میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کنٹرول لائن کی دھماکہ خیز صورت حال  عالمی برادری ذمہ داری پوری کرے

کنٹرول لائن کی دھماکہ خیز صورت حال عالمی برادری ذمہ داری پوری کرے

ویب ڈیسک
جمعه, ۶ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

کنٹرول لائن(ایل او سی) کے مقام پر پاکستانی علاقے میں بھارتی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 2 پاکستان شہری جاں بحق ہوگئے جبکہ پاک فوج کی جوابی کارروائی میں 3 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق بھارتی فورسز نے راولا کوٹ اور چری کوٹ سیکٹر پر پاکستانی علاقے میں بلااشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ پاک فوج کی مؤثر اور جوابی کارروائی کے نتیجے میں 3 بھارتی فوجیوں کے مارے جانے اور 5 بھارتی فوجیوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں جبکہ بھارتی فورسز کی چیک پوسٹوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی فوج کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کے واقعات اب ایک معمول بن چکے ہیں اور شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتاہو جب بھارتی فوجیوں کی جانب سے اشتعال انگیزی کامظاہرہ نہ کیاجاتاہو ، اس صورت حال کا اندازہ آزاد کشمیر کے اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر سعید قریشی کے اس بیان سے لگایاجاسکتاہے جس کے مطابق ایل او سی پر بھارتی فورسز کی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے باعث رواں سال جنوری سے اب تک 36 پاکستانی شہری شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ رواں سال اب تک 43 مکان اور دو تعلیمی اداروں کو جزوی جبکہ 3 کو مکمل طور پرنقصان پہنچا۔2 اکتوبر کو ایل او سی پر آزاد جموں و کشمیر کے ضلع حویلی کے دیہی علاقوں میں بھی بھارتی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں ایک بزرگ پاکستانی شہری جاں بحق اور 5 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
2003 میںکنٹرول لائن پر جنگ بندی کے لیے پاکستان اور بھارتی افواج کی جانب سے ایک معاہدے پر دستخط کے باوجود جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔ایک طرف بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور دوسری طرف ایل او سی پر بھارتی فوج نے عرصہ دراز سے فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جس سے اب تک درجنوں بے گناہ شہری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے بارہا بھارتی کمشنر کی دفتر خارجہ میں طلبی اور احتجاج کے باوجود بھارت اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہا۔ بھارت مسلسل کنٹرول لائن پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس کا بروقت نوٹس نہ لیا تو سرحدوں پر جاری یہ جھڑپیں کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں اس لیے دانش مندی کاتقاضہ یہی ہے کہ عالمی برادری بھارت کو ہوش کے ناخن لینے اور برصغیر میں جنگ کی آگ بھڑکانے کی بجائے پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام متنازعہ عاملات بامعنی بات چیت سے حل کی کوشش کرنے پر مجبور کرے،اور عالمی برادری پر یہ واضح کردیاجائے کہ اگر عالمی برادری نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ نہ دی تو پاکستان بھارتی اشتعال انگیزی کاجواب اسی کی زبان دینے پر مجبور ہوگا جس سے پیداہونے والی صورت حال کی تمامتر ذمہ داری بھارت اور اس صورت حال پر خاموشی اختیار کرنے والی عالمی برادری پر ہوگی۔
کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کیخلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے پاکستان کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ بھارتی جارحانہ طرز عمل اس خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ عالمی طاقتیں اس کا نوٹس لیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے گزشتہ روز کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ سے شہریوںکی شہادت پر احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا بھارت جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی سے باز رہے اور اس پر مکمل عملدرآمد کیا جائے۔
جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے تو پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایک سے زیادہ مرتبہ یہ واضح کرچکے ہیں پاکستان کی مسلح افواج بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور پوری قوم اپنی بہادرافواج کیساتھ ہے، خود بھارتی سیاسی رہنما اور دانشور بھی اپنی حکومت کو کھل کر یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے اور جنگ جیسی صورت حال پیدا کرنے سے گریز کرے لیکن اقتدار کے نشے میں بدمست بھارتی حکمراں کسی کی سنجیدہ بات کو سننے اور مناسب مشورے پر عمل کرنے کو تیار نظر نہیں آتے اور کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر اشتعال انگیزی اور شر انگیزی بھارت کا معمول بن گیاہے ۔پاکستان کی طرف سے بھارتی گولہ باری کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جاتا ہے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ بھارت کے اشتعال انگیز رویئے سے حالات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ سکتے ہیں جس سے جنوبی ایشیاکے امن کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور اس سے عالمی امن بھی متاثر ہوگا۔ وزارت خارجہ کی طرف سے ایسی بھارتی شر انگیزی پر احتجاج کیا جاتا ہے مگرایسا معلوم ہوتاہے کہ بھارت کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا،اور بھارتی رہنما مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی میں تیزی کو بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر بلوچستان میں اس کا جواب دینے کی دھمکی دیتے رہتے ہیںجبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی فوج کی سفاکیت اور بربریت میں اضافہ ہورہا ہے۔اس صورت حال کاتقاضہ ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی برادری کو بھارت پر زور ڈالنے اوراسے قائل کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت کاقائل کریں،دفتر خارجہ کے حکام کو چاہئے کہ وہ عالی برادری کو یہ باور کرائیں کہ جموں و کشمیر کی جنگ بندی لائن اور سیالکوٹ سیکٹر میں پاکستان کے ساتھ ورکنگ بائونڈری پر بھارت نے جو اشتعال انگیز کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں ان میںگزشتہ کچھ دنوں سے غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے اور صورت حال محض یکم جنوری 1949کے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی نہیں بلکہ اب باقاعدہ حالت جنگ کا نقشہ پیش کر رہی ہے آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے درجنوں دیہات اس وقت بھارت کی وحشیانہ فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں ہیں جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں سے ہزاروں دیہاتی نقل مکانی کر کے محفوظ علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں اور مقامی انتظامیہ کو ان کی دیکھ بھال اور بحالی کے کٹھن کام میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تقریباً چار ماہ سے جاری تحریک آزادی پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہو کر بھارت پاکستان کے خلاف باقاعدہ محاذ کھولنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور وہ اس حوالے سے عالمی برادری کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اس نے نہ صرف یہ کہ اعلیٰ سطح کے وفود کے باہمی تبادلوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے بلکہ دنیا بھر سے ہر قسم کے اسلحہ کی خریداری میں بھی مصروف ہے اس کے پاس پہلے سے موجود ہتھیاروں کے انبار کیا کم تھے کہ گزشتہ روزوزیر دفاع منوہر پاریکر کی زیر صدارت وزارت دفاع کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں 82 ہزار کروڑ روپے کے مزید جدید ترین جنگی طیاروں، ٹینکوں، راکٹوں اور ڈرونز ہوائی جہازوں کی خریداری کی منظوری دی گئی ہے جو اس کے بڑھتے ہوئے جنگی جنون کا پتہ دیتی ہے۔
اس سلسلے میںبھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط کا یہ کہنا درست ہے کہ پاک بھارت تعلقات اس وقت موجودہ دہائی کے عرصے میں سب سے زیادہ تنائو کا شکار ہیںاور پاکستان کے خلاف بھارتی لیڈروں کے زہر آلود بیانات سے اس تنائو میں مزید اضافہ ہوا ہے،جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے تو پاکستان کشمیر سمیت تمام مسائل پر نتیجہ خیز مذاکرات کا خواہاں ہے اور وہ ہر عالمی فورم پر اس کا برملا اظہار بھی کرتارہا ہے،خطے کی دھماکہ خیز صورتحال کا تقاضہ ہے کہ بھارتی رہنما بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کریںاور پاکستان کی جانب سے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی پیشکش یادعوت کا مثبت جواب دینے کی کوشش کریں تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی موجودہ تنائو کی صورت حال خاتمہ ہوسکے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ پاکستان عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورت حال اور کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارت کی جارحانہ کارروائیوں سے مسلسل آگاہ کر رہا ہے لیکن اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں نے بھارت کو روکنے کے لیے اب تک کوئی عملی اقدامات نہیں کئے ایسے حالات میں قوم کو جس کی توجہ زیادہ تر سیاسی پارٹیوں کی باہمی آویزشوں کی طرف منعطف ہے ملکی سلامتی کو لاحق خطرات سے خبردار اور ان کے مقابلے کے لیے متحد اور چوکس رہنا چاہئے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو بھی تنازع کشمیر سمیت دو ہمسایہ جوہری طاقتوں کے تنازعات کے پرامن حل پر توجہ دینی چاہئے تا کہ عالمی امن کے لیے پیدا ہونے والے خطرات ٹل سکیں اور اس خطے کے عوام اطمینان اور سکون کے ساتھ معمولات زندگی بحال رکھ سکیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں