تھی۔ایچ ایس بی سی کی فائلیں دیکھ کر اندازہ ہوتاتھا کہ مشرق وسطیٰ کے کم وبیش تمام سربراہان مملکت اور حکومت نے اپنی دولت بیرون ملک منتقل کررکھی تھی۔ سوئس بینک کے اکاﺅنٹس سے متعلق کاغذات کی دیکھ بھال کے بعد یہ بھی انکشاف ہوا کہ 2بادشاہوں ،مصر کے سابق وزیرتجارت اور تیونس کے سابق سربراہ مملکت کے برادر نسبتی بن علی کے بھی بیرون ملک اکاﺅنٹس موجود تھے۔
اب ہمارے پاس بااثر افراد کا اتنا زیادہ ڈیٹا جمع ہوگیاتھا کہ ہمارے لیے بیشمار امرا، ڈکٹیٹرز ،شہزادوں،شہزادیوں اور شیخوں کے ناموں کو الگ کرنا مشکل بلکہ ناممکن معلوم ہورہاتھا۔ان میں سے بیشتر ایسے ممالک کے حکمراں تھے جہاں عدم مساوات کی بدترین صورتحال تھی یہ لوگ شاہانہ زندگی گزار رہے تھے جبکہ ان کے عوام کی اکثریت نان جویں کی محتاج تھی۔مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک کے سربراہوں نے اپنے اپنے ملک کے وسائل چوس لیے تھے اور اب ان ملکوں میں فاقہ کش عوام کے سوا کچھ باقی نہیں بچاتھا۔
عرب ملکوں میں عوامی احتجاج کاسلسلہ شروع ہونے کے بعد متعدد عرب بیوروکریٹس کی بیرون ملک جمع دولت کاانکشاف ہوچکاتھا۔لیکن جتنی دولت کاانکشاف ہواتھا وہ اصل دولت کا صرف ایک حقیر حصہ تھا، جس کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ معمر قذافی کی حکومت کاتختہ الٹے جانے کے بعد برسراقتڈار آنے والی حکومت اب تک قذافی کے نام پر بیرون ملک موجود کروڑوں ڈالر کی دولت کا پتہ لگانے کے لیے کوشاں ہے۔اگرچہ لیبیا کے عوام حکومت کاتختہ الٹنے میں کامیاب ہوگئے لیکن اس کی لوٹی ہوئی دولت کا پتہ لگانا اور اسے واپس حاصل کرنا شاید طویل عرصے تک ممکن نہ ہوسکے۔
ان ڈکٹیٹرز کے لیے اپنے ملک کی دولت لوٹ کر اسے چھپانے میں یہی بے نامی کمپنیاں مدد گار ثابت ہوتی تھیں، کیونکہ ان کمپنیوں کی ملکیت اور اس میں لگی ہوئی دولت کاپتہ چلانا جوئے شیر لانے سے کسی طرح کم نہیں تھا۔کیونکہ جرگن موزاک اور رامن فونسیکا جیسے لوگ ان لوگوںکو اپنی دولت چھپانے میں مدد دیتے رہتے تھے۔
ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ نے 2011 میں اپنی رپورٹ میں اس حقیقت کا اظہار کیاتھا۔ان کے تجزیہ کاروں نے ایسے 213 معاملات کاتجزیہ کیاتھا جن کے کرپشن کے مقدمات پوری دنیا کی عدالتوں میں زیر سماعت تھے۔اس میں سے کم از کم 150 مقدمات میں شیل کمپنیوں نے ان کو اپنی دولت چھپانے میں مدد فراہم کی تھی اوران کمپنیوں کے مالکان نے مجموعی طورپر 56ارب 40کروڑ ڈالر کے فوائد حاصل کیے تھے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں