میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں سے چشم پوشی کرنے والوں کو سہولت کار تصور کیا جائے

دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں سے چشم پوشی کرنے والوں کو سہولت کار تصور کیا جائے

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۲ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد اب ملک میں کوئی بھی دہشت گرد نیٹ ورک موجود نہیں اور دہشت گرد تنظیمیں پاکستان میں کام نہیں کرسکتیں۔سینیٹ میں وقفہ¿ سوالات کے دوران چوہدری نثارنے بتایا کہ 2013ءسے پہلے ملک میں دہشت گردوں کے دفاتر ہوتے تھے، ملک میں روزانہ 5 سے 6 دھماکے ہوتے تھے، اس وقت کسی میں توفیق نہیں تھی کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے اور آج کئی ہفتے اورماہ ہو جاتے ہیں دھماکہ نہیں ہوتا، ہم نے دہشت گردی کے بہت سے نیٹ ورک توڑے ہیں اور ہزاروں گرفتاریاں کیں جس کی پوری دنیا متعرف ہے۔ ساڑھے 3 سال میں بے شک کوئی بھی گونگا اور بہرہ بن جائے لیکن میرے پاس ریکارڈ موجود ہے۔
وزیرداخلہ کا یہ دعویٰ کہ آپریشن ضرب عضب کے بعدسندھ سے لے کر خیبرپختون خوا تک انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیے گئے اور اب ملک میں کوئی بھی دہشت گرد نیٹ ورک موجود نہیں، بلاشبہ خوش آئند بات ہے ، اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ فوج کی جانب سے آپریشن ضرب عضب اور اس کے بعد ردالفساد شروع کیے جانے کے بعد ملک بھر میں سیکورٹی کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے جس کا اندازہ لاہور میں کرکٹ میچ کے فائنل کے انعقاد سے لگایاجاسکتاہے، جس میں متعدد غیر ملکی کھلاڑیوں نے بھی حصہ لیا اور پاکستان میں سیکورٹی کے نظام میں بہتری کابرملا اعتراف بھی کیا۔وزیرداخلہ کایہ کہنا غلط نہیں ہے کہ کالعدم تنطیموں کے ہزاروں کارکن ہوتے ہیں اور سب کاپتہ چلاکر ان کوکیفر کردار تک پہنچانا آسان کام نہیں ہے ،اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ موجودہ حکومت کے دور میں متعدد فرقہ پرست جماعتوں کو کالعدم قرار دیاگیا، کئی جماعتوں کے رہنماو¿ں کو جیل بھیجا گیا، لیکن وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ فرقہ پرست جماعتوں کے سربراہوں کے خلاف مقدمات نہیں تو ان کے خلاف کس قانون کے تحت کارروائی کریں، سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے ۔ حکومت کی یہی وہ بات ہے جو عام شہریوں کی سمجھ سے بالاتر ہے ۔ وزیر داخلہ کی جانب سے کالعدم اور فرقہ پرست جماعتوں کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے کے حوالے سے یہ عذر کہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ ہی نہیں تو کارروائی کیسے کی جاسکتی ہے ،چادر پھیلا کر سورج کو چھپانے کے مترادف ہے ۔ جب وزیر داخلہ خود یہ اعتراف کررہے ہیں کہ فرقہ پرست جماعتیں موجود ہیں تو ان کا یہ کہناکہ ان فرقہ پرست جماعتوں کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی پر ایک بڑے سوال کے مترادف ہے، جب وزیر داخلہ خود کسی جماعت کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ فرقہ پرست ہے تو اس سے ظاہر ہوتاہے کہ انہوں نے یہ رائے ہوا میں نہیں بنائی ہوگی، بلکہ متعلقہ جماعتوں یا تنظیموں کے اقوال و افعال کی بنیاد پر ہی قائم کی ہوگی اور جن پارٹیوں یا رہنماﺅں کے قول وفعل سے ان کی فرقہ پرستی عیاں ہو اس کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کوئی مقدمہ درج نہ کرایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں یا انٹیلی جنس نیٹ ورک میں ایسے بعض عناصر موجود ہیں جو ان فرقہ پرست جماعتوں کی پس پردہ حمایت کررہے ہیں ۔وزیر داخلہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ قانون کی کمی نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس حکام کی نااہلی ہے کہ ملک میں فرقہ پرستی پھیلانے والے عناصر نہ صرف یہ کہ آزادی سے اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، بلکہ بقول وزیر داخلہ اس طرح کی ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ نے گزشتہ انتخابات میں حصہ بھی لیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس نیٹ ورک میں سے کسی نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے وزیر داخلہ سے ملاقات بھی کرلی اور نہ صرف یہ وزیر داخلہ صاحب اس سے بے خبر رہے کہ وہ کس سے ملاقات کررہے ہیں، بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس اہلکاروں نے بھی وزیر داخلہ کو یہ نہیں بتایا کہ ان سے ملاقات کرنے والا کون ہے؟ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ میری ملاقات شناختی کارڈ کی بندش پر ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ ایسا قانون بتایا جائے جس کے تحت کوئی سرکاری افسر کسی وزیر سے نہیں مل سکتا، لیکن لوگوں سے یہ سوال پوچھنے والے وزیر داخلہ خود یہ بتانے کو تیار نہیں ہےں کہ کسی کالعدم تنظیم کے رہنما یا اہلکار کو ان سے ملوانے والے اور اس کے بارے میں وزیر داخلہ کو پیشگی اطلاع دینے میں ناکام رہنے والے انٹیلی جنس افسران کے خلاف انہوںنے کیاکارروائی کی؟اور آئندہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا پیش بندیاں کی گئی ہیں۔
چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ گزشتہ 5 سال کا ریکارڈ نکلوائیں، کسی کو علم نہیں تھا کہ ملک میں کتنی کالعدم تنظیمیں ہیں، میں نے نیکٹا کو ہدایت کی کہ نیا قانون لایا جائے جس کے تحت فرقہ پرستوں اور دہشت گردوں پر زمین تنگ کی جائے ،لیکن قانون سازی کے حوالے سے میری مدد کرنے کے بجائے سب الٹا کردیا گیا، اگر کراچی کی صورتحال کے حوالے سے 28 اگست 2013 ءکے اخبارات نکال لیں تو کہا جاتا تھا کہ کراچی کو فوج کے حوالے کیا جائے، لیکن میں نے اس مسئلے کو اسمبلی میں اٹھایا اور کہا کہ اس پر بحث ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے کراچی کے دورے میں اس وقت کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سے کہا کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے ہمیں مل کر مسئلے کا حل نکالنا ہے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ قائم علی شاہ نے بھی کراچی آپریشن میں بھرپورساتھ دیا، ہم سب نے مل کر شہر قائد کے حالات بہتر بنائے۔ میں نے کبھی کریڈٹ نہیں لیا لیکن کچھ لوگوں کو خواہ مخواہ پوائنٹ اسکورنگ کا شوق ہوتا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ کا یہ دعویٰ خوش آئند ہے کہ اب ملک میں کالعدم تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت نہیں اوراگر کوئی اب ان کا نام بھی لے تو اس کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔ پابندی کی شکار فرقہ وارانہ جماعتیں پابندی ہٹانے کی اپیل کرتی رہتی ہیں لیکن ہم نے کوئی اپیل نہیں مانی لیکن ایسی جماعتوں کے رہنماعدالت سے رجوع کرلیتے ہیں۔ یقیناً وزیر داخلہ کی خواہش کے مطابق یہ راستہ بھی بند ہونا چاہیے اور اس کے لیے سب کو مل کر کاوشیں کرناچاہئیں۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیر داخلہ دہشت گرد ی اور فرقہ واریت میں مصروف رہنماﺅں اور کارکنوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کاسلسلہ جاری رکھیں گے اور ان تنظیموں کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کرنے اور ایسے لوگوں کو اقتدار کی غلام گردشوں میں آزادانہ گھومنے پھرنے سے روکنے میں ناکام رہنے والے انٹیلی جنس افسران اور اہلکاروں کے خلاف بھی دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کی سہولت کاری کے الزام میں مقدمات درج کرائے جائیں گے تاکہ کسی سرکاری افسرکو قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی جرات نہ ہو۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں